حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ؟ قَالَ:" أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ" قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ:" أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَأْكُلَ مَعَكَ" قَالَ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ:" أَنْ تُزَانِيَ حَلِيلَةَ جَارِكَ" وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ سورة الفرقان آية 68 الْآيَةَ.
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 49
´قرآن و حدیث ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الذَّنْبِ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ قَالَ أَنْ تَدْعُوَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ قَالَ ثُمَّ أَيٌّ قَالَ ثمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ خَشْيَةَ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ قَالَ ثمَّ أَي قَالَ ثمَّ أَن تُزَانِي بحليلة جَارك فَأنْزل الله عز وَجل تَصْدِيقَهَا (وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يزنون وَمن يفعل ذَلِك يلق أثاما) الْآيَة . . .»
”. . . سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! کون سا گناہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ جس اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے تم اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ۔“ اس نے کہا: پھر اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے۔“ پھر اس نے دریافت کیا کہ پھر اس کے بعد کون سا بڑا گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اپنے ہمسایہ و پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کی تصدیق قرآن مجید میں نازل فرمائی کہ «وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يزنون وَمن يفعل ذَلِك يلق أثاما» الخ یعنی ”مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے کو معبود نہیں بناتے اور جس جان کو اللہ نے مارنے کو حرام ٹھہرایا ہے نہیں مارتے ہیں، مگر کسی حق کے ساتھ اور نہ بدکاری کرتے ہیں . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 49]
تخریج:
[صحيح بخاري 6861]،
[صحيح مسلم 86/142، ترقيم دارالسلام: 258]
فقہ الحدیث
➊ «ند نظير» (مثل اور شریک) کو کہتے ہیں۔ دیکھئیے: [فتح الباري 163/8 تحت ح: 4477]
«انداد» سے اللہ کے سوا آلہہ (معبودان باطلہ) مراد ہیں۔ [النهايه فى غريب الحديث لابن الاثير ج5 ص35]
معلوم ہوا کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ»
”بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔“ [لقمٰن: 13]
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ»
”بے شک اللہ اپنے ساتھ شرک معاف نہیں کرتا اور اس کے علاوہ وہ جسے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔“ [النساء: 116]
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ»
”بے شک جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو یقینا اللہ نے اس کے لئے جنت حرام قرار دی ہے اور اس شخص کا ٹھکانا (جہنم کی) آگ ہے۔“ [المائدة: 72]
ان دلائل کے باوجود بہت سے لوگ شرک کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ شرک کرنے والے قیامت کے دن اللہ کے سامنے کہیں گے:
«وَاللَّـهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ»
”اللہ کی قسم! جو ہمارا رب ہے، ہم مشرک نہیں تھے۔“ [الانعام: 23]
ارشاد ہو گا:
«انْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ»
”دیکھو! یہ اپنے آپ پر کیسے جھوٹ بول رہے ہیں، اور جو (معبودان باطلہ) یہ لوگ گھڑتے تھے ان سے (آج) گم ہو گئے ہیں۔“ [الانعام: 24]
➋ بےگناہ کا قتل کبیرہ گناہ ہے اور خاص طور پر غربت یا نام نہاد غیرت کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل کر دینا بہت ہی بڑا گناہ ہے، جسے اس حدیث میں شرک کے بعد دوسرے نمبر پر ذکر کیا گیا ہے۔ دور جاہلیت میں بعض جاہل لوگ اپنی اولاد کو غربت یا جھوٹی عزت کی بنیاد پر قتل کر دیتے تھے۔ موجودہ دور میں اسقاط حمل اور خاندانی منصوبہ بندی بھی قتل اولاد کے مترادف ہے۔
تنبیہ:
اگر کسی شخص کی بیوی بیمار ہو یا اس کی موت یا شدید بیماری کا خوف ہو تو دوسرے دلائل کی رو سے شوہر عزل کر سکتا ہے۔ مثلاً دیکھئے: [صحیح مسلم: 138؍1440 وترقیم دار السلام: 3561]
بعض صحابہ وتابعین سے اس کا جواز اور بعض سے کراہت ثابت ہے۔ دیکھئے: [موطأ امام مالک ج2 ص595، مصنف ابن ابی شیبہ ج4 ص217۔ 222] اور [السنن الکبریٰ للبیہقی ج7 ص230۔ 231]
یاد رہے کہ نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«تزو جوا الودود الولود فإني مكاثر بكم الأمم»
”محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میری امت (سب سے) زیادہ ہو۔“ [ابوداؤد: 2050 وسنده حسن، اضواءالمصابيح: 3091]
➌ زنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے، لیکن اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا کئی گنا زیادہ جرم اور حرام ہے۔
➍ قرآن و حدیث ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں، کیونکہ دونوں منزل من اللہ اور وحی ہیں۔ وحی میں تضاد و تعارض کبھی نہیں ہوتا۔
➎ صحابہ کرام علم سیکھنے پر بہت زیادہ توجہ دیتے تھے۔
➏ سوال کرنا تقلید نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ»
”اگر تم نہیں جانتے تو اہل ذکر (علماء) سے پوچھ لیا کرو۔“ [النحل: 43] ۔
عالم و مفتی کو چاہئے کہ وہ لوگون کو دلیل (کتاب وسنت اور اجماع) سے جواب دے۔
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 49
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4477
´شرک سب سے بڑا گناہ ہے`
«. . . سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ فرمایا اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو برابر ٹھہراؤ حالانکہ اللہ ہی نے تم کو پید اکیا ہے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4477]
� لغوی توضیح:
«نِدًّا» مثل، نظیر، شریک۔
«حَلِيلَةَ جَارِكَ» پڑوسی کی بیوی۔
فہم الحدیث:
معلوم ہوا کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے اور شرک یہ ہے کہ اللہ کی توحید ربوبیت، الوہیت یا اسماء و صفات میں کسی کو اس کے برابر سمجھا جائے۔ شرک توحید کی ضد ہے جیسے کفر ایمان کی ضد ہے۔ [الايمان حقيقة، خوارمه ص: 109]
قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے گا معاف کردے گا. [سورة النساء: آيت 48]
اسی باعث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو یہ وصیت فرمائی تھی کہ الله کے ساتھ شرک نہ کرنا خواہ تمہیں قتل کر دیا جائے اور جلا دیا جائے . [صحيح: صحيح الترغيب 2516، ارواء الغليل 89/7]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 53
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1257
سب سے بڑے گناہ۔
«وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: اي الذنب اعظم؟ قال: ان تجعل لله ندا وهو خلقك قلت: ثم اي؟ قال: ان تقتل ولدك خشية ان ياكل معك قلت: ثم اي؟ قال: ان تزاني بحليلة جارك متفق عليه»
ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ تو اللہ کے لئے شریک بنائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا۔ میں نے کہا: پھر کون سا؟ فرمایا: یہ کہ تو اپنے بچے کو قتل کرے اس ڈر سے کہ تیرے ساتھ کھائے گا میں نے کہا: پھر کون سا؟ فرمایا: یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ باہم بد کاری کرے۔“ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1257]
تخریج:
[بخاري 6861]،
[مسلم الايمان 142]،
[تحفة الاشراف7/42]
فوائد:
➊ سب گناہوں سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ہے انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ ایسے لوگوں کو شریک اور برابر ٹھہرائے جنہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا «فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّـهِ أَندَادًا وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ» [2-البقرة:22] ”پس تم دیدہ دانستہ اللہ کے لئے شریک نہ بناؤ۔“
یہ اللہ کی غیرت کو چیلنج ہے اور اتنا بڑا گناہ ہے کہ دوسرے گناہ اگر اللہ چاہے تو بخش دے مگر اسے ہرگز معاف نہیں کرے گا۔
«إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ» [4-النساء:48]
”یقیناًً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔“
اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر انبیاء بھی اس کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان کے تمام اعمال برباد ہو جائیں:
«وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ» [ 39-الزمر:65 ]
”اور یقیناً وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ سے پہلے تھے کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرا عمل ضرور ہی ضائع ہو جائے گا اور تو خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائے گا۔“
➋ شرک کے بعد قتل ناحق اور اس کے بعد زنا کبیرہ گناہ ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّـهِ إِلَـهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ» [25-الفرقان:68]
”اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ ہی اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں۔“
قتل ناحق اس وقت قباحت میں کئی گنا بڑھ جاتا ہے جب کوئی شخص اپنے ہی بچے کو اس خطرے سے قتل کر دے کہ وہ اس کے ساتھ کھائے گا اور اللہ کے وعدے پر بھی یقین نہ کرے۔
«وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ» [ 17-الإسراء:31]
”اپنی اولاد کو فقیری کے ڈر سے قتل مت کرو ہم انہیں اور تمہیں رزق دیتے ہیں۔“
ایک قتل ناحق دو سرا اپنے لخت جگر کا قتل اور قطع رحم، تیسرا اللہ کے وعدے کی تکذیب اور اس پر بدظنی۔
➌ زنا کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَى إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا» [17-الإسراء:32]
”اور زنا کے قریب نہ جاؤ یقیناً وہ بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔“
زنا کی قباحت اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب کوئی شخص اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے کیونکہ ہمسایہ کا حق تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے اس کی جان مال اور آبرو کی حفاظت کی جائے لیکن اس کے برعکس جب ہمسایہ ہی اپنے ہمسائے کی عزت برباد کرے اس کی بیوی کو خاوند کے خلاف اپنی طرف مائل کرے اس کا گھر اجاڑنے کے درپے ہو جائے تو یہ زنا کے ساتھ کئی جرائم ملنے کی وجہ سے بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے۔
➍ «ان تراني» باب مفاعله سے ہے اس میں مشارکت ہوتی ہے یعنی ہمسائے کی بیوی بھی اس گناہ میں شریک ہو اس کی رضامندی سے تم یہ گناہ کرو۔ اس میں مزید قباحت اس لئے ہے کہ جب وہ کسی غیر کے ساتھ اپنی رضامندی کے ساتھ برائی کرے گی تو خاوند سے اس کی وفا ختم ہو جائے گی جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کا گھر اجڑ جائے گا۔
➎ «حليلة جارك» ہمسائے کی بیوی کو «حليلة» اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اپنے خاوند کے لئے حلال ہوتی ہے مقصد یہ احساس دلانا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے لئے حلال ہے تمہارے لئے حلال نہیں۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 84
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4018
´سب سے بڑے گناہ کا بیان (واصل عن ابی وائل عن عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی سفیان سے روایت کرنے میں یحییٰ اور عبدالرحمٰن کے اختلاف کا ذکر)۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم کسی کو اللہ کے برابر (ہم پلہ) ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے“، میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اس ڈر سے اپنے بچے کو مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔“ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ آپ نے ف [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4018]
اردو حاشہ:
(1) بسا اوقات ایک عام گناہ مخصوص حالات میں بہت بڑا بن جاتا ہے، مثلاً: محسن سے بدسلوکی اور بے وفائی کرنا بری بات ہے مگر اللہ تعالیٰ جیسے محسن و منعم حقیقی سے بے وفائی اور اس کی نافرمانی کرنا، جو کہ تنہا خالق و رازق ہے، انتہائی قبیح بات ہے۔
(2) قتل ناحق کبیرہ گناہ ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور دیگر بہت سے اہل علم نے قتل ناحق کو، شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ یقینا قتل ناحق کبیرہ گناہ ہے، پھر اپنی اولاد کو قتل کرنا صرف کھانے کی وجہ سے، یہ انتہائی کبیرہ گناہ ہے۔
(3) زنا بذات خود کبیرہ گناہ ہے مگر پڑوسی کی بیوی سے! جو انتہائی اعزاز و اکرام اور اعتماد کی جگہ ہے، یہ کام انتہائی قباحت کو پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح گناہ کرنے والا اگر کوئی عالم ہو تو اس کے گناہ کی شدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے، نیز زمان اور مکان کے اعتبار سے بھی گناہ کی شدت و شناعت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4018
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2310
´زنا بہت بڑا گناہ ہے۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ) تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے“، میں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے بچے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا“، میں نے کہا پھر اس کے بعد؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو“، نیز کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی تصدیق کے طور پر یہ آیت نازل ہوئی «والذين لا يدعون مع ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2310]
فوائد ومسائل:
1: سورۃ الاسراء میں ہے (وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا) (بني إسرائیل:32) زنا کےے قریب نہ جاو۔
بلاشبہ یہ بے حیائی کا کام اور بہت راستہ ہے۔
2: لفظ تزاني میں ساز باز اور رضا مندی کا مفہوم پا یا جاتا ہے جب رضا مندی سے اس عمل کو برائی اور بے حیائی ثابت ہے تو جبرواکراہ سے یہ کام اور بھی زیادہ برترین ہوگا۔
شادی شدہ کے لئے اس کی حدرجم (سنگساری) اور غیر شادی شدہ کے لئے سو درے اور ایک سال کے لئے دیس نکالا (جلاوطن) ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2310
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3182
´سورۃ الفرقان سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ تم اللہ کا کسی کو شریک ٹھہراؤ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ صرف اسی ایک ذات نے تمہیں پیدا کیا ہے (اس کا کوئی شریک نہیں ہے)۔“ میں نے کہا: پھر کون سا گناہ بہت بڑا ہے؟ فرمایا: ”یہ ہے کہ تم اپنے بیٹے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے گا“، میں نے کہا: پھر کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3182]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مؤلف نے اس حدیث کو ارشاد باری تعالیٰ:
﴿وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا﴾ (الفرقان: 68) کی تفسیرمیں ذکر کیا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3182
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3183
´سورۃ الفرقان سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”بڑا گناہ یہ ہے کہ تم کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراؤ، جب کہ اسی نے تم کو پیدا کیا ہے، اور تم اپنے بیٹے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ رہے گا تو تمہارے ساتھ کھائے پیئے گا، یا تمہارے کھانے میں سے کھائے گا، اور تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرو، اور آپ نے یہ آیت پڑھی «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق أثاما يضاعف له العذاب يوم القيامة ويخلد فيه مهانا» ”اللہ کے بن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3183]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اللہ کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود جان کر نہیں پکارتے،
اور کسی جان کو جس کا قتل اللہ نے حرام کر دیا ہے،
ناحق (یعنی بغیر قصاص وغیرہ) قتل نہیں کرتے،
اور زنا نہیں کرتے،
اور جو ایسا کچھ کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا سے دوچار ہو گا،
قیامت کے دن عذاب دو چند ہو جائے گا اور اس میں ہمیشہ ذلیل ورسوا ہو کر رہے گا (الفرقان: 68-69)
2؎:
سفیان کی صرف واصل سے روایت (رقم: 3182) میں بھی سند میں ”عمروبن شرحبیل“ کا اضافہ ہے،
دراصل سفیان کی دونوں روایتوں میں یہ اضافہ موجود ہے،
شعبہ کی دونوں روایتوں میں یہ اضافہ نہیں ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3183
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:103
103- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: کون سا عمل زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔“ میں نے دریافت کیا: پھر کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر نماز کو وقت پر ادا کرنا۔“ میں نے عرض کی: پھر کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔“ میں نے دریافت کیا: کون سا کبیرہ گناہ بڑا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:103]
فائدہ:
اس حدیث میں افضل ترین اعمال میں سے کچھ کا ذکر ہوا ہے۔ مختلف احادیث میں مختلف افضل ترین اعمال بیان کیے گئے ہیں۔ اس کی کئی ایک وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ موقع محل اور سائل کی مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر مختلف جوابات دئے۔ حقیقت میں وہ تمام اعمال ہی افضل ہیں جن کا صحیح احادیث میں ذکر آیا ہے۔ اس حدیث کے دوسرے حصے میں کچھ کبیرہ گناہوں کا ذکر بھی موجود ہے، مثلاً شرک، ناحق قتل اور زنا۔ یہ تینوں گناہ ظلم کی اعلی ترین شکلیں ہیں۔ شرک اللہ رب العالمین کے ساتھ ظلم ہے اور دوسرے دو گناہوں (ناحق قتل اور زنا) کا تعلق حقوق الناس سے ہے۔ افسوس کہ جس قدر یہ کبیرہ گناہ تھے، اتنے ہی زیادہ کیے جا رہے ہیں۔ شیطان کبیرہ گناہوں کو آسان کر کے پیش کرتا ہے، حالانکہ یہ مشکل ترین کام ہیں، اور انسان کی دنیا و آخرت کو تباہ کر دیتے ہیں اور آخر جہنم میں عذاب الیم کا مستحق بنا دیں گے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 103
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 258
حضرت عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں، ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کون سا گناہ اللہ کے ہاں بڑا ہے؟ فرمایا: ”یہ کہ تم کسی کو اللہ کے برابر قرار دو، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔“ اس نے پوچھا پھر کون سا؟ فرمایا: ”کہ تم اپنی اولاد کو اس اندیشہ سے قتل کردو کہ وہ تمھارے ساتھ کھائے گی۔“ اس نے پوچھا پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے جواب کی تصدیق میں اتارا: ”جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:258]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
نِدٌّ:
نظیر و مثیل،
برابر کی چوٹ کا۔
(2)
حَلِيلَة:
بیوی،
کیونکہ وہ خاوند کے ساتھ ٹھہرتی ہے اور اس کے لیے حلال ہے۔
فوائد ومسائل:
کسی دنیوی سبب سے وہ فقر وفافقہ ہو یا اس کا اندیشہ وخطرہ اولاد کی پیدائش کو روکنا،
شرک کے بعد سب سے بڑا جرم ہے جس کا غیر مسلموں کی سازش کا شکار ہو کر مسلمان حکومتیں اور افراد ارتکاب کر رہے ہیں۔
(یعنی ضبط ولادت کے لیے غیر مسلم فنڈ وغیرہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں،
جبکہ اپنے ممالک میں زیادہ ولادتوں پر ٹیکس معاف کرتے ہیں۔
)
اور انسان اپنے پڑوسی کی عزت وناموس کا محافظ ہے،
اگر وہی اس کی عزت پر ڈاکہ ڈالنے لگے یا اس کو غلط راہ پرڈالنے کی کوشش کرے،
تو یہ تو باڑ کھیت کو کھانے لگی والا معاملہ ہے،
اس لیے اس کو انتہائی ناگوار اور سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 258
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4477
4477. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔“ میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4477]
حدیث حاشیہ:
ند کہتے ہیں نظیر یعنی جوڑ اور برابر والے کو انداد اس کی جمع ہے۔
ند سے صرف یہی مراد نہیں ہے کہ اللہ کے سوا اور دوسرا کوئی اور خدا سمجھے کیونکہ عرب کے اکثر مشرک اور دوسرے ملکوں کے مشرکین بھی خدا کو ایک ہی سمجھتے تھے جیساکہ فرمایا ﴿وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ﴾ (لقمان: 25)
یعنی اگر تم ان مشرکوں سے پوچھو کہ زمین وآسمان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ توفورا کہہ دیں گے کہ صرف اللہ پاک ہی خالق ہے۔
اس کہنے کے باوجود بھی اللہ نے ان کو مشرک ہی قرار دیا۔
بات یہ ہے کہ اللہ کی جوصفات خاص ہیں جیسے محیط، سمیع، علیم، قدرت کاملہ، تصرف کامل ان صفات کو کوئی شخص کسی دوسرے کے لیے ثابت کرے، اس نے بھی اللہ کا ند یعنی برابر والا اس دوسرے کو ٹھہرایا یا مثلا کوئی یوں سمجھے کہ فلاں پیر یا پیغمبر دور یا نزدیک ہر چیز کو دیکھ لیتے ہیں یا ہر بات ان کو معلوم ہوجاتی ہے یا وہ جو چاہیں سو کرسکتے ہیں تو وہ مشرک ہوگیا۔
اسی طرح جو کوئی اللہ کے سوا اور کسی کی پوجا پاٹ کرے، اس کے نام کا روزہ رکھے، اس کی منت مانے، اس کے نام پر جانور کاٹے، اس کی قبر پر نذر ونیازچڑھائے، اس کا نام اٹھتے بیٹھتے یاد کرے، اس کے نام کا وظیفہ پڑھے وہ بھی مشرک ہو جاتاہے۔
توحید یہ ہے کہ اللہ کے سوا نہ کسی اور کو پکا رے نہ اس کی پوجا کرے بلکہ سب کو صرف اسی ایک اللہ کا محتاج سمجھے اور یہ اعتقاد رکھے کہ نفع ونقصان صرف ایک اللہ رب العالمین ہی کے ہاتھ میں ہے۔
اولاد کا دینا، بارش برسانا، روزی میں فراخی عطا کرنا، مارنا، جلانا سب کچھ صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
اگر کوئی یہ چیزیں اللہ کے سوا اور کسی پیر، پیغمبر سے مانگے تو وہ بھی بت پرستوں ہی کی طرح مشرک ہوجا تا ہے۔
الغرض تو حید کی دو قسمیں یا د رکھنے کے قابل ہیں۔
ایک تو حید ربوبیت ہے یعنی رب، خالق، مالک کے طور پر اللہ کو ایک جاننا جیسا کہ مشرکین مکہ کا قول نقل ہو ا ہے۔
یہ توحید نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔
دوسرے قسم توحید الوہیت ہے یعنی بطور الٰہ، معبود، مسجود صرف ایک اللہ رب العالمین کو ماننا۔
عبادت بندگی کی جس قدر قسمیں ہیں ان سب کو صرف ایک اللہ رب العالمین ہی کے لیے بجالانا اسی کو توحید الولوہیت کہتے ہیں۔
یہی کلمہ طیبہ لاالٰه الا اللہ کا مطلب ہے اور تمام انبیاء کرام کی اولین دعوت یہی توحید الولوہیت رہی ہے۔
وباللہ التوفیق۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4477
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6861
6861. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے“ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”پھر یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔“ اس نے پوچھا: پھر کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”پھر یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: ”اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کسی ایسے انسان کی جان ناحق لیتے ہیں جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے سخت گناہوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6861]
حدیث حاشیہ:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہذلی ہیں اسلام میں نمبر چھ پر ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص الخاص خادم ہیں سفر و حصر میں۔
دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور تیسری دفعہ مدینہ میں دائمی ہجرت کی اور خاص طور پر جنگ بدر اور احد، خندق، حدیبیہ، خیبر اور فتح مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔
آپ پستہ قد، لاغرجسم، گندم گوں رنگ اور سرپر کانوں تک نہایت نرم و خوبصورت زلف تھے اور علم و فضل میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔
اس لیے خلافت فاروقی میں کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے۔
بعد میں مدینہ آگئے اور سنہ 33ھ میں مدینہ میں ہی ساٹھ برس سے کچھ زیادہ عمر پا کر وفات پائی اور بقیع غرقد میں دفن ہوئے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6861
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4761
4761. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے سوال کیا، یا رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون سا گناہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔“ میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ تمہارے ساتھ کھائے گی۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: یہ آیت رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کے لیے نازل ہوئی: ”وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو، ہاں حق کے ساتھ قتل ہو تو اور بات ہے اور وہ زنا بھی نہیں کرتے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4761]
حدیث حاشیہ:
کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے یعنی اللہ کی عبادت میں کسی بھی غیر کو شریک کرنا یہ وہ گناہ ہے کہ اس کے کرنے والے کی اگر وہ بغیر توبہ مر جائے اللہ کے یہاں کوئی بخشش نہیں ہے۔
مشرکین ہمیشہ ہمیش دوزخ میں رہیں گے۔
جنت ان کے لئے قطعاً حرام ہے۔
اسی طرح قتل ناحق بھی بڑا گناہ ہے اور زنا کاری بھی گنا ہ کبیرہ ہے۔
اللہ ہر مسلمان کو ان سے بچائے، آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4761
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6683
6683. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک کلمہ کہا اور میں نے (اس پر قیاس کرتے ہوئے) دوسرا کلمہ کہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس حالت میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو جہنم میں جائے گا۔ میں نے دوسرا کلمہ کہا: جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ وہ اللہ کے ستاھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائےگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6683]
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ ان کلمات سے حانث نہ ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6683
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6811
6811. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس لیے قتل کرو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھانے میں شریک ہوں گے۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تمہارا اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“ یحیٰی نے بیان کیا: ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے واصل نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! پهر اس حدیث کی طرح بیان کیا۔ عمرو نے کہا: پھر میں نے اس حدیث کا ذکر عبدالرحمن بن مہدی سے کیا: انہوں نے سفیان ثوری سے، انہوں نے اعمش منصور اور واصل سے، ان سب نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6811]
حدیث حاشیہ:
جس میں ابووائل اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بیچ میں ابومیسرہ کا واسطہ نہیں ہے۔
ان جملہ روایات میں بعض کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے جو بہت بڑے گناہ ہیں مگر توبہ کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہوا ہے بشرطیکہ حقیقی توبہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6811
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7520
7520. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ ”میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔“ میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرنا وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔“ میں نے کہا:پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرنا.“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7520]
حدیث حاشیہ:
زنا بہر حال برا کام ہے مگر یہ بہت ہی زیادہ برا ہے۔
امام بخاری نے یہ حدیث لا کراس طرف اشارہ کیا کہ قدریہ اورمعتزلہ جو بندے کو اپنے کا افعال کا خالق کہتے ہیں وہ گویا اللہ کا برابر والا بندے کو بتاتے ہیں توان کا یہ اعتقاد بہت بڑا گناہ ہوا۔
اللہ کی عبادت کے کاموں میں کسی غیر کو شریک ساجھی بنانا شرک ہے جواتنا بڑا گناہ ہے کہ بغیر توبہ کئے مرنے والے مشرک کے لیے جنت قطعا حرام ہے۔
سارا قرآن مجید شرک کی برائی بیان کرنےسے بھرا ہواہے پھربھی نام نہاد مسلمان ہیں جنہوں نےمزارات بزرگان کاعبادت گاہ بنایا ہوا ہے۔
مزاروں پرسجدہ کرنا بزرگوں سےاپنی مرادیں مانگنا اس کے لیے نذر ونیاز کرناعام جہال نے معمول بنا رکھا ہے جو کھلا ہوا شرک ہے ایسے مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ اصل اسلام سے کس قدر دور جا پڑے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7520
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7532
7532. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سا جرم اللہ کے ہاں سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیاہے۔“ اس نے پوچھا:پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو اپنے بچوں کو اس ڈر سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔“ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نےفرمایا: ”یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے۔“ اللہ تعالیٰ نے اس تصدیق (ان الفاظ میں) نازل فرمائی: ”(اللہ کے بندے وہ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی اور الہٰ کو نہیں پکارتے اور نہ اللہ کی حرام کردہ کسی کو ناحق قتل ہی کرتے ہیں اور نہ زنا ہی کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا وہ ان کی سزا پاکے رہے گا۔ اس کو دو گنا عذاب دیا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7532]
حدیث حاشیہ:
اثامہ ایک دوزخ کا نالہ ہے وہ اس میں ڈالا جائے گا۔
اس حدیث کا مناسبت ترجمہ باب سے اس طرح ہےکہ آنحضرت ﷺ کی تبلیغ دو قسم کی تھی۔
ایک تو یہ کہ خاص قرآن کو جو آیتیں اترتیں و ہ آپ لوگوں کو سناتے دوسرے قرآن سےجو تیں نکال کر آپ بیان کرتے پھر آپ کےاستنباط ارشاد کےمطابق قرآن میں صاف صاف وہی اللہ کی طرف سےاتارا جاتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7532
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4477
4477. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔“ میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4477]
حدیث حاشیہ:
1۔
(نِدَّا)
ہمسر اور برابر والے کو کہتے ہیں، (أَندَاد)
اس کی جمع ہے۔
مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ ہی کو خالق ارض وسماء مانتے تھے اس کے باوجود انھیں مشرک قراردیا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاص صفات، مثلاً:
محیط، سمیع،علیم، قدیر کو اللہ کے ماسوا میں مانتے تھے، لہذا کوئی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرتا ہے، اس کے نام پر ذبح کرتا ہے یا اس کی نذر مانتا ہے یا اس کی قبر پر نذرونیاز چڑھاتا ہے یا اس کے نام کا وظیفہ پڑھتا ہے تو گویا وہ اسے اللہ کا ہمسر اور(نِد)
مانتا ہے۔
یہ توحید کے منافی ہے۔
توحید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرے بلکہ یہ عقیدہ رکھے کہ نفع ونقصان صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اولاد دینا، بارش برسانا، رزق میں فراخی کرنا، زندگی دینا اورمارنا صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
2۔
الغرض توحید کی دوقسمیں ہیں:
ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کوخالق اورمالک تسلیم کیا جائے، اسے توحید ربوبیت کہتے ہیں۔
اس توحید کے مشرکین بھی قائل تھے۔
یہ توحید نجات کے لیے کافی نہیں۔
دوسری قسم یہ ہے کہ معبود حقیقی صرف اللہ کو مانا جائے، عبادت کی جملہ اقسام صرف ایک کےلیے بجالائیں، اسے توحید الوہیت کہتے ہیں۔
تمام انبیاءؑ اسی توحید کے علمبردار تھے اور اسی کی دعوت دیتے تھے۔
اسی پر قیامت کے دن نجات کا دارومدار ہے، مشرکین مکہ اس توحید کے منکر تھے، اسی بنا پر انھیں ابدی جہنمی کہا گیا ہے۔
3۔
دور جاہلیت میں لوگ مفلسی کے ڈر سے اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی ماردیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں اس پر تنبیہ فرمائی:
"مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، انھیں اور تمھیں ہم ہی رزق دیتے ہیں، یقیناً ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
" (فتح الباری: 204/8)
یہ گناہ درحقیقت کئی گناہوں پر مشتمل ہے، اول بے گناہ کو قتل کرنا، دوسرے اپنے بیٹے کو مارنا، تیسرے ایسے شخص کو قتل کرنا جو اپنا دفاع نہ کرسکتا ہو اور چوتھے اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ ہمارے ساتھ کھائے گا، گویا وہ روزی رساں ہیں۔
اللہ کے روزی دینے پر اعتماد وتوکل نہیں۔
افسوس! کہ آج کا قتل اولاد کا گناہ عظیم خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر پوری دنیا میں بڑے منظم طریقے سے ہورہاہے۔
مردحضرات ”بہتر تعلیم وتربیت“ کے نام پر اورخواتین اپنے مزعومہ حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اس جرم کا سرعام ارتکاب کررہی ہیں۔
زمانہ جاہلیت کا یہ فعل ہمارے تعلیم یافتہ دور میں بڑے زور وشورسے جاری ہے۔
4۔
زنا بہت گھناؤنا جرم ہے۔
اس کی شناعت وقباحت کو ملاحظہ کریں کہ شادی شدہ زنا کار اس قابل نہیں کہ اسے دنیا میں زندہ رہنے دیا جائے بلکہ پتھر مار مار کر اسے صفحہ ہستی سے مٹادینا شریعت کا اہم تقاضا ہے، بالخصوص جب وہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے منہ کالا کرے جس کے احترام و اکرام کی شریعت نے بہت تاکیدکی ہے۔
واللہ المستعان۔
5۔
صحیح بخاری کی ایک روایت میں صحابی کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کی تصدیق ان الفاظ میں نازل فرمائی ہے:
"اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور نہ کسی ناحق جان کو قتل کرتے ہیں اور وہ زنا بھی نہیں کرتے اور جو انسان یہ کام کرے گا، اس نے بڑے گناہ کا ارتکاب کیا، قیامت کے دن اسے دوگنا عذاب دیا جائے گا۔
" (بني إسرآئيل: 31: 17)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4477
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4761
4761. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے سوال کیا، یا رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون سا گناہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔“ میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ تمہارے ساتھ کھائے گی۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: یہ آیت رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کے لیے نازل ہوئی: ”وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو، ہاں حق کے ساتھ قتل ہو تو اور بات ہے اور وہ زنا بھی نہیں کرتے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4761]
حدیث حاشیہ: اسلامی قانون میں قتل حق کی پانچ صورتیں حسب ذیل ہیں:
۔
قتل عمد کے مجرم کو قصاص میں قتل کردیا جائے۔
۔
دین حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ کی جائے۔
۔
اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی کوشش اور بغاوت کرنے والوں کو کچل دیا جائے۔
۔
شادی شدہ مرد یا عورت کو زنا کرنے کی صورت میں رجم کیا جائے۔
۔
اسلام کے بعد دوبارہ کفر اختیار کرنے، یعنی مرتد ہونے کی سزا بھی قتل ہے۔
صرف یہی پانچ صورتیں ہیں، جن میں انسانی جان کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اور اسے قتل کرنا حق کے زمرے میں آتاہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4761
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6683
6683. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک کلمہ کہا اور میں نے (اس پر قیاس کرتے ہوئے) دوسرا کلمہ کہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس حالت میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو جہنم میں جائے گا۔ میں نے دوسرا کلمہ کہا: جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ وہ اللہ کے ستاھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائےگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6683]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث میں لا إله إلا الله اور سبحانَ اللہ و بحمدِہ سبحانَ اللہ العظیمِ پر کلمات کا اطلاق ہوا ہے۔
اگرچہ عرف عام میں یہ کلام نہیں ہیں، لیکن اگر کوئی شخص قسم اٹھاتے وقت ان اذکار کو بھی اپنی نیت میں شامل کرتے ہوئے قسم اٹھاتا ہے کہ میں آج کلام نہیں کروں گا اور پھر اذکار کرتا ہے تو اس کی قسم ٹوٹ جائے گی۔
(2)
اس مسئلے کی ایک نوعیت یہ ہے کہ اگر کسی نے قسم اٹھائی کہ وہ زید کو سلام نہیں کرے گا تو اگر زید نے اس کے ساتھ نماز پڑھی اور دوسرے شخص نے سلام پھیرا تو قسم نہیں ٹوٹے گی۔
اگرچہ شرعی طور پر اس کا سلام زید کو بھی شامل ہے لیکن عرف عام میں ایسا نہیں ہوتا، تاہم اگر اس نے اس قسم کے شرعی سلام کو بھی اپنی نیت میں شامل کیا تھا تو قسم ٹوٹ جائے گی۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 691/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6683
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6811
6811. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس لیے قتل کرو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھانے میں شریک ہوں گے۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تمہارا اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“ یحیٰی نے بیان کیا: ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے واصل نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! پهر اس حدیث کی طرح بیان کیا۔ عمرو نے کہا: پھر میں نے اس حدیث کا ذکر عبدالرحمن بن مہدی سے کیا: انہوں نے سفیان ثوری سے، انہوں نے اعمش منصور اور واصل سے، ان سب نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6811]
حدیث حاشیہ:
(1)
حلیلہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ خاوند کا اس سے مباشرت کرنا حلال ہوتا ہے یا دونوں ایک بستر میں پڑاؤ کرتے ہیں۔
(2)
اگرچہ زنا ہر لحاظ سے بے حد گندا اور برا ہے لیکن ہمسائے کی بیوی سے بدکاری کرنا اس لیے بہت بڑا اورعظیم گناہ ہے کہ اس کا احترام اور حق دوسرے لوگوں سےزیادہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں، اس شخص کا ایمان کامل نہیں ہے۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6016)
بہرحال اس حدیث سے زنا کی قباحت معلوم ہوتی ہے، خاص طور پر جب اپنے ہمسائے کی بیوی سے منہ کالا کیا جائے تو اس کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔
(فتح الباري: 142/12)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6811
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6861
6861. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے“ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”پھر یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔“ اس نے پوچھا: پھر کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”پھر یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: ”اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کسی ایسے انسان کی جان ناحق لیتے ہیں جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے سخت گناہوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6861]
حدیث حاشیہ:
(1)
اپنی اولاد کو اس لیے قتل کرنا کہ وہ اس کے ساتھ کھائیں گے سنگین جرم ہے کیونکہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفتِ رزاقیت سے انکار کرنا ہے اور یہ متعدد آیات قرآنی کے انکار کو لازم ہے۔
(2)
قتل اولاد تو مطلق طور پر کبیرہ گناہ ہے اور ساتھ کھانے کی قید بطور غالب کے ہے کیونکہ اس وقت کے کفار کی یہی عادت تھی۔
افسوس کہ آج کل مسلمان بھی اس کوتاہی کا شکار اور خاندانی ”منصوبہ بندی“ میں گرفتار ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6861
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7520
7520. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ ”میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔“ میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرنا وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔“ میں نے کہا:پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرنا.“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7520]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں کئی ایک فتنوں نے جنم لیا۔
ان میں سے ایک فتنہ خلق قرآن کا تھا۔
کچھ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مخلوق ہے۔
اس کے برعکس رد عمل کے طور پر بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا کہ قرآن ہی غیر مخلوق نہیں بلکہ قرآن تلاوت کرتے وقت قاری کی آواز اور حروف بھی غیر مخلوق ہیں حتی کہ اس حد تک مبالغہ کیا گیا کہ کتابت قرآن کے بعد جو سیاہی اور کاغذ استعمال ہوا ہے وہ بھی غیر مخلوق ہے۔
محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ قاری کی آواز اور ادا ہونے والے حروف تو مخلوق ہیں البتہ تلاوت کیا جانے والا کلام غیر مخلوق ہے کیونکہ تلاوت بندے کا فعل اور اس کا کسب ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے پھر اسی بنیاد پر مسئلہ خلق افعال العباد پیدا ہوا۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق مستقل ایک رسالہ لکھا ہے جس میں دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا کہ بندوں کے افعال ان کا کسب ہیں البتہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں وہ افعال اچھے ہوں یا برے۔
بہرحال انھیں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے جبکہ معتزلہ اور جہمیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تمھیں اور جو تم عمل کرتے ہو۔
“ (الصافات: 37۔
96)
لہذا یہ عقیدہ رکھنا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہم سر ٹھہرانے کے مترادف ہے۔
یہ شرکیہ عقیدہ ہے۔
اگر انسان کی موت اسی عقیدے پر ہوئی تو ایسے مشرک پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کیا ہے قرآن مجید میں شرک کی قباحت و شناعت (گندگی)
بیان ہوئی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان آیات کا انتخاب کیا ہے جن میں شرک کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے پیش کردہ حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ بندہ اپنے فعل کا خالق نہیں۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ بندہ اپنے افعال کا خالق ہے شرک پر مبنی عقیدہ ہے۔
وہ ایسا ہے گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا اور اس کے متعلق سخت وعید ہے۔
احادیث میں شرک کو اکبر الکبائر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس بنا پر یہ عقیدہ رکھنا حرام ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7520
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7532
7532. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سا جرم اللہ کے ہاں سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیاہے۔“ اس نے پوچھا:پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو اپنے بچوں کو اس ڈر سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔“ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نےفرمایا: ”یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے۔“ اللہ تعالیٰ نے اس تصدیق (ان الفاظ میں) نازل فرمائی: ”(اللہ کے بندے وہ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی اور الہٰ کو نہیں پکارتے اور نہ اللہ کی حرام کردہ کسی کو ناحق قتل ہی کرتے ہیں اور نہ زنا ہی کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا وہ ان کی سزا پاکے رہے گا۔ اس کو دو گنا عذاب دیا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7532]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابلاغ دو قسم کا تھا:
ایک توخاص جو قرآنی آیات نازل ہوتیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سناتے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتے۔
دوسری قسم یہ تھی کہ وہ باتیں جن کا استنباط آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کرتے اور اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے، بعض اوقات اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی تصدیق اپنی کتاب میں اتارتا تاکہ کوئی انسان ان کی صداقت میں شک وشبہ نہ کرے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابلاغ میں ہمیں اس عقیدے کا سراغ نہیں ملتا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے۔
قرآن وحدیث کے مطابق یہ عقیدہ شرک پر مبنی ہے کیونکہ خالق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور صفت خلق میں کسی کو شریک کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا جرم ہے جسے شریعت نے اکبر الکبائر قرار دیا ہے۔
اگر اس عقیدے سے توبہ کے بغیر موت آئی تو ایسے انسان کا ٹھکانا جہنم ہے جس میں ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے عقائد سے محفوظ رکھے۔
آمین یا رب العالمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7532