Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
18. بَابُ رَحْمَةِ الْوَلَدِ وَتَقْبِيلِهِ وَمُعَانَقَتِهِ:
باب: بچے کے ساتھ رحم و شفقت کرنا، اسے بوسہ دینا اور گلے سے لگانا۔
حدیث نمبر: 5995
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَتْهُ، قَالَتْ: جَاءَتْنِي امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ تَسْأَلُنِي فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي غَيْرَ تَمْرَةٍ وَاحِدَةٍ، فَأَعْطَيْتُهَا فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا، ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ:" مَنْ يَلِي مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ شَيْئًا فَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے یہاں ایک عورت (اور) اس کے ساتھ دو بچیاں تھیں، وہ مانگنے آئی تھی۔ میرے پاس سے سوا ایک کھجور کے اسے اور کچھ نہ ملا۔ میں نے اسے وہ کھجور دے دی اور اس نے وہ کھجور اپنی دونوں لڑکیوں کو تقسیم کر دی۔ پھر اٹھ کر چلی گئی اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص بھی اس طرح کی لڑکیوں کی پرورش کرے گا اور ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے گا تو یہ اس کے لیے جہنم سے پردہ بن جائیں گی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5995 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5995  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بچیوں کا پالنا محبت شفقت سے ان کو رکھنا بہت بڑا نیک کام ثابت ہوا جو ایسا کرنے والے کو دوزخ سے دور کر دے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5995   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5995  
حدیث حاشیہ:
(1)
بیٹیوں سے اچھا سلوک کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان کی خورونوش اور وغیرہ کا اہتمام کرے۔
ان کی حسب وسعت پوری پوری کفالت کرے، اپنے بیٹوں کو ان پر ترجیح نہ دے، پھر ان کا نکاح کرے اور اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے صحیح انتخاب کرے۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بچیوں کی پرورش کرنا، ان سے محبت وشفقت سے پیش آنا بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔
اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو دوزخ سے دور رکھے گا جو اس صنف نازک سے اچھا برتاؤ کرتا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ بیٹیوں کا حق بیٹوں کے حق سےزیادہ مضبوط اور مؤکد ہے کیونکہ وہ کمزور اور صنف نازک ہونے کے باعث روزی کمانے، حسن تصرف اور بلند رائے رکھنے سے قاصر ہوتی ہیں۔
پھر جب وہ بیوہ ہوتی ہیں تو والد کے پاس لوٹ آتی ہیں۔
(فتح الباري: 257/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5995   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1915  
´لڑکیوں اور بہنوں کی پرورش کی فضیلت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، اس نے (کھانے کے لیے) کوئی چیز مانگی مگر میرے پاس سے ایک کھجور کے سوا اسے کچھ نہیں ملا، چنانچہ اسے میں نے وہی دے دیا، اس عورت نے کھجور کو خود نہ کھا کر اسے اپنی دونوں لڑکیوں کے درمیان بانٹ دیا اور اٹھ کر چلی گئی، پھر میرے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے آپ سے یہ (واقعہ) بیان کیا تو آپ نے فرمایا: جو ان لڑکیوں کی پرورش سے دو چار ہو اس کے لیے یہ سب جہنم سے پردہ ہوں گی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1915]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے تین کھجوریں دی تھیں،
دوکھجوریں اس نے ان دونوں بچیوں کو دے دیں اور ایک کھجور خود کھانا چاہتی تھی،
لیکن بچیوں کی خواہش پر آدھا آدھا کرکے اسے بھی ان کو دے دیا،
جس پر عائشہ رضی اللہ عنہا کو بڑا تعجب ہوا،
ان دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلے انہیں ایک کھجور دی،
پھر بعد میں جب دوکھجوریں اور مل گئیں تو انہیں بھی اس کے حوالہ کردیا،
یا یہ کہا جائے کہ یہ دونوں الگ الگ واقعات ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1915   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1418  
1418. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: ایک عورت سوال کرتی ہوئی آئی جس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں، اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا، میں نے وہی کھجور اسے دے دی۔ اس نے اسے اپنی دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور خود اس سے کچھ نہ کھایا، پھر جب وہ چلی گئی اور نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا تذکرہ کیا جس پر نبی ﷺ نے فرمایا:جو شخص ان بیٹیوں کی وجہ سے کسی تکلیف میں مبتلا ہوا اس کے لیے یہ لڑکیاں آگ سے پردہ بن جائیں گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1418]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس عورت نے ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے اپنی دونوں بیٹیوں کو دے دئیے جو نہایت قلیل صدقہ ہے اور باوجود اس کے آنحضرت ﷺ نے اس کو دوزخ سے بچاؤ کی بشارت دی۔
میں کہتا ہوں اس تکلف کی حاجت نہیں۔
باب میں دو مضمون تھے ایک تو کھجور کا ٹکڑا دے کر دوزخ سے بچنا‘ دوسرے قلیل صدقہ دینا۔
توعدی کی حدیث سے پہلا مطلب ثابت ہوگیا اور حضرت عائشہ کی حدیث سے دوسرا مطلب۔
انہوں نے بہت قلیل صدقہ دیا یعنی ایک کھجور۔
(وحیدی)
اس سے حضرت عائشہ ؓ کی صدقہ خیرات کے لیے حرص بھی ثابت ہوئی اور یہ اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد تھا لا یرجعُ من عندكَ سائل ولوبشقِ تمرة۔
رواہ البزار من حدیث أبي هريرة۔
(فتح)
یعنی تمہارے پاس سے کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانا چاہیے۔
اگرچہ کھجور کی آدھی پھانک ہی کیوں نہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1418   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1418  
1418. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: ایک عورت سوال کرتی ہوئی آئی جس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں، اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا، میں نے وہی کھجور اسے دے دی۔ اس نے اسے اپنی دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور خود اس سے کچھ نہ کھایا، پھر جب وہ چلی گئی اور نبی ﷺ تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا تذکرہ کیا جس پر نبی ﷺ نے فرمایا:جو شخص ان بیٹیوں کی وجہ سے کسی تکلیف میں مبتلا ہوا اس کے لیے یہ لڑکیاں آگ سے پردہ بن جائیں گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1418]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی عنوان سے مطابقت بایں طور ہے کہ اس عورت نے ایک کھجور کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور پھر ایک ایک حصہ ہر بیٹی کو دے دیا۔
اور حضرت عائشہ ؓ کا کردار بھی عنوان کے عین مطابق ہے کہ انہیں جو کچھ بھی میسر تھا، اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا، نیز مذکورہ فرمان باری تعالیٰ کے بھی مناسب ہے کہ وہ مشقت کی کمائی سے خرچ کرتے ہیں۔
(التوبة: 79: 9) (2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدہ عائشہ ؓ صدقہ و خیرات دینے میں بہت حریص تھیں، کیونکہ انہیں رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ تمہارے پاس اگر کوئی سائل آئے تو اسے خالی ہاتھ واپس نہیں کرنا، اگرچہ اسے کھجور کا کچھ حصہ ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
(فتح الباري: 358/3) (3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چھوٹی بچیوں پر خرچ کرنا اور ان کی خبر گیری کرنا ایک ایسا عمل ہے جو جہنم کی آگ سے نجات کا باعث ہے، اس لیے ہمیں اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے۔
(عمدةالقاري: 382/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1418