Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ
کتاب: لباس کے بیان میں
100. بَابُ حَمْلِ صَاحِبِ الدَّابَّةِ غَيْرَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ:
باب: جانور کے مالک کا دوسرے کو سواری پر اپنے آگے بٹھانا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 5966
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، ذُكِرَ شَرُّ الثَّلَاثَةِ عِنْدَ عِكْرِمَةَ، فَقَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ" أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ حَمَلَ قُثَمَ بَيْنَ يَدَيْهِ وَالْفَضْلَ خَلْفَهُ، أَوْ قُثَمَ خَلْفَهُ وَالْفَضْلَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَأَيُّهُمْ شَرٌّ أَوْ أَيُّهُمْ خَيْرٌ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے کہ عکرمہ کے سامنے یہ ذکر آیا کہ تین آدمی جو ایک جانور پر چڑھیں اس میں کون بہت برا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ مکرمہ) تشریف لائے تو آپ قثم بن عباس کو اپنی سواری پر آگے اور فضل بن عباس کو پیچھے بٹھائے ہوئے تھے۔ یا قثم پیچھے تھے اور فضل آگے تھے (رضی اللہ عنہم) اب تم ان میں سے کسے برا کہو گے اور کسے اچھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5966 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5966  
حدیث حاشیہ:
یہ کہنا کہ آگے والا برا ہے یا بیچ والا یا پیچھے والا یہ سب غلط ہے۔
ایک سواری پر تین آدمیوں کو ایک ساتھ بٹھانے کی ممانعت صرف اس وجہ سے ہے کہ جانور پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ہو۔
اب یہ حالات پر موقوف ہے کہ کس جانور پر کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔
اگر کوئی جانور ایک شخص کا بھی بوجھ نہیں اٹھا سکتا تو ایک کا بیٹھنا بھی اس پر منع ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5966   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5966  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عکرمہ کے پاس اس بات کا ذکر ہوا کہ ایک سواری پر تین آدمیوں کا بیٹھنا انتہائی معیوب ہے تو انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عمل کا حوالہ دیا اور اس موقف کی تردید کی۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ سواری کے آگے بیٹھنے کا حق تو مالک کو ہے ہاں اگر وہ خود اس حق سے دستبردار ہو جائے تو کوئی دوسرا بھی آگے بیٹھ سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت قثم یا حضرت فضل کو آگے بٹھایا تھا۔
اس حدیث سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے۔
وہ اس طرح کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل رہے تھے، ایک آدمی گدھے پر سوار وہاں سے گزرا تو اس نے عرض کی:
اللہ کے رسول! آپ سوار ہو جائیں اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔
آپ نے فرمایا:
تو اس کے آگے بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہے ہاں، اگر تو اگلا حصہ میرے لیے خوشی سے مخصوص کر دے تو ٹھیک ہے۔
اس نے کہا:
میں نے آپ کے لیے کر دیا ہے تو آپ آگے سوار ہو گئے۔
(سنن أبي داود، الجھاد، حدیث: 2572) (3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مالک، اپنی سواری پر آگے بیٹھنے کا اس لیے زیادہ حق دار ہے کہ آگے بیٹھنا انسان کے لیے باعث شرف ہے اور وہ مالک ہونے کی حیثیت سے اس شرف کا زیادہ حق دار ہے، پھر اسے راستے کے نشیب و فراز کا علم ہوتا ہے اور جانور کب اور کیسے موڑنا ہے یہ تمام خدمات آگے بیٹھ کر ہی سر انجام دی جا سکتی ہیں۔
(فتح الباري: 10/488)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5966