Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ
کتاب: لباس کے بیان میں
99. بَابُ الثَّلاَثَةِ عَلَى الدَّابَّةِ:
باب: ایک جانور سواری پر تین آدمیوں کا سوار ہونا۔
حدیث نمبر: 5965
ع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ اسْتَقْبَلَهُ أُغَيْلِمَةُ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَحَمَلَ وَاحِدًا بَيْنَ يَدَيْهِ وَالْآخَرَ خَلْفَهُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ تشریف لائے (فتح کے موقع پر) تو عبدالمطلب کی اولاد نے (جو مکہ میں تھی) آپ کا استقبال کیا۔ (یہ سب بچے ہی تھے) آپ نے از راہ محبت ایک بچے کو اپنے سامنے اور ایک کو اپنے پیچھے بٹھا لیا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5965 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5965  
حدیث حاشیہ:
اس وقت آپ اونٹ پر سوار تھے۔
جس حدیث میں تین آدمیوں کا ایک سواری پر بیٹھنا منع آیا ہے وہ حدیث ضعیف ہے یا محمول ہے اس حالت پر جانور کمزور وناتواں ہو۔
نووی نے کہا کہ جب جانور طاقت والا ہو تو اکثر علماء کے نزدیک اس پر تین آدمیوں کا سوار ہونا درست ہے جن دو بچوں کو آپ نے سواری پر بیٹھا یا تھا وہ عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے فضل اور قثم تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5965   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5965  
حدیث حاشیہ:
(1)
جن دو بچوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہمراہ سوار کیا وہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت فضل اور حضرت قثم رضی اللہ عنہ تھے جیسا کہ آئندہ ایک حدیث میں صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، حدیث: 5966)
ایک حدیث میں سواری پر تین آدمیوں کو ایک ساتھ بٹھانے کی ممانعت ہے، وہ حدیث ضعیف ہے، (مجمع الزوائد: 8/109، رقم: 13236، و سلسلة الأحادیث الضعیفة: 1/706، رقم: 493)
بصورت صحت اس کے معنی یہ ہیں کہ جب جانور کمزور ہو تو اس پر تین آدمی نہ بیٹھیں اور اگر وہ سواری تین آدمیوں کو اٹھا سکتی ہے تو اس پر تین آدمی بیٹھ سکتے ہیں جیسا کہ پیش کردہ حدیث میں ہے۔
(2)
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے اور اونٹنی طاقتور جانور ہے، لہذا اس پر تین آدمیوں کا بیٹھنا منع نہیں ہے، لیکن گدھا اس قدر طاقتور نہیں ہوتا کہ اس پر تین آدمی بیٹھیں، لہذا اس قسم کی سواری پر تین آدمی اکٹھے سوار نہ ہوں۔
(فتح الباري: 496/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5965   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2897  
´حاجی کے استقبال کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لائے تو بنی ہاشم کے چھوٹے بچوں نے آپ کا استقبال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کو اپنے آگے بٹھا لیا، اور دوسرے کو اپنے پیچھے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2897]
اردو حاشہ:
ان نوجوانوں میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دو بیٹے قثم اور فضل رضی اللہ عنہ تھے جنھیں آپ نے اپنے آگے پیچھے سواری پر بٹھایا تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2897   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1798  
1798. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ تشریف لائے تو بنی عبدالمطلب کے چندلڑکے آپ کے استقبال کے لیے گئے ان میں سے ایک کو تو آپ نے اپنے آگے اور دوسرے کواپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1798]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ حاجی کا آگے جاکر استقبال کرنا بھی سنت ہے مگر ہار پھول کا مروجہ رواج ایسا ہے جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں اور اس سے ریا، نمود، عجب کا بھی خطرہ ہے، لہٰذا اچھے حاجی کو ان چیزوں سے ضرور پرہیز کرنا لازم ہے ورنہ خطرہ ہے کہ سفر حج کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ رائیگاں جائیں اور بجائے ثواب کے حج الٹا باعث عذاب بن جائے کیوں کہ ریا، نمود، عجب ایسی بیماریاں ہیں جن سے نیک اعمال اکارت ہو جاتے ہیں۔
حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اونٹ وغیرہ پر بشرطیکہ ان جانوروں میں طاقت ہو بیک وقت تین آدمی سواری کرسکتے ہیں، بنو عبدالمطلب کے لڑکے آپ ﷺ کے استقبال کو آئے اس سے خاندانی محبت جو فطری چیز ہے اس کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
نوجوانان خاندان عبدالمطلب کے لیے اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے کہ آج ان کے ایک بزرگ ترین فرد رسول معظم، سردار بنی آدم، فخر دو عالم ﷺ کی شان میں مکہ شریف میں داخل ہورہے ہیں۔
آج وہ قسم پوری ہوئی جو قرآن مجید میں ان لفظوں میں بیان کی گئی ﴿لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ﴾ توراۃ کا وہ نوشتہ پورا ہوا جس میں ذکر ہے کہ فاران سے ہزارہا قدسیوں کے ساتھ ایک نور ظاہر ہوا۔
اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بچوں سے پیار محبت، شفقت کا برتاؤ کرنا بھی سنت نبوی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1798   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1798  
1798. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ تشریف لائے تو بنی عبدالمطلب کے چندلڑکے آپ کے استقبال کے لیے گئے ان میں سے ایک کو تو آپ نے اپنے آگے اور دوسرے کواپنے پیچھے سواری پر بٹھا لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1798]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ عنوان حج کے لیے جانے والوں اور حج سے واپس آنے والوں کا استقبال کرنا، دونوں مواقع پر مشتمل ہے۔
اگرچہ اس حدیث میں حج کے لیے آنے والوں کے استقبال کا ذکر ہے، لیکن معنی کے اعتبار سے حج سے واپس جانے والوں کو بھی شامل ہے۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاجیوں کی آمدورفت کے وقت ان کی تعظیم و اکرام کرتے ہوئے استقبال کرنا جائز ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے آپ کا استقبال کرنے والوں کا روکا نہیں بلکہ ایک کو اپنے آگے دوسرے کو پیچھے بٹھا کر استقبال کی توثیق فرمائی۔
اسی طرح جب کوئی جہاد کر کے یا کسی دوسرے سفر سے واپس آئے تو اس کی دل جمعی، خاطر داری اور الفت و محبت کے لیے استقبال کرنا جائز ہے۔
(3)
یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک سواری پر تین یا زیادہ آدمی سوار ہو سکتے ہیں بشرطیکہ سواری میں انہیں اٹھانے کی طاقت ہو، اور جس حدیث میں اس کی کراہت ہے وہ اس وقت ہے جب سواری ان کی متحمل نہ ہو۔
(عمدةالقاري: 435/7) (4)
واضح رہے کہ مذکورہ عنوان دو حصوں پر مشتمل ہے:
٭ حُجاج کا استقبال کرنا۔
٭ سواری پر تین آدمیوں کو بیٹھنا۔
دوسرا حصہ تو واضح ہے، البتہ پہلا حصہ بھی عموم لفظ سے ثابت ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1798