مسند احمد
وَمِن مسنَدِ بَنِی هَاشِم
0
27. مُسْنَدُ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمَا
0
حدیث نمبر: 3374
(حديث مرفوع) قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ مَالِكٍ ، ح وَحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: خَسَفَتْ الشَّمْسُ، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا، قَالَ: نَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا، وَهُوَ دُونَ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا، وَهُوَ دُونَ القيامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ، فَقَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ هَذَا، ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ. قَالَ:" إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ أَوْ أُرِيتُ الْجَنَّةَ، وَلَمْ يَشُكَّ إِسْحَاقُ، قَالَ رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا، وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتْ الدُّنْيَا، وَرَأَيْتُ النَّارَ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ مَنْظَرًا أَفْظَعَ، وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ"، قَالُوا: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" بِكُفْرِهِنَّ"، قَالَ: أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ:" لَا، وَلَكِنْ يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ، وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ، لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ كُلَّهُ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عہد نبوت میں سورج گرہن ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی، اس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا، غالبا اتناجتنی دیر میں سورہ بقرہ پڑھی جا سکے، پھر طویل رکوع کیا، پھر رکوع سے سر اٹھا کر دیر تک کھڑے رہے، لیکن یہ قیام پہلے کی نسبت کم تھا، پھر طویل رکوع کیا جو کہ پہلے رکوع کی نسبت کم تھا، پھر سجدے کر کے کھڑے ہوئے اور دوسری رکعت میں بھی طویل قیام کیا جو کہ پہلی رکعت کی نسبت کم تھا، پھر طویل رکوع کیا لیکن وہ بھی کچھ کم تھا، رکوع سے سر اٹھا کر قیام و رکوع حسب سابق دوبارہ کیا، سجدہ کیا اور سلام پھیر کر نماز سے فارغ ہو گئے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو سورج گرہن ختم ہو چکا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، جنہیں کسی کی موت سے گہن لگتا ہے اور نہ کسی کی زندگی سے، اس لئے جب تم ایسی کیفیت دیکھو تو اللہ کا ذکر کیا کرو“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں ایسا محسوس ہوا تھا کہ جیسے آپ نے اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے کسی چیز کو پکڑنے کی کوشش کی پھر آپ پیچھے ہٹ گئے؟ فرمایا: ”میں نے جنت کو دیکھا تھا اور انگوروں کا ایک گچھا پکڑنے لگا تھا، اگر میں اسے پکڑ لیتا تو تم اسے اس وقت تک کھاتے رہتے جب تک دنیا باقی رہتی، نیز میں نے جہنم کو بھی دیکھا، میں نے اس جیسا خوفناک منظر آج سے پہلے نہیں دیکھا اور میں نے جہنم میں عورتوں کی اکثریت دیکھی ہے“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کی وجہ پوچھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے کفر کی وجہ سے“، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ فرمایا: ”(یہ مراد نہیں، بلکہ مراد یہ ہے کہ) وہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں، اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زندگی بھر احسان کرتے رہو اور اسے تم سے ذرا سی کوئی تکلیف پہنچ جائے تو وہ فورا کہہ دے گی کہ میں نے تو تجھ سے کبھی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔“
حكم دارالسلام: إسناداه صحيحان، خ: 5197، م: 907