Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
31. بَابُ لاَ يَتَحَرَّى الصَّلاَةَ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ:
باب: اس بارے میں کہ سورج چھپنے سے پہلے قصد کر کے نماز نہ پڑھے۔
حدیث نمبر: 587
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمْرَانَ بْنَ أَبَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ:" إِنَّكُمْ لَتُصَلُّونَ صَلَاةً لَقَدْ صَحِبْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا رَأَيْنَاهُ يُصَلِّيهَا، وَلَقَدْ نَهَى عَنْهُمَا يَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ".
ہم سے محمد بن ابان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی ابوالتیاح یزید بن حمید سے، کہا کہ میں نے حمران بن ابان سے سنا، وہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ انھوں نے فرمایا کہ تم لوگ تو ایک ایسی نماز پڑھتے ہو کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے لیکن ہم نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس سے منع فرمایا تھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی مراد عصر کے بعد دو رکعتوں سے تھی (جسے آپ کے زمانہ میں بعض لوگ پڑھتے تھے)۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 587 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 587  
تشریح:
اسماعیلی کی روایت میں ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہم کو خطبہ سنایا، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ شاید حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عصر کے بعد دو سنتوں کو منع کیا۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ان کا پڑھنا ثابت ہوتا ہے مگر آپ ان کو مسجد میں نہیں پڑھا کرتے تھے۔ اکثر علماء نے اسے خصوصیات نبوی میں شمار کیا ہے، جیسا وصال کا روزہ آپ رکھتے تھے اور امت کے لیے منع فرمایا۔ اسی طرح امت کے لیے عصر کے بعد نفل نمازوں کی اجازت نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 587   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:587  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت امیر معاویہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے عصر کے بعد دورکعت پڑھنے کی نفی کررہے ہیں، جبکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد دورکعت کو کبھی ترک نہیں فرمایا۔
(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 591)
چونکہ حضرت عائشہ ؓ ایک چیز کو ثابت کررہی ہیں، اس لیے اسے ترجیح ہو گی، کیونکہ اصول فقہ کے اعتبار سے ایک چیز کا اثبات اس کی نفی پر مقدم ہوتا ہے۔
ممکن ہے حضرت معاویہ ؓ عصر کے بعد دورکعت کی ادائیگی پر مطلع نہ ہوسکے ہوں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ انھیں اپنے گھر میں ادا کرتے تھے۔
جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ انھیں مسجد میں ادا نہیں کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 590)
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد ہر قسم کی نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔
(2)
یہ حکم امتناعی آپ کے مذکورہ عمل کے متعارض نہیں، کیونکہ آپ کا حکم امتناعی، غیر سببی نماز سے متعلق ہے اور آپ کا دورکعت پڑھنے کا عمل ایک سبب کے پیش نظرتھا کہ آپ وفد عبدالقیس کی آمد کی بنا پر ظہر کےبعد دورکعت نہ پڑھ سکے تھے، وہ رکعات آپ نے عصر کے بعد ادا فرمائیں اور آپ کا یہ خاصہ تھا کہ جس کام کو ایک مرتبہ شروع کرلیتے، پھر اس پر مداومت فرماتے۔
(فتح الباري: 82/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 587   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3766  
3766. حضرت معاویہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: تم لوگ ایک خاص نماز پڑھتے ہو، ہم لوگ نبی کریم ﷺ کی صحبت میں رہے ہیں، ہم نے آپ کو کبھی اس وقت نماز پڑھتے نہیں دیکھا بلکہ آپ نے اس سے منع فرمایا تھا۔ آپ کی مراد عصر کے بعد دو رکعت نماز سے تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3766]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث سے حضرت معاویہ ؓ کی فضیلت بیان ہوتی ہے کہ آپ شرف صحابیت سے متصف ہونے کے ساتھ فقیہ بھی ہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس ؓ کے جواب سے ظاہر ہوتا ہے۔
وہ حضرات امیر معاویہ کو فقیہ جانتے تھے اور ان کے عمل شرعی کوحجت گرادنتے تھے۔
ایک رکعت وتر پڑھنا خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔
حضرت معاویہ کا اس پر عمل تھا۔
علامہ ابن تین کا یہ دعویٰ کہ وتر ایک رکعت کے متعلق فقہاء میں سے کوئی قائل نہیں،یہ دعویٰ بلادلیل ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس بات کانوٹس لیا ہے۔
(فتح الباري: 132/7)

حضرت معاویہ ؓ کے متعلق متعدد احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں جو ان کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں لیکن وہ امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہ تھیں،اس لیے ان کاذکر نہیں کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے کسی کام کے لیے حضرت معاویہ ؓ کو بلوایا،معلوم ہوا کہ آپ کھاناکھارہے ہیں دوتین دفعہ ایسا ہوا توآپ نے فرمایا:
اللہ کرے اس کا پیٹ کبھی نہ بھرے۔
(صحیح مسلم، البر و الصلة والأدب، حدیث: 6628(2604)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وہ کوئی ایسا کام تھا جسے صرف حضرت معاویہ ؓ ہی کرسکتے تھے بصورت دیگر رسول اللہ ﷺ کسی دوسرے کو وہ کام کہہ دیتے۔
رہے حدیث کے آخر میں کلمات تو وہ بددعا طور پر نہ تھے بلکہ محض پیار کی بات تھی۔
اس حدیث پرصحیح مسلم میں ان الفاظ میں عنوان قائم کیا گیا ہے۔
(باب من لعنه النبي صلى الله عليه وسلم، أو سبه، أو دعا عليه، وليس هو أهلا لذلك، كان له زكاة وأجرا ورحمة)
رسول اللہ ﷺ جس انسان پر لعنت کریں یا بُرا بھلاکہیں یا بدعا کریں،حالانکہ وہ اس لائق نہ ہو تو وہ کلمات نبویہ اس شخص کے لیے پاکیزگی کاذریعہ اورباعث اجر ورحمت ہوں گے۔
بہرحال امام بخاری ؒ کے عنوان میں تبدیلی کسی وجہ سے نہیں جیسا کہ شارحین نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3766