صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ
کتاب: لباس کے بیان میں
75. بَابُ الاِمْتِشَاطِ:
باب: کنگھا کرنا۔
حدیث نمبر: 5924
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَجُلًا اطَّلَعَ مِنْ جُحْرٍ فِي دَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحُكُّ رَأْسَهُ بِالْمِدْرَى، فَقَالَ:" لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ تَنْظُرُ لَطَعَنْتُ بِهَا فِي عَيْنِكَ، إِنَّمَا جُعِلَ الْإِذْنُ مِنْ قِبَلِ الْأَبْصَارِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ ایک صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوار کے ایک سوراخ سے گھر کے اندر دیکھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنا سر کنگھے سے کھجلا رہے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو میں تمہاری آنکھ پھوڑ دیتا ارے اذن (اجازت) لینا تو اس کے لیے ہے کہ آدمی کی نظر (کسی کے) ستر پر نہ پڑے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5924 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5924
حدیث حاشیہ:
جب بغیر اجازت دیکھ لیا تو پھر اذن کی کیا ضرورت رہی۔
اس حدیث سے یہ نکلا کہ اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں جھانکے اور گھر والا کچھ پھینک کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو گھر والے کو کچھ تاوان نہ دینا ہوگا مگر یہ دور اسلامی کی باتیں ہیں انفرادی طور پر کسی کا ایسا کرنا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5924
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5924
حدیث حاشیہ:
مدری، لکڑی کا ایک آلہ جس سے بالوں کی اصلاح اور جسم پر خارش کی جاتی ہے۔
یہ کنگھی کی طرح ہوتا ہے اور بعض اوقات اس سے کنگھی کا کام لیا جاتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے کنگھی کرنے کے عمل کو ثابت کیا ہے۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے بال رکھے تو چاہیے کہ انہیں بنا سنوار کر رکھے۔
“ (سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4163)
اس کا مطلب یہ ہے کہ بال رکھے ہوں تو انہیں سنوار کر رکھنا ضروری ہے مگر باقاعدہ اہتمام کے ساتھ دھونا اور ہر روز کنگھی پٹی کرنا ممنوع ہے۔
(فتح الباري: 450/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5924
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2709
´کسی کے گھر میں بغیر اجازت جھانکنا کیسا ہے؟`
سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے میں ایک سوراخ سے جھانکا (اس وقت) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ اپنا سر کھجا رہے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے (پہلے سے) معلوم ہوتا کہ تو جھانک رہا ہے تو میں اسے تیری آنکھ میں کونچ دیتا (تجھے پتا نہیں) اجازت مانگنے کا حکم تو دیکھنے کے سبب ہی سے ہے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2709]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ اجازت مانگنے سے پہلے کسی کے گھر میں جھانکنا اور ادھر ادھر نظر دوڑانا منع ہے،
یہاں تک کہ اپنے ماں باپ کے گھر میں بھی اجازت طلب کئے بغیر داخل ہونا منع ہے،
اگر اجازت طلب کرنا ضروری نہ ہوتا تو بہت سوں کی پردہ دری ہوتی اور نامحرم عورتوں پر بھی نظر پڑتی،
یہی وہ قباحتیں ہیں جن کی وجہ سے اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2709
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:953
953- سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حجرۂ مبارک کے اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کنگھی کے ذریعے اپنے سر کو کھجارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر مجھے پتہ چل جاتا کہ تم یوں دیکھ رہے ہو، تو میں یہ تمہاری آنکھوں میں چبھو دیتا۔ اجازت لینے کا حکم اسی لیے مقر کیا گیا ہے، تاکہ (گھر والوں پر) نظر نہ پڑسکے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:953]
فائدہ:
اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ آدمی کو کسی کے گھر کے دروازے سے اندر نہیں جھانکنا اس چاہیے، کیونکہ دروازے کا مقصد پردہ ہے، اگر کوئی انسان دروازے یا دیوار سے کسی سوراخ سے اندر جھانکے، اور گھر والوں کو اس کا علم ہو جائے اور وہ آگے سے کوئی چیز مارکر آنکھ پھوڑ دیں تو ان کو اس پر کوئی جرمانہ نہیں ہوگا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 953
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5638
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے روزن (جھری) سے جھانکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھرکھرا تھا، جس سے اپنے سر کو کھجلا رہے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا: ”اگر مجھے معلوم ہو جاتا کہ تم مجھے دیکھ رہو ہو تو میں اس سے تیری آنکھ کا نشانہ لیتا۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نظر سے بچنے کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اجازت کا حکم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5638]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
جحر:
گول سوراخ۔
(2)
مدری:
بال سنوارنے کی لوہے کی کنگھی۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دروازہ پر کھڑے ہو کر اندر جھانکنا جائز نہیں ہے اور یہ اجازت طلب کرنے کی حکمت کے منافی ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کی رو سے ایسے آدمی کی آنکھ پھوڑنا جائز ہے،
لیکن یہ اس صورت میں ہے،
جب اس کے بغیر چارہ نہ ہو اور دیدہ بازی کرنے والا اس کے بغیر باز نہ آتا ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5638
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6901
6901. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے حجرے کے دروازے کے ایک سوراخ سے اندر جھانکنے لگا جبکہ اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس سر کھجلانے کا ایک آلہ تھا جس سے اپنا سر کھجلا رہے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو فرمایا: ”اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تو مجھے جھانک رہا ہے تو میں اس کے ساتھ تیری آنکھ پھوڑ دیتا۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”کسی کے گھر آنے کے لیے اجازت لینے کا حکم اس لیے مشروع ہے کہ نظر نہ پڑے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6901]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بغیر اجازت کے کسی کے گھر میں جھانکنا اور داخل ہونا منع ہے اگر اجازت ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔
سلام کر کے اپنے گھر میں یا غیر کے گھر میں داخل ہونا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6901
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6241
6241. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے نبی ﷺ کے حجرہ مبارکہ میں سوراخ سے دیکھا۔ نبی ﷺ کے ہاتھ مبارک میں ایک کنگھا تھا جس سے آپ سر مبارک کھجلا رہے تھے آپ نے فرمایا: ”اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو میں تمہاری آنکھ میں اسے چبھو دیتا نظر بازی کی روک تھام کے لیے تو اجازت طلبی کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6241]
حدیث حاشیہ:
(1)
کسی کے گھر یا اس کی مجلس میں آنے کے لیے اجازت لینا ضروری ہے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سلام کرے، پھر اجازت طلب کرے، اس کے بغیر اچانک کسی کے گھر میں جانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ معلوم نہیں وہ اس وقت کسی حالت میں ہو اور کس کام میں مصروف ہو۔
ممکن ہے کہ اس وقت اس سے ملاقات ناگواری کا باعث ہو۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ایک شخص تحائف لے کر اجازت کے بغیر چلا آیا تو آپ نے اسے واپس کرتے ہوئے فرمایا:
”واپس جاؤ اور السلام علیکم کہنے کے بعد اندر آنے کی اجازت طلب کرو، جب اجازت ملے تو اندر آ جاؤ۔
“ (جامع الترمذي، الاستئيذان، حدیث: 2710)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت طلب کرنے کا طریقہ صرف زبانی بتا دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس پر عمل کرایا ہے۔
ظاہر ہے جو شخص اس طرح سبق یاد کرتا ہے وہ اسے بھول نہیں پاتا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6241