Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب اللِّبَاسِ
کتاب: لباس کے بیان میں
26. بَابُ مَسِّ الْحَرِيرِ مِنْ غَيْرِ لُبْسٍ:
باب: بغیر پہنے ریشم صرف چھونا جائز ہے۔
ويروى فيه عَنِ الزُّبَيْدِيِّ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور اس بارے میں زبیدی سے روایت ہے کہ ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اوپر مذکور ہے۔
حدیث نمبر: 5836
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبُ حَرِيرٍ، فَجَعَلْنَا نَلْمُسُهُ وَنَتَعَجَّبُ مِنْهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَعْجَبُونَ مِنْ هَذَا؟" قُلْنَا، نَعَمْ، قَالَ:" مَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الْجَنَّةِ خَيْرٌ مِنْ هَذَا".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا اور ان سے براء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشم کا ایک کپڑا ہدیہ میں پیش ہوا تو ہم اسے چھونے لگے اور اس کی (نرمی و ملائمت پر) حیرت زدہ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں اس پر حیرت ہے۔ ہم نے عرض کیا جی ہاں فرمایا، جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے بھی اچھے ہیں۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5836 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5836  
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ریشمی کپڑے کو ہاتھ لگایا اور اس کی نرمی پر اپنی حیرت کا اظہار کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چھونے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، البتہ ان کی حیرت کا جواب دیا ہے۔
اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ ریشم پہننا حرام ہے اور اسے ہاتھ لگانا جائز ہے۔
(2)
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ انصار کے سردار تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا خصوصی ذکر فرمایا کیونکہ ریشم کے کپڑے کو چھونے والے اور اس پر اپنی حیرت و تعجب کا اظہار کرنے والے انصار ہی تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف رومال کا ذکر کیا ہے کیونکہ اس سے عام طور پر پسینہ اور ہاتھ وغیرہ صاف کیے جاتے ہیں، اس کی طرف نگاہِ احترام نہیں اٹھتی۔
جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے رومال قابل ستائش ہیں تو اس کے علاوہ دوسرا جنتی لباس بطریق اولیٰ قابل تعریف ہو گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5836   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث157  
´سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا تحفہ میں پیش کیا گیا، لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لینے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ تمہارے لیے تعجب انگیز ہے؟، لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت میں سعد بن معاذ کے رومال اس سے کہیں بہتر ہوں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 157]
اردو حاشہ:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نہ صرف جنتی ہیں بلکہ ان کو جنت کی اعلیٰ نعمتیں میسر ہوں گی۔

(2)
جنت کی نعمتوں میں ہر قسم کے کپڑے ہیں حتی کہ رومال بھی ہیں۔

(3)
دنیا کی قیمتی سے قیمتی چیز بھی جنت کی معمولی سی چیز کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

(4)
ہدیہ قبول کرنا چاہیے اگرچہ مشرک ہی کا ہو۔
واضح رہے کہ یہ ہدیہ قبا تھی جسے والی دومۃ الجندل کے بھائی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا۔

(5)
حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ انصاری صحابی ہیں۔
قبیلہ اوس کے سردار تھے۔
جنگ بدر میں شرکت کا شرف حاصل ہوا، غزوہ خندق میں انہیں تیر لگا، اس سے شہادت پائی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 157   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3847  
´سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے مناقب کا بیان`
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ ریشمی کپڑے ہدیہ میں آئے، ان کی نرمی کو دیکھ کر لوگ تعجب کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے رومال اس سے بہتر ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3847]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
دیگرلفظوں میں آپﷺ نے دنیا ہی میں سعد بن معاذ کے جنتی ہونے کی خوشخبری سنا دی تھی رضی اللہ عنہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3847   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3249  
3249. حضرت براءبن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک ریشمی کپڑا پیش کیا گیا تو لوگ اس کی خوبصورتی اور نرمی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جنت میں سعد بن معاذ ؓ کے رومال اس سے بہتر اور افضل ہیں۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:3249]
حدیث حاشیہ:
آنحضرتﷺ کا اشارہ یہ تھا کہ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی نعمت ایک جنتی کے ناک منھ سے پونچھنے کے رومال سے زیادہ کوئی قدروقیمت نہیں رکھتی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3249   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6640  
6640. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کی خدمت میں ریشم کا ایک ٹکڑا ہدیے کے طور پر پیش کیا گیا تو لوگ اسے دست بدست پکڑنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہیں اس پر حیرت ہے؟ صحابہ نے کہا: ہاں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت میں سعد (بن معاذ) کے رومال اس سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ شعبہ اور اسرائیل نےابو اسحاق سے یہ روایت بیان کی تو اس میں والذي نفسي بیدہ کے الفاظ ذکر نہیں کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6640]
حدیث حاشیہ:
حضرت سعد بن معاذ انصاری اشہلی اوس میں سے ہیں مدینہ میں عقبہ اولیٰ اورثانیہ کےدرمیان۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6640   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3249  
3249. حضرت براءبن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک ریشمی کپڑا پیش کیا گیا تو لوگ اس کی خوبصورتی اور نرمی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جنت میں سعد بن معاذ ؓ کے رومال اس سے بہتر اور افضل ہیں۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:3249]
حدیث حاشیہ:
لباس میں رومال کی حیثیت بہت کم تر خیال کی جاتی ہے کیونکہ اس سے ہاتھ صاف کیے جاتے ہیں یا چہرے کی گردوغبار دور کی جاتی ہے جنت میں گھٹیا کپڑے کی یہ حیثیت ہو گی کہ اس کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
جب یہ قدر و قیمت ایک ادنیٰ کپڑے کی ہے۔
تو جنت کے بہترین اور اعلیٰ کپڑوں کی خوبصورتی اور زیبا ئش تو ہمارے تصورات سے بالا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3249