Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
58. بَابُ إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي الإِنَاءِ:
باب: جب مکھی برتن میں پڑ جائے (جس میں کھانا یا پانی ہو)۔
حدیث نمبر: 5782
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عُتْبَةَ بْنِ مُسْلِمٍ مَوْلَى بَنِي تَيْمٍ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ مَوْلَى بَنِي زُرَيْقٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي إِنَاءِ أَحَدِكُمْ، فَلْيَغْمِسْهُ كُلَّهُ، ثُمَّ لْيَطْرَحْهُ، فَإِنَّ فِي أَحَدِ جَنَاحَيْهِ شِفَاءً وَفِي الآخَرِ دَاءً» .
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے بنی تمیم کے مولیٰ عتبہ بن مسلم نے بیان کیا، ان سے بنی زریق کے مولیٰ عبید بن حنین نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب مکھی تم میں سے کسی کے برتن میں پڑ جائے تو پوری مکھی کو برتن میں ڈبو دے اور پھر اسے نکال کر پھینک دے کیونکہ اس کے ایک پر میں شفاء اور دوسرے میں بیماری ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5782 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5782  
حدیث حاشیہ:
بہت سی اشیاء اللہ پاک نے اس کثرت سے پیدا کی ہیں جن کی افزائش نسل کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ایسی جملہ اشیاء نسل انسان کی صحت کے لیے مضر بھی ہیں اور دوسرا پہلو ان میں نفع کابھی ہے۔
ان میں سے ایک مکھی بھی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی بالکل حق اورمبنی بر صداقت ہے جو صادق المصدوق ہیں اس میں مکھی کے ضرر کو دفع کرنے کے لیے علاج بالضد بتلایا گیا ہے۔
موجودہ فن حکمت میں علاج بالضد کو صحیح تسلیم کیا گیا ہے۔
پس صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5782   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5782  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5782 کا باب: «بَابُ إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِي الإِنَاءِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب مکھی برتن میں پڑ جائے، (تو کیا کریں؟) اس کے حل کے لیے تحت الباب جو حدیث پیش فرمائی ہے، اس میں اس کا حل موجود ہے، یعنی ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت واضح ہے۔

علامہ عبدالحق الہامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ذكر البخاري فى الباب حديث أبى هريرة و مطابقة للترجمة ظاهرة .»
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جس حدیث کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نکل فرمایا ہے، اس کی باب سے مطابقت ظاہر ہے۔

فائدہ:
موجودہ دور میں مختلف زاویوں سے احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات عالی شان کو تختہ مشق بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان مختلف اعتراضات کی بوچھاڑ میں مذکورہ بالا حدیث پر بھی کئی اعتراضات منکرین حدیث نے کئے تا کہ وہ عامۃ الناس کو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کر دیں، مکھی کے ایک پر میں شفا اور دوسرے میں بیماری، یہ ایک اٹل حقیقت ہے، جسے آج ماڈرن سائنس نے بھی پروف کیا ہے، تاہم ہمارا نظریہ ہے کہ سائنس کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرے، بلکہ اگر سائنس نے کسی جدید تحقیق کا تعارف کروایا تو ہم اس تحقیق کو قرآن و حدیث پر پیش کرتے ہیں، اگر یہ دونوں وحی ان تحقیقات کو قبول کر لیتی ہیں تو ہمارے نزدیک ان تحقیقات کو قبول کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہوتی، ہاں اگر قرآن وحدیث نے ان تحقیقات کو رد کر دیا تو اہل علم کے نزدیک ان تحقیقات کی حیثیت کچھ بھی باقی نہیں رہتی، یہی صحیح اور حق ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ الحمدللہ کئی حضرات نے یا تو لاعلمی و جہالت کی بنا پر یا پھر تعصب کی وجہ سے مکھی والی حدیث کا انکار کیا، لیکن آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو غیر مسلموں نے بھی قبول کر لیا۔ ایک بہت اچھا مکالمہ اور دلچسپ معلومات جو کہ ڈاکٹر حمید اللہ اور ڈاکٹر موریس بکائی کے مابین ہوا جو یہاں نقل کرنا فائدے سے خالی نہ ہو گا، اس مکالمہ کو ڈاکٹر محمود احمد غازی کی کتاب محاضرات حدیث میں نقل کیا گیا ہے، تاہم یہاں قارئین کے استفادے کے لیے اس تحریر کو من و عن نقل کر دیتے ہیں تا کہ اس گفتگو سے ہماری گفتگو میں قوت میسر آ جائے۔

ڈاکٹر محمود احمد صاحب لکھتے ہیں:
بیسویں صدی میں بعض نئے موضوعات پر لوگوں نے کام کیا اور علم حدیث کا ایک نئے انداز سے مطالعہ کیا، اس میں سے ایک مثال بہت دلچسپ ہے، جس سے اندازہ ہو گا کہ علم حدیث پر اس نئے انداز سے بھی کام شروع ہوا ہے، آپ نے مشہور فرانسیسی مصنف ڈاکٹر مورس بکائی کا نام سنا ہو گا، وہ ایک زمانہ میں غالباً یو اے فرانس کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر تھے، سائنس دان ہیں اور بہت بڑے ہارٹ سپیشلسٹ ہیں، وہ شاہ فیصل مرحوم کے ذاتی معالج تھے اور شاہ فیصل مرحوم کا علاج کرنے کے لیے، ان کو وقتاً فوقتاً ریاض بلایا جاتا ہے۔
ایک مرتبہ ان کو ریاض بلایا گیا تو یہ سرکاری مہمان کے طور پر ہوٹل میں ٹھہرے اور کئی روز تک شاہ فیصل سے ملاقات کا انتظار کرتے رہے، ظاہر ہے کسی بھی وقت بادشاہ کی طرف سے ملاقات کا بلاوا آ سکتا تھا، اس لیے کہیں آ جا بھی نہیں سکتے تھے، ہر وقت اپنے کمرے میں رہتے تھے، اچانک کوئی کال آئے گی تو چلے جائیں گے، وہاں ہوٹل کے کمرے میں قرآن کا ایک نسخہ انگریزی ترجمہ کے ساتھ رکھا ہوا تھا، انہوں نے وقت گزاری کے لیے اس کی ورق گردانی شروع کی، عیسائی تھے اس لیے ظاہر ہے کبھی قرآن پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، اس انگریزی ترجمے کی ورق گردانی کے دوران خیال ہوا کہ قرآن پاک میں بعض ایسے بیانات پائے جاتے ہیں جو سائنسی نوعیت کے ہیں، مثلاً بارش کیسے برستی ہے، انسان کی ولادت کن مراحل سے گزر کر ہوتی ہے، اس طرح اور بھی کئی چیزوں کی تفصیلات کا تذکرہ تھا۔
چونکہ وہ خود میڈیکل سائنس کے ماہر تھے اور سائنس ہی ان کا مضمون تھا، اس لیے انہوں نے ان بیانات کو زیادہ دلچسپی کے ساتھ پڑھنا شروع کیا، ایک بار پڑھنے کے بعد قرآن پاک کو انہوں نے دوبارہ پڑھا تو ان مقامات پر نشان لگاتے گئے، جہاں سائنس کے متعلق کوئی بیان تھا، چند دن وہاں رہے تو پورے قرآن پاک کا ترجمہ کئی بار پڑھا اور اس طرح کے بیانات نوٹ کرتے گئے، اس سے ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر اسی طرح کے بیانات بائبل میں بھی ہوں اور ان کے ساتھ قرآن پاک کے بیانات کا تقابل کیا جائے تو دلچسپ چیز سامنے آ سکتی ہے۔
انہوں نے واپس جانے کے بعد اس مشغلہ کو جاری رکھا اور بائبل میں جو اس طرح کے بیانات تھے، ان کی نشاندہی کی اور پھر ان دونوں بیانات کا تقابلی مطالعہ کیا اور اس میں انہوں نے خالص سائنسی معیار سے کام لیا، ظاہر ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھے اور قرآن کے ساتھ کوئی عقیدت مندی نہیں تھی، انہوں نے خالص ابجیکٹولی اور خالص سائنسی تحقیق کے پیمانے سے قرآن پاک اور بائبل کے بیانات کو دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ قرآن پاک میں سائنسی نوعیت کے جتنے بھی بیانات ہیں، وہ سب کے سب درست ہیں اور بائبل میں سائنسی نوعیت کے جتنے بیانات ہیں وہ سب کے سب غلط ہیں، انہوں نے ان نتائج پر مشتمل ایک کتاب شائع کی، دی بائیبل قرآن اینڈ سائنس، جس کا اردو اور انگریزی سمیت بہت سی زبانوں میں ترجمہ ملتا ہے۔
اس کتاب کے بعد اسلامیات میں ان کی دلچسپی مزید بڑھ گئی اور انہوں نے تھوڑی سی عربی بھی سیکھ لی، ڈاکٹر حمید اللہ سے ان کے مراسم اور روابط بڑھ گئے، دونوں پیرس میں رہتے تھے، بعد میں ان کو خیال ہوا کہ اسی طرح کا مطالعہ صحیح بخاری کا بھی کرنا چاہیے، انہوں نے صحیح بخاری کا مطالعہ بھی شروع کر دیا، صحیح بخاری میں سائنسی نوعیت کے جتنے بیانات تھے، ان کی الگ سے فہرست بنائی، انہوں نے اس طرح کے غالباً سو بیانات منتخب کیے، ان سو بیانات کا ایک ایک کر کے جائزہ لینا شروع کیا اور یہ دیکھا کہ کس بیان کے نتائج سائنسی تحقیق میں کیا نکلتے ہیں، یہ سب بیانات جمع کرنے اور ان پر غور کرنے کے بعد انہوں نے ایک مقالہ لکھا جو ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کو دکھایا، یہ واقعہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے مجھے خود سنایا۔
ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کا کہنا تھا کہ جب میں نے اس مقالہ کو پڑھا تو اس میں لکھا ہوا تھا کہ صحیح بخاری سے جو سو بیانات میں نے منتخب کیے ہیں، ان میں سے اٹھانوے بیانات تو سائنسی تحقیق میں صحیح ثابت ہوتے ہیں، البتہ دو بیانات غلط ہیں، ڈاکٹر مورس بکائی نے جن دو بیانات کو غلط قرار دیا تھا، ان میں سے ایک تو صحیح بخاری میں درج حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کھانے میں کوئی مکھی گر جائے تو اس کو اندر پورا ڈبو کر پھر نکالو، اس لیے کہ مکھی کے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفا ہوتی ہے، تم دونوں پروں کو اس میں ڈبو دو تا کہ شفا والا حصہ بھی کھانے میں ڈوب جائے، جب وہ گرتی ہے تو بیماری والا حصہ کھانے میں پہلے ڈالتی ہے، ڈاکٹر بکائی کا خیال تھا کہ یہ غلط ہے، مکھی کے کسی پر میں شفا نہیں ہوتی، مکھی تو گندی چیز ہے، اگر کھانے میں مکھی گر جائے تو کھانے کو ضائع کر دینا چاہیے، انہوں نے کہا کہ یہ بات سائنسی طور پر غلط ہے۔
دوسری بات جو انہوں نے غلط قرار دی ہے، وہ بھی صحیح بخاری ہی کی روایت ہے، عرب میں ایک قبیلہ تھا، عرنیشن کا بنی عرینہ کہلاتے تھے، یہ لوگ مشہور ڈاکو تھے اور پورے عرب میں ڈاکے ڈالا کرتے تھے، اس قبیلہ کے کچھ لوگ مدینہ آ گئے اور اسلام قبول کیا، یا اسلام قبول کرنے کا دعوی کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مراعات اور مدد مانگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مدینہ میں ٹھہر نے کے لیے ٹھکانہ دیا اور کچھ صحابہ کو ان کی مہمان نوازی کے لیے مقرر کیا، مدینہ منورہ کی آب و ہوا ان کو موافق نہ آئی اور وہ بیمار ہو گئے، بیماری کی تفصیل یہ بتائی کہ ان کے رنگ زرد ہو گئے، پیٹ پھول گئے اور ایک خاص انداز کا بخار، جس کو آج کل یلو فیور کہتے ہیں، ان کو ہو گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیماری دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تم مدینہ کے باہر فلاں جگہ چلے جاؤ، مدینہ منورہ سے کچھ فاصلہ پر ایک جگہ تھی، جہاں بیت المال کے سرکاری اونٹ رکھے جاتے تھے، وہاں جا کر رہو، اونٹ کا دودھ بھی پیو اور پیشاب بھی پیو، بات عجیب سی ہے، لیکن بخاری میں بھی درج ہے، چنانچہ انہوں نے یہ علاج کیا اور چند روز وہاں رہنے کے بعد ان کو شفا ہو گی، جب طبیعت ٹھیک ہو گئی تو انہوں نے اونٹوں کے باڑے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مامور چوکیدار کو شہید کر دیا اور بیت المال سے اونٹ لے کر فرار ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ یہ لوگ نہ صرف اونٹ لے کر فرار ہو گئے ہیں، بلکہ وہاں پر تعین صحابی کو بھی اتنی بے دردی سے شہید کیا ہے کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے ہیں، گرم سلاخ ٹھونس کر آنکھیں پھوڑ دیں اور صحابی رضی اللہ عنہ کو ریگستان کی گرم دھوپ میں زندہ تڑپتا ہوا چھوڑ کر چلے گئے ہیں اور وہ بچارے و ہیں تڑپ تڑپ کر شہید ہو گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سب کچھ سن کر بہت دکھ ہوا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس پر بہت زیادہ غصہ آیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ان کا پیچھا کرنے کے لیے بھیجا اور وہ لوگ گرفتار کر کے قصاص میں قتل کر دیئے گئے۔
اس پر مورس بکائی نے ڈاکٹر حمید اللہ سے کہا کہ یہ بھی درست نہیں ہے، سائنسی اعتبار سے یہ غلط ہے، کیونکہ پیشاب تو جسم کا رفیوز ہے، انسانی جسم خوراک کا جو حصہ قبول نہیں کر سکتا اسے جسم سے خارج کر دیتا ہے، ہر مشروب کا وہ حصہ جو انسانی جسم کے لیے ناقابل قبول ہے تو وہ جسم سے خارج ہو جاتا ہے اور وہ انسانی جسم کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا، لہٰذا اس سے علاج کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
ڈاکٹر حمید اللہ نے اس کے جواب میں ڈاکٹر بکائی سے کہا کہ میں نہ تو سائنس دان ہوں نہ میڈیکل ڈاکٹر ہوں، اس لیے میں آپ کے ان دلائل کے بارے میں سائنسی اعتبار سے کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن ایک عام انسان کے طور پر میرے کچھ وہ شہبات ہیں، جن کا جواب آپ دیں تو پھر اس تحقیق کو اپنے اعتراضات کے ساتھ ضرور شائع کر دیں، ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نے میٹرک میں سائنس کی ایک دو کتابیں پڑھی تھیں، اس وقت مجھے کسی نے بتایا تھا کہ سائنس دان جب تجر بات کرتے ہیں تو اگر ایک تجربہ دو مرتبہ صحیح ثابت ہو جائے تو سائنس دان اس کو پچاس فیصد درجہ دیتا ہے اور جب تین چار مرتبہ صحیح ثابت ہو جائے تو اس کا درجہ اور بھی بڑھ جاتا ہے اور چار پانچ مرتبہ کے تجربات میں بھی اگر کوئی چیز ثابت ہو جائے تو آپ کہتے ہیں کہ فلاں بات سو فیصد صحیح ثابت ہو گئی، حالانکہ آپ نے سو مرتبہ تجربہ نہیں کیا ہوتا، ایک تجربہ تین چار مرتبہ کرنے کے بعد آپ اس کو درست مان لیتے ہیں، ڈاکٹر مورس نے کہا کہ ہاں واقعی ایسا ہی ہے۔ اگر چار پانچ تجربات کا ایک ہی نتیجہ نکل آئے تو ہم کہتے ہیں کہ سو فیصد ہی نتیجہ ہے، اس پر ڈاکٹر حمید اللہ نے کہا کہ جب آپ نے صحیح بخاری کے سو بیانات میں سے اٹھانوے تجربے کر کے درست قرار دے دیئے ہیں تو پھر ان نزاع کے بغیر تجربات کو درست کیوں نہیں مان لیتے؟ جبکہ پانچ تجربات کر کے آپ سو فیصد مان لیتے ہیں، یہ بات تو خود آپ کے معیار کے مطابق غلط ہے، ڈاکٹر بکائی نے اس کو تسلیم کیا کہ واقعی ان کا یہ نتیجہ اور یہ اعتراض غلط ہے۔

دوسری بات ڈاکٹر حمید اللہ نے یہ کہی کہ میرے علم کے مطابق آپ میڈیکل سائنس کے ماہر ہیں، انسانوں کا علاج کرتے ہیں، آپ جانوروں کے ماہر تو نہیں ہیں تو آپ کو پتہ نہیں کہ دنیا میں کتنے قسم کے جانور پائے جاتے ہیں، پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ علم حیوانات میں کیا کیا شعبے اور کون کون سی ذیلی شاخیں ہیں اور ان میں کیا کیا چیز میں پڑھائی جاتی ہیں، لیکن اگر علم حیوانیات میں کسی بات کا کوئی شعبہ ہے تو آپ اس شعبہ کے ماہر نہیں ہیں، کیا آپ کو پتہ ہے کہ دنیا میں کتنی اقسام کی مکھیاں ہوتی ہیں، کیا آپ نے کوئی سروے کیا ہے کہ دنیا کی کس موسم میں کس قسم کی مکھیاں پائی جاتی ہیں، جبکہ آپ عرب میں ہر موسم میں پائی جانے والی مکھیوں کا تجربہ کر کے اور ان کے ایک ایک جز کا معائنہ کر کے لیباٹری میں چالیس پچاس سال لگا کر نہ بتائیں کہ ان میں کسی مکھی کے پر میں کسی بھی قسم کی شفا نہیں ہے، اس وقت تک آپ یہ مفروضہ کیسے قائم کر سکتے ہیں کہ مکھی کے پر میں بیماری یا شفاء نہیں ہوتی، ڈاکٹر مورس بکائی نے اس سے بھی اتفاق کیا کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی۔
پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اگر آپ تحقیق کر کے یہ ثابت بھی کر دیں کہ مکھی کے پر میں شفا نہیں ہوتی تو کیسے پتہ چلے گا کہ چودہ سو سال پہلے ایسی مکھیاں نہیں ہوتی تھیں، ہو سکتا ہے ہوتی ہوں، مکن ہے، ان کی نسل ختم ہوگئی ہو، جانوروں کی نسلیں تو آتی ہیں اور ختم بھی ہو جاتی ہیں، روز کا تجربہ ہے کہ جانوروں کی ایک نسل آئی اور بعد میں وہ ختم ہو گئی، تاریخ میں ذکر ملتا ہے اور خود سائنس دان بتاتے ہیں کہ فلاں جانور اس شکل کا اور فلاں اس شکل کا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر مورس نے اس کو بھی درست تسلیم کیا۔
پھر ڈاکٹر حمید اللہ صاحب نے کہا کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا، حالانکہ شریعت نے پیشاب کو ناپاک کہا ہے، بالکل صحیح ہے، یہ حیوانی بدن کا مسترد کردہ مواد ہے، یہ بھی درست ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں بطور ایک عام آدمی کے یہ سمجھتا ہوں کہ بعض بیماریوں کا علاج تیزاب سے بھی ہوتا ہے، دواؤں میں کیا ایسڈ شامل نہیں ہوتے، جانوروں کے پیشاب میں کیا ایسڈ شامل نہیں ہوتا، ہو سکتا ہے کہ بعض علاج جو آج خالص اور آپ کے بقول پاک ایسڈ سے ہوتا ہے تو اگر عرب میں اس کا رواج ہو کہ کسی نیچرل طریقے سے لیا ہوا کوئی ایسا ایسڈ جس میں تیزاب کی ایک خاص مقدار پائی جاتی ہو، وہ بطور علاج کے استعمال ہوتا ہو تو اس میں کون سی بات بعید از امکان اور غیر سائنسی ہے۔
پھر ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آج سے کچھ سال پہلے میں نے ایک کتاب پڑھی تھی، ایک انگریز سیاح تھا، جو پورے جزیرہ عرب کی سیاحت کر کے گیا تھا، اس کا نام تھا، ڈاؤٹی، 1924, 1925, 1926 میں اس نے پورے عرب کا دورہ کیا تھا اور دو کتابیں لکھی تھیں، جو بہت زبردست کتابیں ہیں اور جزیرہ عرب کے جغرافیہ پر بڑی بہترین کتابیں سمجھی جاتی ہیں، ایک کا نام Arabia Deserta اور دوسرے کا نام Arabia Petra ہے۔ یعنی جزیرہ عرب کا صحرائی حصہ اور جزیرہ عرب کا پہاڑی حصہ، انہوں نے کہا کہ اس شخص نے اتنی کثرت سے یہاں سفر کیا ہے، یہ اپنی ایک یادداشت میں لکھتا ہے کہ جزیرہ عرب کے سفر کے دروان ایک موقع پر میں بیمار پڑ گیا، پیٹ پھول گیا، رنگ زرد پڑ گیا اور مجھے زرد بخار کی طرح کی ایک بیماری ہو گئی، جس کا میں نے دنیا میں جگہ جگہ علاج کروایا لیکن کچھ افاقہ نہیں ہوا، آخر کار جرمنی میں کسی بڑے ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ جہاں تمہیں یہ بیماری لگی ہے، وہاں جاؤ ممکن ہے کہ وہاں کوئی مقامی طریقہ علاج ہوں یا کوئی عوامی انداز کا کوئی دیسی علاج ہو، کہتے ہیں کہ جب میں واپس آیا تو جس بدو کو میں نے خادم کے طور پر رکھا ہو اتھا، اس نے دیکھا تو پوچھا کہ یہ بیماری آپ کو کب سے ہے، میں نے بتایا کہ کئی مہینے ہو گئے اور میں بہت پریشان ہوں، اس نے کہا کہ ابھی میرے ساتھ چلیے، مجھے اپنے ساتھ لے کر گیا اور ایک ریگستان میں اونٹوں کے باڑے میں لے کر گیا کہ آپ کچھ دن یہاں رہیں اور یہاں اونٹ کے دودھ اور پیشاب کے علاوہ کچھ نہ پئیں، چنانچہ ایک ہفتہ تک یہ علاج کرنے کے بعد میں بالکل ٹھیک ہو گیا، مجھے بہت حیرت ہوئی۔
ڈاکٹر مورس سے ڈاکٹر حمید اللہ نے کہا: کہ یہ دیکھئے کہ 26 - 1925 میں ایک مغربی مصنف کا لکھا ہوا ہے۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ یہ سابق طریقہ علاج ہو، مورس بکائی نے اپنے دونوں اعتراضات واپس لے لیے اور اس مقالہ کو انہوں نے اپنے دونوں اعتراجات کے بغیر ہی شائع کر دیا۔
عبد اللہ القصیمی رحمہ اللہ نے بھی مذکورہ حدیث کے دفاع پر بھر پور منکرین حدیث کا رد فرمایا ہے، آپ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ مکھی کے پر میں شفا والی حدیث بالکل ٹکسالی سند سے مروی ہے اور اس صحیح سند والی حدیث پر بعض طبیب حضرات نے اعتراضات بھی کیے ہیں کہ مکھی عام طور پر گندگی کی جگہ پر بیٹھتی ہے اور اس کے پروں میں گندگی بھی لگی ہوتی ہے تو پھر اس میں شفا کیسے مل سکتی ہے؟ تو آپ جواباً لکھتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
یعنی انگلستان کا ایک رسالہ جس کے نمبر 1037 پر جو کہ 1927ء میں شائع ہوا ہے، اس میں یہ لکھا ہے کہ مکھی زراعت میں بعض مکروہات چیزیں کھاتی ہے جو کہ بعض امراض کے لیے ہوتے ہیں اور اس کے ایک پر میں بیکٹیریا ہوتے ہیں اور دوسرے پر میں اس کو مارنے والے بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر محسن خان صاحب اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:
طبی طور پر اب یہ معروف بات ہے کہ مکھی اپنے جسم کے ساتھ کچھ جراثیم اٹھائے پھرتی ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 1400 سال پہلے بیان کیا، جب انسان جدید طب کے متعلق بہت کم جانتے تھے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ عضو اور دیگر ذرائع پیدا کیے، جو ان جراثیم کو ہلاک کر دیتے ہیں مثلاً پنسلین، پھپھوندی اور سٹیفائلول کوسائی جسے جراثیم کو مار ڈالتی ہے۔ حالیہ تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مکھی بیماری (جراثیم) کے ساتھ ساتھ ان جراثیم کا تریاق بھی اٹھائے پھرتی ہے، عام طور پر مکھی جب کسی مائع غذا کو چھوتی ہے تو وہ اسے اپنے جراثیم سے آلودہ کر دیتی ہے، لہٰذا اسے مائع میں ڈبکی دینی چاہیے، تاکہ وہ ان جراثیم کا تریاق بھی اس میں شامل کر دے، جو جراثیم کا مداوا کرے گا۔
ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں کہ:
میں نے اپنے ایک دوست کے ذریعے، اس موضوع پر جامعہ الازہر قاہرہ (مصر) کے عہد قسم الحدیث (شعبہ حدیث کے سربراہ) محمد السمعی کو خط لکھا، جنہوں نے اس حدیث کے طبی پہلووں پر ایک مضمون تحریر کیا ہے، اس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ماہر ین خرد حیاتیات نے ثابت کیا ہے کہ مکھی کے پیٹ میں خامراتی خلیات طفیلیوں کے طور پر رہتے ہیں اور یہ خامراتی خلیات اپنی تعداد بڑھانے کے لیے مکھی کی تنفس کی نالیوں میں گھسے ہوتے ہیں اور جب مکھی مائع میں ڈبوئی جاتی ہے تو وہ خلیات نکل کر مائع میں شامل ہو جاتے ہیں اور ان خلیات کا مواد ان جراثیم کا تریاق ہوتا ہے، جنہیں مکھی اڑائے پھرتی ہے۔

ابن القیم رحمہ اللہ کی طب پر مایہ ناز کتاب میڈیسن آف دی پرافٹ میں صاف طور پر لکھا ہے کہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ مکھی خوراک میں گر پڑے تو اسے اس میں ڈبویا جائے، اس طرح مکھی مر جائے گی، بالخصوص اگر غذا گرم ہو، اگر غذا کے اندر مکھی کی موت غذا کو ناپاک بنانے والی ہوتی تو نبی علیہ السلام اسے پھینک دینے کا حکم دیتے، اس کے برعکس نبی علیہ السلام نے اسے محفوظ بنانے کی ہدایت کی، شہد کی مکھی، بھڑ، مکڑی اور دیگر کیڑے بھی گھریلو مکھی کے ذیل میں آتے ہیں، کیوں کہ اس حدیث سے ماخوز حکم نبوی عام ہے، مردہ جانور ناپاک کیوں ہیں؟ اس کی توجیہ یہ ہے کہ ان کا خون ان کے جسموں میں لگا رہتا ہے، اس لیے کیڑے مکوڑے یا حشرات جن میں خون نہیں ہوتا وہ پاک ہیں۔
بعض اطباء نے بیان کیا کہ بچھو اور بھڑ کے کاٹے پر گھریلو مکھی مل دی جائے تو اس شفا کی وجہ سے آرام آ جاتا ہے، جو اس کے پروں میں پنہاں ہے۔ اگر گھریلو مکھی کا سر الگ کر کے جسم کو آنکھ کے پپوٹے کے اندر رونما ہونے والی پھنسی پر ملا جائے تو ان شاء اللہ آرام آ جائے گا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 160   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5782  
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مکھی کے ایک پَر میں زہر اور دوسرے میں اس کا تریاق ہے۔
جب وہ کھانے (یا پینے)
کی چیز میں گر جائے تو اسے اس میں ڈبو دو کیونکہ وہ زہر والا پَر آگے اور تریاق والا پیچھے رکھتی ہے۔
(سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3504) (2)
اس حدیث کی روشنی میں جب مکھی دودھ، پانی یا چائے وغیرہ میں گر جائے تو کھانے پینے کی چیز کو ضائع کر دینا جائز نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مکھی کے ایک پر میں جراثیم کش مادہ بھی رکھا ہے جو بہت سی بیماریوں کے جراثیم کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس بنا پر جب مکھی کو ڈبو دیا جائے تو وہ جراثیم کش مادہ مکھی کے پر سے نکل کر اس چیز میں شامل ہو جاتا ہے اور زہریلے اثرات کو ختم کر دیتا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ ایک ہی چیز میں دو متضاد چیزیں پیدا کر دیتا ہے۔
شہد کی مکھی اپنے تھوک سے شہد پیدا کرتی ہے اور اس کے ڈنگ میں زہر ہوتا ہے، اسی طرح سانپ کا زہر قاتل ہے اور اس کا گوشت اس کے زہر کے لیے تریاق اکبر ہے۔
جدید طب کے حالیہ تجربات سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایک مکھی بیماری کے جراثیم کے ساتھ ساتھ ان جراثیم کا تریاق بھی اٹھائے ہوتی ہے۔
عام طور پر جب مکھی کسی مائع غذا کو چھوتی ہے تو وہ اسے اپنے جراثیم سے آلودہ کر دیتی ہے، لہذا اسے مائع میں ڈبکی دینی چاہیے تاکہ ان جراثیم کا تریاق بھی اس میں شامل کر دے جو بیماری کے جراثیم کا مداوا کرے گا۔
(3)
بعض اطباء نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ بچھو اور بِھڑ کے کاٹے پر اگر گھریلو مکھی دی جائے تو اس شفا کی وجہ سے آرام آ جاتا ہے جو اس کے پروں میں ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5782