صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
20. بَابُ ذِكْرِ الْعِشَاءِ وَالْعَتَمَةِ وَمَنْ رَآهُ وَاسِعًا:
باب: عشاء اور عتمہ کا بیان اور جو یہ دونوں نام لینے میں کوئی ہرج نہیں خیال کرتے۔
قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَثْقَلُ الصَّلَاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ الْعِشَاءُ وَالْفَجْرُ، وَقَالَ: لَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي الْعَتَمَةِ وَالْفَجْرِ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَالِاخْتِيَارُ أَنْ يَقُولَ الْعِشَاءُ، لِقَوْلِهِ تَعَالَى: وَمِنْ بَعْدِ صَلاةِ الْعِشَاءِ سورة النور آية 58 وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: كُنَّا نَتَنَاوَبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ فَأَعْتَمَ بِهَا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةُ: أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعِشَاءِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنْ عَائِشَةَ، أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَتَمَةِ، وَقَالَ جَابِرٌ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ، وَقَالَ أَبُو بَرْزَةَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤَخِّرُ الْعِشَاءَ، وَقَالَ أَنَسٌ: أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو أَيُّوبَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر کے فرمایا، کہ منافقین پر عشاء اور فجر تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش! وہ سمجھ سکتے کہ عتمہ (عشاء) اور فجر کی نمازوں میں کتنا ثواب ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ عشاء کہنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ ارشاد باری ہے «ومن بعد صلاة العشاء» (میں قرآن نے اس کا نام عشاء رکھ دیا ہے) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عشاء کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں پڑھنے کے لیے باری مقرر کر لی تھی۔ ایک مرتبہ آپ نے اسے رات گئے پڑھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء دیر سے پڑھی۔ بعض نے عائشہ رضی اللہ عنہا نے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «عتمه» کو دیر سے پڑھا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ” عشاء “ پڑھتے تھے۔ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں دیر کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشاء کو دیر میں پڑھتے تھے۔ ابن عمر، ابوایوب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء پڑھی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر Q564 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q564
� تشریح:
امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے ان جملہ احادیث اور آثار کو یہاں اس غرض سے نقل کیا ہے کہ بہتر ہے عشاءکو لفظ عشاء سے ہی موسوم کیا جائے۔ اس پر بھی اگر کسی نے لفظ «عتمه» اس کے لیے استعمال کر لیا تو یہ بھی درجہ جواز میں ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کرام کا عام معمول تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات سے آگاہ رہنا اپنے لیے ضروری خیال کرتے تھے، جو حضرات مسجد نبوی سے دور دراز سکونت رکھتے تھے، انھوں نے آپس میں باری مقرر کر رکھی تھی۔ جو بھی حاضر دربار رسالت ہوتا، دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ ان سے حالات معلوم کر لیا کرتے تھے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی ان ہی میں سے تھے۔ یہ ہجرت حبشہ سے واپسی کے بعد مدینہ میں کافی فاصلہ پر سکونت پذیر ہوئے اور انہوں نے اپنے پڑوسیوں سے مل کر دربار رسالت میں حاضری کی باری مقرر کر لی تھی۔ آپ نے ایک رات نماز عشاء دیر سے پڑھے جانے کا ذکر کیا اور اس کے لیے لفظ «اعتم» استعمال کیا جس کا مطلب یہ کہ آپ نے دیر سے اس نماز کو ادا فرمایا۔ بعض کتابوں میں تاخیر کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے بعض معلاملات کے بارے میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرما رہے تھے، اسی لیے تاخیر ہو گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 564