صحيح البخاري
كِتَاب الْإِيمَانِ
کتاب: ایمان کے بیان میں
38. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 51
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ، أَنَّ هِرَقْلَ، قَالَ لَهُ:" سَأَلْتُكَ، هَلْ يَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ، هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ سَخْطَةً لِدِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ؟ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا، وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حِينَ تُخَالِطُ بَشَاشَتُهُ الْقُلُوبَ لَا يَسْخَطُهُ أَحَدٌ".
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے صالح بن کیسان سے، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سے، ان کو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی، ان کو ابوسفیان بن حرب نے کہ ہرقل (روم کے بادشاہ) نے ان سے کہا۔ میں نے تم سے پوچھا تھا کہ اس رسول کے ماننے والے بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں۔ تو نے جواب میں بتلایا کہ وہ بڑھ رہے ہیں۔ (ٹھیک ہے) ایمان کا یہی حال رہتا ہے یہاں تک کہ وہ پورا ہو جائے اور میں نے تجھ سے پوچھا تھا کہ کوئی اس کے دین میں آ کر پھر اس کو برا جان کر پھر جاتا ہے؟ تو نے کہا۔ نہیں، اور ایمان کا یہی حال ہے۔ جب اس کی خوشی دل میں سما جاتی ہے تو پھر اس کو کوئی برا نہیں سمجھ سکتا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 51 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 51
تشریح:
یہ باب بھی پچھلے باب ہی سے متعلق ہے اور اس سے بھی ایمان کی کمی و زیادتی ثابت کرنا مقصود ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 51
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:51
حدیث حاشیہ:
1۔
یہ باب بلاعنوان ہے۔
اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے بالعموم تین مقاصد ہوتے ہیں:
(الف)
۔
اس کا پہلے باب سے تعلق ہو۔
اور یہاں تعلق اس طرح ہے کہ پہلے باب میں دین، اسلام اور ایمان کے اتحاد پر حضرت جبرئیل علیہ السلام کی شہادت پیش کی گئی اور اس باب میں اہل کتاب کے زبردست عالم اوررومی سلطنت کے فرمانروا ہرقل کی گواہی کو نقل کیا ہے کیونکہ اس کا دوسرا سوال یہ تھا کہ اس دین سے ناراض ہوکر کوئی مرتد تو نہیں ہوتا۔
پھر ایمان کی شان بیان کی ہے یعنی اس نے دین کو ایمان سے تعبیر کیا ہے۔
(ب)
۔
اس سے قارئین کرام کو آمادہ کرنا مقصود ہوتا ہے کہ وہ ازخود اس حدیث پر کوئی عنوان قائم کریں، چنانچہ پہلے باب میں تھا کہ مومن کو کسی وقت بھی اپنے اعمال سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔
اس میں اس کی تلافی کردی ہے کہ جس کے دل میں ایمان راسخ ہوجاتا ہے اسے کوئی طاقت دین سے بےزار نہیں کرسکتی۔
گویا یوں باب قائم کیا جاسکتا ہے:
باب من یھدہ اللہ فلامضل له. وغیرہ۔
(ج)
۔
تکثیر فوائد بھی ترک عنوان کا باعث ہوسکتا ہے، یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مختلف فوائد وعنوانات قائم کیے جاسکتے ہوں، اس لیے کوئی ایک عنوان قائم کرکے اسے مقید نہیں کیا گیا۔
2۔
حدیث کی تقطیع کرنے کے متعلق محدثین کا اختلاف ہے۔
راجح یہ بات ہے کہ اگر تقطیع (حدیث کا کوئی ایک ٹکڑا بیان)
کرنے سے معنی سمجھ میں آتے ہوں اور اس میں کوئی خرابی واقع نہ ہوتی ہو تو ایسا کیا جاسکتا ہے جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر کیا ہے کیونکہ حدیث ہرقل بہت لمبی ہے اس کا ایک ٹکڑا یہاں بیان کیا ہے۔
(شرح الکرماني: 202/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 51