Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الطِّبِّ
کتاب: دوا اور علاج کے بیان میں
19. بَابُ الْجُذَامِ:
باب: جذام کا بیان۔
حدیث نمبر: 5707
وَقَالَ عَفَّانُ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ، وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ"
اور عفان بن مسلم (امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ) نے کہا (ان کو ابونعیم نے وصل کیا) ہے کہ ہم سے سلیم بن حیان نے بیان کیا، ان سے سعید بن میناء نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چھوت لگنا، بدشگونی لینا، الو کا منحوس ہونا اور صفر کا منحوس ہونا یہ سب لغو خیالات ہیں البتہ جذامی شخص سے ایسے بھاگتا رہ جیسے کہ شیر سے بھاگتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5707 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5707  
حدیث حاشیہ:
جذام ایک خراب مشہور بیماری ہے جس میں خون بگڑ کر سارا جسم گلنے لگ جاتا ہے۔
آخر میں ہاتھ پاؤں کی انگلیاں جھڑ جاتی ہیں۔
ہر چند مرض کا پورا ہونا بہ حکم الٰہی ہے مگر جذامی کے ساتھ خلط ملط اور یکجائی اس کا سبب ہے اور سبب سے پرہیز کرنا مقتضائے دانشمندی ہے یہ توکل کے خلاف نہیں ہے۔
جب یہ اعتقاد ہو کہ سبب اس وقت اثر کرتا ہے جب مسبب الاسباب یعنی پروردگار اس میں اثر دے۔
بعضوں نے کہا آپ نے پہلے فرمایا جذامی سے بھاگتا رہ یہ اس کے خلاف نہیں ہے آپ کا مطلب یہ تھا کہ اکثر شر سے ڈرنے والے کمزور لوگ ہوتے ہیں ان کو جذامی سے الگ رہنا ہی بہتر ہے ایسا نہ ہو کہ ان کو کوئی عارضہ ہو جائے تو علت اس کی جذامی کا قرب قرار دیں اور شرک میں گرفتار ہوں گویا یہ حکم عوام کے لیے ہے اور خواص کو اجازت ہے وہ جذامی سے قرب رکھیں تو بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔
حدیث میں ہے کہ آپ نے جذامی کے ساتھ کھانا کھایا اورفرمایا ''کُل بسمِ اللہِ ثقة باللہِ وتَوکلا عَلیهِ طاعون زدہ شہروں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
علامہ ابن قیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے کہ احادیث میں تعدیہ کی نفی اوہام پرستی کو ختم کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
یعنی یہ سمجھنا کہ بیماری اڑ کر لگ جاتی ہے اور بیماریوں میں تعدیہ اس حیثیت سے قطعاً نہیں ہے۔
اصلاً تعدیہ کا انکار مقصود نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بہت سی بیماریوں میں تعدیہ پیدا کیا ہے۔
اس لیے اس باب میں اوہام پرستی نہ کرنی چاہیے۔
''ھامة'' کا اعتقاد عرب میں اس طرح تھا کہ وہ بعض پرندوں کے متعلق سمجھتے تھے کہ اگروہ کسی جگہ بیٹھ کر بولنے لگے تووہ جگہ اجاڑ ہو جاتی ہے۔
شریعت نے اس کی تردید کی کہ بننا اور بگڑنا کسی پرندے کی آواز سے نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے چاہنے سے ہوتا ہے۔
الو کے متعلق آج تک عوام جہلاء کا یہی خیال ہے۔
بعض شہد کی مکھیوں کے چھتہ کے بارے میں ایسا وہم رکھتے ہیں یہ سب خیالات فاسدہ ہیں مسلمان کو ایسے خیالات باطلہ سے بچنا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5707   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5707  
حدیث حاشیہ:
(1)
بیماری، اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے مگر کوڑھی آدمی کے ساتھ میل ملاپ اس کا ایک سبب ہے، جب اللہ تعالیٰ اس میں اثر پیدا کر دے۔
اسبابِ بیماری سے پرہیز کرنا توکل کے منافی نہیں۔
کمزور عقیدہ رکھنے والوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجذوم آدمی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو تاکہ اللہ کی تقدیر کے سبب بیماری لگ جانے سے ان کے عقیدے میں خرابی نہ آئے ایسا نہ ہو کہ وہ کہنے لگیں:
یہ بیماری ہمیں فلاں آدمی سے لگی ہے۔
گویا یہ حکم عوام کے لیے ہے اور جس کا عقیدہ مضبوط ہو اسے جذامی کے ساتھ کھانے پینے اور ملنے جلنے کی اجازت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذامی آدمی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور فرمایا:
اللہ کا نام لے کر، اس پر اعتماد اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ۔
(جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث: 1817)
یہ روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے، تاہم صاحب ایمان و یقین کے لیے جائز ہے کہ وہ ایسے آدمی کے ساتھ مل کر کھانا کھائے لیکن ایسے مریض کو ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھنا چاہیے تاکہ اس کا دل نہ دکھے جیسا کہ روایت میں ہے:
جذام کے مریضوں کو ٹکٹکی باندھ کر مت دیکھو۔
(سنن ابن ماجة، الطب، حدیث: 3543) (2)
جزام کی بیماری والے شخص کو چاہیے کہ وہ عام لوگوں سے الگ رہے تاکہ دوسروں کو اس سے تکلیف نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ قبیلۂ ثقیف میں ایک مجذوم تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیغام بھیجا:
تم واپس چلے جاؤ۔
ہم نے تیری بیعت قبول کر لی ہے۔
(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5822 (2231)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5707