حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" جَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي مِنْ وَجَعٍ اشْتَدَّ بِي زَمَنَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَقُلْتُ: بَلَغَ بِي مَا تَرَى وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟، قَالَ: لَا، قُلْتُ: بِالشَّطْرِ؟، قَالَ: لَا، قُلْتُ: الثُّلُثُ؟، قَالَ: الثُّلُثُ كَثِيرٌ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَلَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ، إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 56
´عمل بغیر نیت اور خلوص کے صحیح نہیں ہوتے`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فَمِ امْرَأَتِكَ . . .»
”. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک تو جو کچھ خرچ کرے اور اس سے تیری نیت اللہ کی رضا حاصل کرنی ہو تو تجھ کو اس کا ثواب ملے گا۔ یہاں تک کہ اس پر بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 56]
� تشریح:
ان جملہ احادیث میں جملہ اعمال کا دارومدار نیت پر بتلایا گیا۔ امام نووی کہتے ہیں کہ ان کی بنا پر حظ نفس بھی جب شریعت کے موافق ہو تو اس میں بھی ثواب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 56
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1295
1295. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے سال جبکہ میں ایک سنگین مرض میں مبتلا تھا، میری عیادت کے لیے تشریف لاتے تھے۔ میں نے عرض کیا:میری بیماری کی انتہائی شدت کو تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں، میں ایک مالدار آدمی ہوں مگر میری ایک بیٹی کے سوا میرا اور کوئی وارث نہیں۔ کیا میں اپنے مال سے دو تہائی خیرات کرسکتا ہوں؟آپ نے فرمایا:”نہیں۔“ میں نےعرض کیا:کیا اپناآدھا مال؟ آپ نے فرمایا:”نہیں۔“ میں نے پھر عرض کیا:کیاایک تہائی خیرات کردوں؟آپ نے فرمایا:”ایک تہائی خیرات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جاناتمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ انھیں فقیر اور تنگ دست چھوڑجاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے جو کچھ خرچ کروگے اس کا اجر تمھیں ضرور ملے گا حتیٰ کہ جو لقمہ ا پنی بیوی کے منہ میں دو گے اس کا بھی ثواب ملےگا۔“ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ! کیا میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1295]
حدیث حاشیہ:
اس موقع پر حضور اکرم ﷺ نے اسلام کا وہ زریں اصول بیان کیا ہے جو اجتماعی زندگی کی جان ہے۔
احادیث کے ذخیرہ میں اس طرح کی احادیث کی کمی نہیں اور اس سے ہماری شریعت کے مزاج کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی اتباع کرنے والوں سے کس طرح کی زندگی کا مطالبہ کرتی ہے۔
خداوند تعالیٰ خود شارع ہیں اور اس نے اپنی تمام دوسری مخلوقات کے ساتھ انسانوں کو بھی پیدا کیا ہے۔
اس لیے انسان کی طبیعت میں فطری طور پر جو رجحانات اور صلاحیتیں موجود ہیں۔
خداوند تعالیٰ اپنے احکام و اوامر میں انہیں نظرانداز نہیں کرتے۔
شریعت میں معاد ومعاش سے متعلق جن احکام پر عمل کرنے کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے‘ ان کا مقصد یہ ہے کہ خدا کی عبادت اس کی رضا کے مطابق ہوسکے اور زمین میں شرو فساد نہ پھیلے۔
اہل وعیال پر خرچ کرنے کی اہمیت اور اس پر اجروثواب کا استحقاق صلہ رحمی اور خاندانی نظام کی اہمیت کے پیش نظر ہے کہ جن پر معاشرہ کی صلاح وبقا کا مدار ہے۔
حدیث کا یہ حصہ کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دے تو اس پر بھی اجروثواب ملے گا، اسی بنیاد پر ہے۔
کون نہیں جانتا کہ اس میں حظ نفس بھی ہے۔
لیکن اگر ازدواجی زندگی کے ذریعہ مسلمان اس خاندانی نظام کو پروان چڑھاتا ہے جس کی ترتیب اسلام نے دی اور اس کے مقتضیات پر عمل کی کوشش کرتا ہے تو قضاء شہوت بھی اجروثواب کا باعث ہے۔
شیخ نووی ؒ نے لکھا ہے کہ حظ نفس اگر حق کے مطابق ہوتو اجروثواب میں اس کی وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوتی۔
مسلم میں اس سلسلے کی ایک حدیث بہت زیادہ واضح ہے‘ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ تمہاری شرمگاہ میں صدقہ ہے۔
صحابہ ؓ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ! کیا ہم اپنی شہوت بھی پوری کریں اور اجر بھی پائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں! کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ اگر حرام میں مبتلا ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ شریعت ہمیں کن حدود میں رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اس نے کیا کیا جتن کئے ہیں اور ہمارے بعض فطری رجحانات کی وجہ سے جو بڑی خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں‘ ان کے سد باب کی کس طرح کوشش کی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس کے باوجود کہ بیوی کے منہ میں لقمہ دینے اور دوسرے طریقوں سے خرچ کرنے کا داعیہ نفعانی اور شہوانی بھی ہے۔
خود یہ لقمہ جس جسم کا جزو بنے گا شوہر اسی سے منتفع (فائدہ)
اٹھاتا ہے، لیکن شریعت کی طرف سے پھر بھی اجروثواب کا وعدہ ہے۔
اس لیے اگر دوسروں پر خرچ کیا جائے جن سے کوئی نسبت وقرابت نہیں اور جہاں خرچ کرنے کے لیے کچھ زیادہ مجاہدہ کی بھی ضرورت ہوگی تو اس پر اجروثواب کس قدر مل سکتا ہے۔
تاہم یہ یاد رہے کہ ہر طرح کے خرچ اخراجات میں مقدم اعزا واقرباء ہیں۔
اور پھر دوسرے لوگ کہ اعزاپر خرچ کرکے آدمی شریعت کے کئی مطالبوں کو ایک ساتھ پورا کرتا ہے۔
سعد بن خولہ ؓ مہاجرین میں سے تھے۔
لیکن آپ کی وفات مکہ میں ہوگئی تھی۔
یہ بات پسند نہیں کی جاتی تھی کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول سے تعلق کی وجہ سے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کی تھی وہ بلا کسی سخت ضرورت کے مکہ میں قیام کریں۔
چنانچہ سعد بن وقاص ؓ مکہ میں بیمار ہوئے تو وہاں سے جلد نکل جانا چاہا کہ کہیں وفات نہ ہوجائے اور رسول اللہ ﷺ نے بھی سعد بن خولہ ؓ پر اس لیے اظہار غم کیا تھا کہ مہاجر ہونے کے باوجود ان کی وفات مکہ میں ہوگئی۔
اسی کے ساتھ آپ ﷺ نے اس کی بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کو ہجرت پر استقلال عطا فرمائے تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نقصان کس طرح کا ہوگا۔
کیونکہ یہ تکوینیات سے متعلق ہے۔
(تفہیم البخاری)
ترجمہ باب رثاء سے وہی اظہار افسوس اور رنج وغم مراد ہے نہ مرثیہ پڑھنا۔
مرثیہ اس کو کہتے ہیں کہ میت کے فضائل اور مناقب بیان کئے جائیں اور لوگوں کو بیان کرکے رلایا جائے۔
خواہ وہ نظم ہو یا نثر یہ تو ہماری شریعت میں منع ہے، خصوصاً لوگوں کو جمع کرکے سنانا اور رُلانا اس کی ممانعت میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
صحیح حدیث میں وارد ہے جس کو احمد اور ابن ماجہ نے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے مرثیوں سے منع فرمایا۔
سعد ؓ کا مطلب یہ تھا کہ اور صحابہ تو آپ کے ساتھ مدینہ طیبہ روانہ ہوجائیں گے اور میں مکہ ہی میں پڑے پڑے مرجاؤں گا۔
آپ ﷺ نے پہلے گول مول فرمایا جس سے سعد ؓ نے معلوم کرلیا کہ میں اس بیماری سے مروں گا نہیں۔
پھر آگے صاف فرمایا کہ شاید تو زندہ رہے گا اور تیرے ہاتھ سے مسلمانوں کو فائدہ اور کافروں کا نقصان ہوگا۔
اس حدیث میں آپ ﷺ کا ایک بڑا معجزہ ہے جیسے آپ کی پیش گوئی تھی ویسا ہی ہوا۔
سعد ؓ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد مدت تک زندہ رہے عراق اور ایران انہوں نے فتح کیا۔
رضي اللہ عنه۔
(وحیدي)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1295
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3936
3936. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے۔ میں اس بیماری میں موت کے قریب ہو گیا تھا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مرض کی شدت آپ خود ملاحظہ فر مارہے ہیں۔ میرے پاس مال کی فراوانی ہے اور میری صرف ایک بیٹی وارث ہے۔ کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“ عرض کی: نصف مال صدقہ کر دوں؟ فرمایا: ”ایک تہائی (صدقہ کر دو) اور یہ تہائی بھی بہت ہے۔ تمہارا اپنی اولاد کو مال دار چھوڑ کر جانا اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو، وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔“ احمد بن یونس نے ابراہیم بن سعد سے یہ روایت (أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ) کے بعد بایں الفاظ نقل کی ہے: ”تم جو بھی خرچ کرو جس سے مقصود اللہ کی رضا مندی ہو تو اس کا ثواب تمہیں اللہ تعالٰی ضرور عطا فرمائے گا حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3936]
حدیث حاشیہ:
حجۃ الوداع میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ بیمار ہو گئے اور بیماری شدت پکڑ گئی تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے زندگی سے مایوس ہو کر اپنے ترکہ کے بارے میں مسائل معلوم کئے۔
آنحضرت ﷺ نے ان کو مسائل سمجھائے اور ساتھ ہی تسلی دلائی کہ ابھی تم عرصہ تک زندہ رہو گے اور ایسا ہی ہوا کہ حضرت سعد ؓ بعد میں چالیس سال زندہ رہے عراق فتح کیا اور بہت سے لوگ ان کے ہاتھ پر مسلمان ہو ئے ان کے بہت سے لڑکے بھی پیداہوئے۔
حدیث پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کو تنگ دست مفلس قلاش بننے کی بجائے زیادہ سے زیادہ حلال طور پر کما کر دولت مند بننے کی تعلیم دیتا ہے اور بزور رغبت دلاتا ہے کہ وہ اپنے اہل وعیال کو غربت تنگ دستی کی حالت میں چھوڑ کر انتقال نہ کریں یعنی پہلے سے ہی محنت و مشقت کرکے افلاس کا مقابلہ کریں۔
ضرور ایسی ترقی کریں کہ مرنے کے بعد ان کی اولاد تنگ دستی محتا جگی افلاس کی شکار نہ ہو۔
اسی لئے حضرت امام سعید بن مسیب مشہور محدث فرماتے ہیں:
لا خیر في من لا یرید جمع المال من حله یکف به وجھه عن الناس ویصل به رحمه ویعطي منه حقه۔
ایسے شخص میں کوئی خوبی نہیں ہے جو حلال طریقہ سے مال جمع نہ کرے جس کے ذریعہ لوگوں سے اپنی آبرو کی حفاظت کرے اور خویش واقارب کی خبر گیری کرے اور اس کا حق ادا کرے۔
حضرت امام سبیعی کا قول ہے کانوا یرون السعة عونا علی الدین بزرگان دین خوش حالی کو دین کے لئے مدد گار خیال کرتے تھے۔
امام سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں:
المال في زماننا ھذاسلاح المومنین مال ہمارے زمانہ میں مومن کا ہھتیار ہے (از منہاج القاصدین، ص: 199)
قرآن مجید میں زکوٰۃ کا بار بار ذکر ہی یہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان مال دار ہو جو سالانہ زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ ادا کر سکے۔
ہاں مال اگر حرام طریقہ سے جمع کیا جائے یا انسان کو اسلام اور ایمان سے غافل کر دے تو ایسا مال خدا کی طرف سے موجب لعنت ہے۔
وفقنا اللہ لما یحب ویرضی (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3936
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4409
4409. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ بیماری نے مجھے موت کے منہ میں لا ڈالا تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ دیکھ رہے ہیں کہ میری بیماری کس حد کو پہنچ چکی ہے۔ میرے پاس مال ہے جس کی وارث صرف ایک بیٹی ہے، تو کیا میں اپنا دو تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کی: آدھا کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کی: پھر ایک تہائی اللہ کی راہ میں دے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اگر اس سے اللہ کی رضا مقصود ہو تو تمہیں اس پر ثواب ملے گا حتی کہ اس لقمے پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4409]
حدیث حاشیہ:
حجۃ الوداع کے ذکر کی وجہ سے حدیث کو یہاں لایا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4409
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5659
5659. سیدہ عائشہ بنت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد گرامی نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں سخت بیمار ہو گیا تو نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں مال چھوڑ رہا ہوں اور میری صرف ایک ہی بیٹی ہے۔ اسکے علاوہ میرا کوئی دوسرا (وارث) نہیں کیا میں دو تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہوں اور ایک تہائی اس کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو۔“ میں نے عرض کی: پھر نصف ترکہ کی وصیت کر دوں اور نصف رہنے دوں؟ آپ نے فرمایا: ”یہ بھی نہ کرو۔“ میں نے پھر عرض کی: میں ایک تہائی کی وصیت کر دوں اور دو تہائی رہنے دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ ایک تہائی کی وصیت کر سکتے ہو لیکن یہ بھی زیادہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک میری پیشانی ہر رکھا پھر میرے چہرے اور پیٹ پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور فرمایاَ ”اے اللہ! سعد کو شفا دے اور اس کی ہجرت مکمل کر دے۔“ (حضرت سعد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5659]
حدیث حاشیہ:
حضرت سعد بن ابی وقاص قریشی عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔
سترہ سال کی عمر میں اسلام لائے۔
تمام غزوات میں شریک رہے، بڑے مستجاب الدعوات تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے قبولیت دعا کی تھی۔
اس کی برکت سے ان کی دعا قبول ہوتی تھی۔
یہی ہیں جن کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا (ارم یا سعد فداك أبي و أمي)
سنہ55ھ میں مقام عقیق میں وفات پائی۔
ستر سال کی عمر تھی مروان بن حکم نے نماز جنازہ پڑھائی۔
مدینے کے قبر ستان بقیع الغرقد میں دفن ہو ئے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5659
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2744
2744. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں بیمار ہوا تو نبی کریم ﷺ میری تیمار داری کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ایڑیوں کے بل واپس نہ کردے (مکہ میں مجھے موت نہ آئے) آپ ﷺ نے فرمایا: ”شاید اللہ تعالیٰ تمھیں دراز عمر دے اور لوگوں کو تم سے نفع پہنچائے۔“ میں نے عرض کیا: میرا وصیت کرنے کا ارادہ ہے اورمیری ایک ہی بیٹی ہے، کیا میں آدھے مال کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ”نصف مال تو زیادہ ہے۔“ میں نے عرض کیا: تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں ثلث ٹھیک ہے لیکن ثلث کی مقدار بھی زیادہ یا بڑی ہے۔“ راوی کہتا ہے کہ لوگ ایک تہائی مال کی وصیت کرنے لگے کیونکہ تہائی کی مقدار کو آپ نے ان کے لیے جائز قرار دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2744]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی تہائی تک کی وصیت کرنا جائز ثابت ہوا‘ ساتھ یہ بھی کہ شارع کا منشا وارثوں کے لئے زیادہ سے زیادہ مال چھوڑنا ہے تاکہ وہ پیچھے محتاج نہ ہوں‘ وصیت کرتے وقت وصیت کرنے والوں کو یہ امرملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2744
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5354
5354. سیدنا سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے جبکہ میں اس وقت مکہ مکرمہ میں بیمار تھا۔ میں نے (آپ ﷺ سے) عرض کی: میرے پاس مال ہے، کیا میں سارے مال کی وصیت کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: آدھے مال کی کر دوں؟آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تہائی کی کر دو لیکن تہائی بھی بہت زیادہ ہے اگر تم اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے انہیں محتاج اور تنگدست چھوڑو وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور جو بھی تم اپنے اہل عیال پر خرچ کرو گے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا یہاں تک پر خرچ کرو گے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا یہاں تک کہ اس لقمے پر بھی ثواب ملے گا جوتم اپنی بیوی کے منہ میں رکھنے کے لیے اٹھاؤ گے۔ امید ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں زندہ رکھے گا۔ تم سے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچے گا اور بہت سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5354]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسی امید ظاہر فرمائی تھی، اللہ نے اس کو پورا کیا۔
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ وفات نبوی کے بعد مدت دراز تک زندہ رہے۔
عراق کاملک انہوں نے ہی فتح کیا۔
کافروں کوزیر کیا اوروہ مدتوں عراق کے حاکم رہے۔
صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
سعد رضی اللہ عنہ عشرئہ مبشرہ میں سے ہیں۔
17 سال کی عمر میں مسلمان ہوئے اور کچھ اوپر ستر سال کی عمر پائی اور سنہ 55 ھ میں انتقال ہوا۔
مروان بن حکم نے نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ طیبہ میں دفن ہوئے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ و عنا أجمعین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5354
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 56
56. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں اس نفقے پر ضرور اجر دیا جائے گا جس سے تمہارا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہو حتیٰ کہ اس لقمے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:56]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث میں جملہ اعمال کا دارومدار نیت پر بتلایا گیا۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان کی بنا پر حظ نفس بھی جب شریعت کے موافق ہو تو اس میں بھی ثواب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 56
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6733
6733. حضرت سعد ابن وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں ایسا بیمار ہوا کہ مجھے موت نظر آنے لگی نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سا مال ہے جبکہ میری وارث صرف بیٹی ہے تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہ“ میں نے پوچھا: پھر ںصف مال صدقہ کر دوں؟فرمایا: ”نہ“ میں نے عرض کی: کیا ایک تہائی کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ گو تہائی بہت زیادہ ہے۔ اگر تم اپنے بچوں کو مال دار چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں۔ اور تم جو بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں ثواب ملے گا یہاں تک کہ اگر تو اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے تو یہ بھی موجب اجرو ثواب ہوگا۔ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی ہجرت میں پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تو میرے بعد پیچھے رہ بھی گیا تب بھی جو عمل کرے گا اور اس سے اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6733]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص کے لئے جیسا فرمایا تھا ویسا ہی ہوا، وہ وفات نبوی کے بعد کافی دنوں زندہ رہے اور تاریخ اسلام میں ایک عظیم مجاہد اور فاتح کی حیثیت سے نامور ہوئے جیسا کہ کتب تاریخ میں تفصیلات موجود ہیں۔
کچھ اوپر 70 سال کے عمر میں 55 میں انتقال فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6733
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2864
´وصیت کرنے والے کے لیے جو چیز ناجائز ہے اس کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ بیمار ہوئے (ابن ابی خلف کی روایت میں ہے: مکہ میں، آگے دونوں راوی متفق ہیں کہ) اس بیماری میں وہ مرنے کے قریب پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عیادت فرمائی، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں بہت مالدار ہوں اور میری بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنے مال کا دو تہائی صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، پوچھا: کیا آدھا مال صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، پھر پوچھا: تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2864]
فوائد ومسائل:
1۔
مال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
اس لئے اسے حلال ذرائع سے کمانا اور پھر جمع رکھنا کوئی معیوب نہیں، بشرط یہ کہ شرعی واجبات ادا کرتا رہے۔
مال جمع ہونے کی صورت میں ہی ایک مسلمان زکواۃ، حج، جہاد، قربانی، صدقہ، ورثہ اور وصیت جیسے احکام پر عمل پیرا ہوسکتا ہے۔
ورنہ مدات پرعمل محال ہوگا۔
اور جن آیات وحدیث میں مال جمع کرنے کی مذمت ہے۔
وہاں حرام مال کمانے شریعت کے تقاضے پورے نہ کرنے اور اس کا محض حریص بننے کی مذمت ہے۔
2۔
تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں۔
3۔
فقیروں کی نسبت وارثوں کا حق اولیٰ ہے۔
اور انہیں غنی چھوڑ جانا مستحب اور فقیرچھوڑ جانانا پسندیدہ ہے۔
سوائے اس کے کہ وہ توکل کے اعلیٰ مراتب پرہوں۔
4۔
واجب اخراجات اور تمام اعمال صالحہ جو راہ للہ کیے جایئں ان سب میں انسان کواجر وثواب ملتا ہے۔
اور درجات بلند ہوتے ہیں۔
5۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی بشارت کے مطابق آپ کی رحلت کے بعد تقریبا چوالیس برس حیات رہے۔
اور عراق انہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔
مشہور اور فیصلہ کن جنگ قادسیہ میں مسلمانوں کے کمانڈر آپ ہی تھے۔
6۔
اس وقت واجب تھا کہ جس علاقے کے مسلمانوں نے اللہ کے لئے ہجرت کی ہو وہاں قیام نہیں کرسکتے۔
اس لئے یہ بھی کوشش ہوتی تھی کہ سفر میں بھی وہاں موت نہ آئے۔
اور حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجر صحابی تھے۔
پہلے ہجرت حبشہ ثانیہ میں حبشہ گئے وہاں سے لوٹے اور غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔
بالاخرحجۃ الوداع کے موقعہ پر مکہ میں فوت ہوئے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2864
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3104
´عیادت کے موقع پر مریض کے لیے شفاء کی دعا کرنا۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا میں مکے میں بیمار ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پیشانی پر رکھا پھر میرے سینے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا پھر دعا کی: «اللهم اشف سعدا وأتمم له هجرته» ”اے اللہ! سعد کو شفاء دے اور ان کی ہجرت کو مکمل فرما ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3104]
فوائد ومسائل:
عیادت میں چاہیے کہ مریض کی پوری طرح دلجوئی کی جائے۔
اور بالخصوص اللہ تعالیٰ سے دعا ہو کہ اسے شفا ملے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3104
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:56
56. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تمہیں اس نفقے پر ضرور اجر دیا جائے گا جس سے تمہارا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہو حتیٰ کہ اس لقمے پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:56]
حدیث حاشیہ:
1۔
واقعہ یہ ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس قدر بیمار ہوئے کہ زندگی سےمایوسی ہوگئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مال زیادہ ہے بیٹی ایک ہے سارے مال کی وصیت کرنا چاہتا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مال کی وصیت سے روک دیا، اس مال سے صلہ رحمی اور اقربا پروری کی تلقین فرمائی۔
مذکورہ حدیث بھی اسی ضمن میں ارشاد فرمائی۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ بال بچوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔
صدقہ صرف وہی نہیں جو غیر کو دیا جائے۔
بلکہ خود اپنے اوپر خرچ کر کے ثواب حاصل کیا جا سکتا ہے۔
حتی کہ بیوی کےمنہ میں لقمہ ڈالنا بھی باعث اجرو ثواب ہے اگر نیت ثواب کی ہو۔
اگرچہ اس میں لذت کا پہلو اور طبیعت کا تقاضا بھی ہے۔
2۔
علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جائز طور پر نفسانی خواہشات کی تکمیل سے بھی ثواب ملتا ہے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”شرمگاہ میں بھی صدقہ ہے۔
“ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا قضائے شہوت میں بھی اجر ہے؟ آپ نے فرمایا:
”اگر اس کا غلط استعمال کیا جاتا تو گناہ گار نہ ہوتا۔
“ اندریں حالات اپنے محل میں یہ عمل باعث اجر کیوں نہ ہو۔
(فتح الباري: 181/1)
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تینوں احادیث کی ترتیب میں بھی عجیب اسلوب اختیار کیا ہے پہلی حدیث کا مرکزی اصول یہ ہے کہ شرعی عبادات میں نیت کا اعتبار ہوگا۔
اگر اخلاص ہے تو ثواب، اگر نہیں تو عتاب، دوسری حدیث میں ہے کہ عام معاشرتی عادات کو حسن نیت سے عبادات میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس پر اجروثواب بھی ملے گا۔
تیسری حدیث میں ہے کہ خواہشات نفسانی کی تکمیل اگر جائز طریقے سے ہو تو اس میں اجرو ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔
گو اس میں حصول لذت بھی ہے اور طبیعت کا تقاضا بھی موجود ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 56
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1295
1295. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:رسول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے سال جبکہ میں ایک سنگین مرض میں مبتلا تھا، میری عیادت کے لیے تشریف لاتے تھے۔ میں نے عرض کیا:میری بیماری کی انتہائی شدت کو تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں، میں ایک مالدار آدمی ہوں مگر میری ایک بیٹی کے سوا میرا اور کوئی وارث نہیں۔ کیا میں اپنے مال سے دو تہائی خیرات کرسکتا ہوں؟آپ نے فرمایا:”نہیں۔“ میں نےعرض کیا:کیا اپناآدھا مال؟ آپ نے فرمایا:”نہیں۔“ میں نے پھر عرض کیا:کیاایک تہائی خیرات کردوں؟آپ نے فرمایا:”ایک تہائی خیرات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جاناتمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ انھیں فقیر اور تنگ دست چھوڑجاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ تم اللہ کی رضا جوئی کے لیے جو کچھ خرچ کروگے اس کا اجر تمھیں ضرور ملے گا حتیٰ کہ جو لقمہ ا پنی بیوی کے منہ میں دو گے اس کا بھی ثواب ملےگا۔“ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ﷺ! کیا میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1295]
حدیث حاشیہ:
(1)
راوی کے بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن خولہ ؓ کے متعلق صرف اظہارِ رنج و غم فرمایا کہ انہیں مکہ ہی میں موت آ گئی۔
اس کے متعلق محدث اسماعیلی نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حزن و ملال، مرثیے میں سے نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ شاید امام بخاری ؒ کا مقصد مرثیہ مباح کی صورت بتانا ہے، کیونکہ ایسا مرثیہ جس سے غم کے جذبات بھڑکنے کا اندیشہ ہو اس کی ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مرثیے سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ مسند احمد وغیرہ میں ہے۔
(مسند أحمد: 356/4،383)
مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مرثیہ خوانی سے منع فرمایا۔
(المصنف لابن أبي شیبة: 302/3، 392، 394، 395)
لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی میت کے متعلق مرثیے کے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ اس سے مراد اپنی ہمدردی اور شرکتِ غم کا اظہار کرنا ہے۔
(فتح الباري: 210/3)
بعض شارحین نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے اس واقعے کو فتح مکہ سے متعلق قرار دیا ہے، حالانکہ اس حدیث میں صراحت ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع پر پیش آیا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئی کے مطابق مدت تک زندہ رہے۔
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایران اور عراق ان کے ہاتھوں فتح ہوئے۔
بےشمار لوگ ان کے ہاتھوں مسلمان ہوئے اور کئی ایک ان کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے۔
(2)
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی تسلی کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ میری زندگی ابھی باقی ہے اور اس بیماری میں میرا انتقال نہیں ہو گا، اس لیے انہوں نے سوال کیا کہ آیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا، یعنی آپ تو حجۃ الوداع سے فارغ ہو کر مکہ معظمہ سے اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ چلے جائیں گے اور میں یہاں اکیلا رہ جاؤں گا۔
یہ فکر اس لیے دامن گیر ہوئی کہ صحابہ کرام ؓ ہجرت کے بعد مکہ میں رہ جانے کو اچھا نہیں جانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ دارہجرت ہی میں موت آئے تو ہجرت کی تکمیل ہو گی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”اگر تم رہ بھی جاؤ تو کوئی حرج والی بات نہیں، یہاں بھی جو نیک اعمال کرو گے ان کا نفع اور ثواب تمہیں مکہ معظمہ میں بھی ضرور حاصل ہو گا۔
“ پھر آپ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! میرے صحابہ کرام کے لیے ان کی ہجرت کو کامل کر دے اور ان کے قدم کمال سے نقص اور کمی کی طرف نہ لوٹیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے سوال کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں اس مرض سے نجات پر مزید زندگی پاؤں گا کہ میں اپنے ساتھیوں سے بعد میں وفات پاؤں۔
اس کے جواب میں آپ کا دوسرا ارشاد ہے کہ تمہاری عمر دراز ہو گی اور تمہاری موت مکہ مکرمہ میں نہیں ہو گی، چنانچہ اس کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ چالیس سال تک زندہ رہے، عراق و ایران فتح کیا، نیز ان سے مسلمانوں کو بہت نفع پہنچا اور کفارومشرکین پر ان کی وجہ سے بہت تکلیفیں آئیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1295
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2744
2744. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں بیمار ہوا تو نبی کریم ﷺ میری تیمار داری کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے ایڑیوں کے بل واپس نہ کردے (مکہ میں مجھے موت نہ آئے) آپ ﷺ نے فرمایا: ”شاید اللہ تعالیٰ تمھیں دراز عمر دے اور لوگوں کو تم سے نفع پہنچائے۔“ میں نے عرض کیا: میرا وصیت کرنے کا ارادہ ہے اورمیری ایک ہی بیٹی ہے، کیا میں آدھے مال کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا: ”نصف مال تو زیادہ ہے۔“ میں نے عرض کیا: تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں ثلث ٹھیک ہے لیکن ثلث کی مقدار بھی زیادہ یا بڑی ہے۔“ راوی کہتا ہے کہ لوگ ایک تہائی مال کی وصیت کرنے لگے کیونکہ تہائی کی مقدار کو آپ نے ان کے لیے جائز قرار دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2744]
حدیث حاشیہ:
(1)
امت کا اس امر پر اجماع ہے کہ جس میت کا وارث ہو، ایک تہائی سے زیادہ وصیت اس کے لیے جائز نہیں لیکن اگر کوئی وارث نہ ہو تو کیا تہائی سے زیادہ کی وصیت کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ جمہور اہل علم کہتے ہیں:
تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنا کسی صورت میں جائز نہیں۔
ایک تہائی بطور وصیت خرچ کرنے کے بعد دو تہائی بیت المال میں جمع کر دیا جائے، لیکن احناف کا موقف ہے کہ وارث نہ ہونے کی صورت میں تہائی مال سے زیادہ وصیت جائز ہے کیونکہ قرآن کریم نے مطلق طور پر وصیت کا ذکر کیا ہے، پھر سنت نے اسے مقید کیا ہے کہ ورثاء موجود ہونے کی صورت میں ایک تہائی تک وصیت کی جائے۔
جس کا وارث نہ ہو وہ قرآن کریم کے اطلاق پر رہے گا اور تہائی سے زیادہ وصیت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ہمارے رجحان کے مطابق ورثاء کی عدم موجودگی میں ایک تہائی سے زیادہ وصیت کی جا سکتی ہے کیونکہ وصیت کی تعیین صرف حقوق ورثاء کے پیش نظر ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓسے فرمایا تھا، اس لیے اگر ورثاء نہیں ہیں تو ایک تہائی سے زیادہ وصیت کی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ وصیت کسی برے کام کے لیے نہیں ہونی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
”اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہاری وفات کے وقت تمہارے تہائی مال کے بدلے تمہاری نیکیوں میں اضافے کا صدقہ کیا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعے سے تمہارے اچھے اعمال میں اضافہ کرے۔
“ (سنن ابن ماجة، الوصایا، حدیث: 2709)
یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ تہائی مال کی وصیت نیکیوں میں اضافے کا باعث ہے اور گناہ کے کام میں وصیت کرنا جائز نہیں کیونکہ کتاب و سنت نے گناہ سے بچنے کا حکم دیا ہے۔
واللہ اعلم (2)
امام بخاری ؒ نے تہائی مال کی مشروعیت کو بیان کیا ہے۔
اگر ورثاء فقیر ہوں تو بہتر ہے کہ تہائی مال سے کم کی وصیت کی جائے جیسا کہ ابن عباس ؓ کا ارشاد ہے۔
اگر ورثاء مال دار ہیں تو پھر تہائی مال تک وصیت کی گنجائش ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2744
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3936
3936. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے۔ میں اس بیماری میں موت کے قریب ہو گیا تھا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے مرض کی شدت آپ خود ملاحظہ فر مارہے ہیں۔ میرے پاس مال کی فراوانی ہے اور میری صرف ایک بیٹی وارث ہے۔ کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں“ عرض کی: نصف مال صدقہ کر دوں؟ فرمایا: ”ایک تہائی (صدقہ کر دو) اور یہ تہائی بھی بہت ہے۔ تمہارا اپنی اولاد کو مال دار چھوڑ کر جانا اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو، وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔“ احمد بن یونس نے ابراہیم بن سعد سے یہ روایت (أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ) کے بعد بایں الفاظ نقل کی ہے: ”تم جو بھی خرچ کرو جس سے مقصود اللہ کی رضا مندی ہو تو اس کا ثواب تمہیں اللہ تعالٰی ضرور عطا فرمائے گا حتی کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3936]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے ہجرت کی قدروقیمت اور اہمیت وفضیلت بتانا مقصود ہے۔
2۔
رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین صحابہ کرام ؓ کے لیے استقامت کی دعا فرمائی ہے کہ اے اللہ! ان کی ہجرت کو قائم رکھ اور شرف قبولیت سے ہمکنار کر۔
انھیں ہجرت کے برعکس کوئی کام کرکے الٹے پاؤں مت پھیر۔
پھر آپ نے حضرت سعد بن خولہ ؓ پر اظہار افسوس فرمایا کہ وہ بے چارے اپنی مجبوری کی وجہ سے مکہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ نہ آسکے اور انھیں مکے ہی میں موت آئی۔
3۔
اس حدیث میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے متعلق ایک پیش گوئی کاذکر ہے،چنانچہ وہ اس کے بعد چالیس سال تک زندہ رہے۔
عراق اور فارس فتح کیا۔
مسلمانوں کو فتوحات سے مالا مال اور مشرکین کو نقصان ہوا کہ وہ شکست کھا کرمیدان چھوڑ گئے۔
4۔
اس وقت حضرت سعد ؓ کی ایک بیٹی تھی۔
اس کےبعد اللہ تعالیٰ نے انھیں اولاد کثیر سے نوازا۔
5۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کو تنگ دست وقلاش بننے کے بجائے ذرائع سے زیادہ مال کما کر دولت مند بننے کی تعلیم دیتا ہے۔
ہاں، اگرحرام ذرائع سے مال جمع کیا جائے یا وہ مال ایمان واسلام سے غافل کردے تو ایسا مال اللہ کی طرف سے موجب لعنت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3936
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4409
4409. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پر میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ بیماری نے مجھے موت کے منہ میں لا ڈالا تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ دیکھ رہے ہیں کہ میری بیماری کس حد کو پہنچ چکی ہے۔ میرے پاس مال ہے جس کی وارث صرف ایک بیٹی ہے، تو کیا میں اپنا دو تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کی: آدھا کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کی: پھر ایک تہائی اللہ کی راہ میں دے دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔ تم اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے، اگر اس سے اللہ کی رضا مقصود ہو تو تمہیں اس پر ثواب ملے گا حتی کہ اس لقمے پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4409]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ غزوات میں شمولیت کی وجہ سے اموال غنیمت کے باعث بہت مال دار ہوگئے تھے، اس لیے ان کی تقسیم کے متعلق سوال کیا۔
2۔
چونکہ یہ مہاجرتھے اور مکہ میں سخت علیل ہوگئے، انھیں خیال آیا کہ اگرمکہ ہی میں انتقال ہوگیا تو شاید ہجرت کا ثواب ضائع ہوجائے۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں تسلی دی کہ اس مرض میں تمھیں موت نہیں آئے گی بلکہ تم زندہ رہوگے حتی کہ تم سے مسلمانوں کو نفع پہنچے گا اور مشرکین ومنافقین تمہاری وجہ سے بہت نقصان اٹھائیں گے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
وہ فاتح فارس بنے اور حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں ہونے والی جنگ قادسیہ میں سپہ سالار تھے۔
چونکہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا بیان ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے ذکر کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4409
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5354
5354. سیدنا سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے جبکہ میں اس وقت مکہ مکرمہ میں بیمار تھا۔ میں نے (آپ ﷺ سے) عرض کی: میرے پاس مال ہے، کیا میں سارے مال کی وصیت کر سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: آدھے مال کی کر دوں؟آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: تہائی مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تہائی کی کر دو لیکن تہائی بھی بہت زیادہ ہے اگر تم اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے انہیں محتاج اور تنگدست چھوڑو وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور جو بھی تم اپنے اہل عیال پر خرچ کرو گے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا یہاں تک پر خرچ کرو گے وہ تمہارے لیے صدقہ ہوگا یہاں تک کہ اس لقمے پر بھی ثواب ملے گا جوتم اپنی بیوی کے منہ میں رکھنے کے لیے اٹھاؤ گے۔ امید ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں زندہ رکھے گا۔ تم سے بہت سے لوگوں کو نفع پہنچے گا اور بہت سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5354]
حدیث حاشیہ:
(1)
اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا آپس کی دل لگی ہے، طاعات سے نہیں، لیکن اس سے جب اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو اور اس سے نیت حصول ثواب کی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے بھی ثواب عطا فرمائے گا۔
اس سے اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے متعلق جو امید ظاہر کی تھی اللہ تعالیٰ نے اسے پورا کر دکھایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ عرصۂ دراز تک زندہ رہے۔
انہوں نے عراق اور دیگر ممالک فتح کیے۔
ان کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت فوائد حاصل ہوئے اور کافروں کو مصیبتوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔
انہوں نے 55 ہجری مین وفات پائی۔
مروان بن حکم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور مدینہ طیبہ میں دفن ہوئے۔
رضي اللہ عنه۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5354
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5659
5659. سیدہ عائشہ بنت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد گرامی نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں سخت بیمار ہو گیا تو نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں مال چھوڑ رہا ہوں اور میری صرف ایک ہی بیٹی ہے۔ اسکے علاوہ میرا کوئی دوسرا (وارث) نہیں کیا میں دو تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہوں اور ایک تہائی اس کے لیے چھوڑ دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ایسا نہ کرو۔“ میں نے عرض کی: پھر نصف ترکہ کی وصیت کر دوں اور نصف رہنے دوں؟ آپ نے فرمایا: ”یہ بھی نہ کرو۔“ میں نے پھر عرض کی: میں ایک تہائی کی وصیت کر دوں اور دو تہائی رہنے دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ ایک تہائی کی وصیت کر سکتے ہو لیکن یہ بھی زیادہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا دست مبارک میری پیشانی ہر رکھا پھر میرے چہرے اور پیٹ پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا اور فرمایاَ ”اے اللہ! سعد کو شفا دے اور اس کی ہجرت مکمل کر دے۔“ (حضرت سعد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5659]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی اس وقت ایک ہی بیٹی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو زندہ رکھے اور آپ کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچے اور بہت سے لوگ آپ کی وجہ سے نقصان میں رہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں عرصۂ دراز تک زندہ رکھا۔
ان کی اولاد میں برکت فرمائی اور وہ فاتح قادسیہ قرار پائے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مریض کو مانوس کرنے اور اس کی بیماری کو جاننے کے لیے اس کی پیشانی اور پیٹ پر ہاتھ رکھا جا سکتا ہے۔
بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کو دم کرتے اور جہاں تکلیف ہوتی وہاں ہاتھ رکھتے۔
اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے مریض شفایاب ہو جاتا۔
اگر کوئی نیک آدمی کسی کی عیادت کے لیے جائے تو آج بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5659
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6373
6373. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ حجتہ الوادع کے موقع پر میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میری اس بیماری نے مجھے موت کے قریب کر دیا تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ خود مشاہدہ فرما رہے ہیں کہ بیماری نے مجھے کہاں تک پہنچا دیا ہے۔ میں صاحب ثروت ہوں اور میری ایک ہی بیٹی میری وارث ہے۔ کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے عرض کی: اپنا نصف مال دے دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے عرض کی: ایک تہائی دے سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ایک تہائی بہت ہے۔ اگر تم ورثاء کو مال دار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج چھوڑو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یقیناً تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اگر اس سے مقصود اللہ کی رضا ہوئی تو تمہیں اس پر ثواب ملے گا یہاں تک کہ اگر تم اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ رکھو گے تو اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6373]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی لمبی عمر کی طرف اشارہ ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور وہ اس کے بعد چالیس برس تک زندہ رہے۔
ان کے ہاتھوں بے شمار فتوحات ہوئیں۔
بہت سے لوگ ان کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوئے جبکہ بے شمار لوگ ان کے ہاتھ سے قتل ہو کر جہنم واصل ہوئے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے عنوان کا دوسرا حصہ ثابت کیا ہے کیونکہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس وقت بیمار تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی:
”اے اللہ! تو سعد کو شفا دے اور اس کی ہجرت کو پورا کر دے۔
“ (صحیح البخاري، المرض، حدیث: 5659)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6373
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6733
6733. حضرت سعد ابن وقاص ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں ایسا بیمار ہوا کہ مجھے موت نظر آنے لگی نبی ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سا مال ہے جبکہ میری وارث صرف بیٹی ہے تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہ“ میں نے پوچھا: پھر ںصف مال صدقہ کر دوں؟فرمایا: ”نہ“ میں نے عرض کی: کیا ایک تہائی کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“ گو تہائی بہت زیادہ ہے۔ اگر تم اپنے بچوں کو مال دار چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں۔ اور تم جو بھی خرچ کرو گے اس پر تمہیں ثواب ملے گا یہاں تک کہ اگر تو اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالے تو یہ بھی موجب اجرو ثواب ہوگا۔ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی ہجرت میں پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: ”اگر تو میرے بعد پیچھے رہ بھی گیا تب بھی جو عمل کرے گا اور اس سے اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6733]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری وارث صرف میری ایک بیٹی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ میت کے ترکے سے بیٹی وارث ہوتی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہی ہے کہ بیٹیوں کی وراثت کو ثابت کیا جائے۔
(2)
واضح رہے کہ بیٹیوں کی تین حالتیں ہیں:
٭ جب میت کی اولاد سے صرف ایک بیٹی ہو تو اسے جائیداد سے نصف ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اگر بیٹی اکیلی ہو تو اسے ساری جائیداد کا آدھا ملے گا۔
“ (النساء 4: 11)
٭ جب میت کی ایک سے زیادہ بیٹیاں ہوں تو ساری جائیداد کا دوتہائی لیں گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اگر بیٹیاں (دویا)
دوسے زیادہ ہوں تو ان کے لیے ترکے میں سے دوتہائی حصہ ہوگا۔
“ (النساء 4: 11)
٭جب میت کی اولاد لڑکے اور لڑکیوں پر مشتمل ہوتو بیٹے کو دو حصے اور بیٹی کو ایک حصہ بطور عصبہ ملے گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اللہ تعالیٰ تمھیں، تمھاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ مذکر کو دو مؤنث کےبرابر حصہ دیا جائے جائے۔
“ (النساء 4: 11) (3)
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے عصبات تو موجود تھے، البتہ اس وقت اولاد میں صرف ایک لڑکی تھی، ان کی نفی کو اولاد پر محمول کیا جائے گا۔
(فتح الباري: 20/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6733