مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
2. مُسْنَدُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 15
(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ الطَّالَقَانِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ الْمَازِنِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو نَعَامَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُنَيْدَةَ الْبَرَاءُ بْنُ نَوْفَلٍ ، عَنْ وَالَانَ الْعَدَوِيِّ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، قَالَ: أَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَصَلَّى الْغَدَاةَ، ثُمَّ جَلَسَ، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الضُّحَى، ضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَلَسَ مَكَانَهُ حَتَّى صَلَّى الْأُولَى، وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ، كُلُّ ذَلِكَ لَا يَتَكَلَّمُ، حَتَّى صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى أَهْلِهِ، فَقَالَ النَّاسُ لِأَبِي بَكْرٍ: أَلَا تَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَأْنُهُ؟ صَنَعَ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ يَصْنَعْهُ قَطُّ، قَالَ: فَسَأَلَهُ، فَقَالَ:" نَعَمْ، عُرِضَ عَلَيَّ مَا هُوَ كَائِنٌ مِنْ أَمْرِ الدُّنْيَا، وَأَمْرِ الْآخِرَةِ، فَجُمِعَ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ بِصَعِيدٍ وَاحِدٍ، فَفَظِعَ النَّاسُ بِذَلِكَ، حَتَّى انْطَلَقُوا إِلَى آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام، وَالْعَرَقُ يَكَادُ يُلْجِمُهُمْ، فَقَالُوا: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، وَأَنْتَ اصْطَفَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، قَالَ: لَقَدْ لَقِيتُ مِثْلَ الَّذِي لَقِيتُمْ، انْطَلِقُوا إِلَى أَبِيكُمْ بَعْدَ أَبِيكُمْ، إِلَى نُوحٍ: إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ سورة آل عمران آية 33، قَالَ: فَيَنْطَلِقُونَ إِلَى نُوحٍ عَلَيْهِ السَّلَام، فَيَقُولُونَ: اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَأَنْتَ اصْطَفَاكَ اللَّهُ، وَاسْتَجَابَ لَكَ فِي دُعَائِكَ، وَلَمْ يَدَعْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا، فَيَقُولُ: لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي، انْطَلِقُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ اتَّخَذَهُ خَلِيلًا، فَيَنْطَلِقُونَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُ: لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي، وَلَكِنْ انْطَلِقُوا إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا، فَيَقُولُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام: لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي، وَلَكِنْ انْطَلِقُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ، فَإِنَّهُ يُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَيُحْيِي الْمَوْتَى، فَيَقُولُ عِيسَى عليه السلام: لَيْسَ ذَاكُمْ عِنْدِي، وَلَكِنْ انْطَلِقُوا إِلَى سَيِّدِ وَلَدِ آدَمَ، فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، انْطَلِقُوا إِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَشْفَعَ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: فَيَنْطَلِقُ، فَيَأْتِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام رَبَّهُ، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ائْذَنْ لَهُ، وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: فَيَنْطَلِقُ بِهِ جِبْرِيلُ، فَيَخِرُّ سَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَةٍ، وَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، قَالَ: فَيَرْفَعُ رَأْسَهُ، فَإِذَا نَظَرَ إِلَى رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، خَرَّ سَاجِدًا قَدْرَ جُمُعَةٍ أُخْرَى، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، قَالَ: فَيَذْهَبُ لِيَقَعَ سَاجِدًا، فَيَأْخُذُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بِضَبْعَيْهِ، فَيَفْتَحُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ مِنَ الدُّعَاءِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى بَشَرٍ قَطُّ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ خَلَقْتَنِي، سَيِّدَ وَلَدِ آدَمَ، وَلَا فَخْرَ، وَأَوَّلَ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا فَخْرَ، حَتَّى إِنَّهُ لَيَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ أَكْثَرُ مِمَّا بَيْنَ صَنْعَاءَ، وَأَيْلَةَ، ثُمَّ يُقَالُ: ادْعُوا الصِّدِّيقِينَ فَيَشْفَعُونَ، ثُمَّ يُقَالُ: ادْعُوا الْأَنْبِيَاءَ، قَالَ: فَيَجِيءُ النَّبِيُّ وَمَعَهُ الْعِصَابَةُ، وَالنَّبِيُّ وَمَعَهُ الْخَمْسَةُ وَالسِّتَّةُ، وَالنَّبِيُّ وَلَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، ثُمَّ يُقَالُ: ادْعُوا الشُّهَدَاءَ فَيَشْفَعُونَ لِمَنْ أَرَادُوا، وَقَالَ: فَإِذَا فَعَلَتْ الشُّهَدَاءُ ذَلِكَ، قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ، أَدْخِلُوا جَنَّتِي، مَنْ كَانَ لَا يُشْرِكُ بِي شَيْئًا، قَالَ: فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ، قَالَ: ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: انْظُرُوا فِي النَّارِ، هَلْ تَلْقَوْنَ مِنْ أَحَدٍ عَمِلَ خَيْرًا قَطُّ؟ قَالَ: فَيَجِدُونَ فِي النَّارِ رَجُلًا، فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ فَيَقُولُ: لَا، غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ أُسَامِحُ النَّاسَ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ، فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَسْمِحُوا لِعَبْدِي كَإِسْمَاحِهِ إِلَى عَبِيدِي، ثُمَّ يُخْرِجُونَ مِنَ النَّارِ رَجُلًا، فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ فَيَقُولُ: لَا، غَيْرَ أَنِّي قَدْ أَمَرْتُ وَلَدِي إِذَا مِتُّ فَأَحْرِقُونِي بِالنَّارِ، ثُمَّ اطْحَنُونِي، حَتَّى إِذَا كُنْتُ مِثْلَ الْكُحْلِ، فَاذْهَبُوا بِي إِلَى الْبَحْرِ، فَاذْرُونِي فِي الرِّيحِ، فَوَاللَّهِ لَا يَقْدِرُ عَلَيَّ رَبُّ الْعَالَمِينَ أَبَدًا، فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ؟ قَالَ: مِنْ مَخَافَتِكَ، قَالَ: فَيَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ انْظُرْ إِلَى مُلْكِ أَعْظَمِ مَلِكٍ، فَإِنَّ لَكَ مِثْلَهُ وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهِ، قَالَ: فَيَقُولُ: لِمَ تَسْخَرُ بِي وَأَنْتَ الْمَلِكُ؟ قَالَ: وَذَاكَ الَّذِي ضَحِكْتُ مِنْهُ مِنَ الضُّحَى".
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح فجر کی نماز پڑھائی اور نماز پڑھا کر چاشت کے وقت تک اپنے مصلی پر ہی بیٹھے رہے، چاشت کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ضحک کے آثار نمودار ہوئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ ہی تشریف فرما رہے، تآنکہ ظہر، عصر اور مغرب بھی پڑھ لی، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی بات نہیں کی، حتیٰ کہ عشاء کی نماز بھی پڑھ لی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے۔ لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آج کے احوال سے متعلق کیوں نہیں دریافت کرتے؟ آج تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کام کیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں کیا؟ چناچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے متعلق دریافت کیا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں! میں بتاتا ہوں، دراصل آج میرے سامنے دنیا و آخرت کے وہ تمام امور پیش کئے گئے جو آئندہ رونما ہونے والے ہیں، چنانچہ مجھے دکھایا گیا کہ تمام اولین و آخرین ایک ٹیلے پر جمع ہیں، لوگ پسینے سے تنگ آ کر بہت گھبرائے ہوئے ہیں، اسی حال میں وہ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں اور پسینہ گویا ان کے منہ میں لگام کی طرح ہے، وہ لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے کہتے ہیں کہ اے آدم! آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا برگزیدہ بنایا ہے اپنے رب سے ہماری سفارش کر دیجئے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میرا بھی وہی حال ہے جو تمہارا ہے اپنے باپ آدم کے بعد دوسرے باپ ابوالبشر ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے انہیں بھی اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ہے، چنانچہ وہ سب لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ آپ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کر دیجئے، اللہ نے آپ کو بھی اپنا برگزیدہ بندہ قرار دیا ہے، آپ کی دعاؤں کو قبول کیا ہے اور زمین پر کسی کافر کا گھر باقی نہیں چھوڑا، وہ جواب دیتے ہیں کہ تمہارا گوہر مقصود میرے پاس نہیں ہے، تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے انہیں اپنا خلیل قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ سب لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاتے ہیں، لیکن وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ تمہارا گوہر مقصود میرے پاس نہیں ہے، البتہ تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ کیونکہ اللہ نے ان سے براہ راست کلام فرمایا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی معزرت کر رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ وہ پیدائشی اندھے اور برص کے مریض کو ٹھیک کر دیتے تھے اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کر دیتے تھے، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی معذرت کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ تم اس ہستی کے پاس جاؤ جو تمام اولاد آدم کی سردار ہے وہی وہ پہلے شخص ہیں جن کی قبر قیامت کے دن سب سے پہلے کھولی گئی، تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ وہ تمہاری سفارش کریں گے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارگاہ الٰہی میں جاتے ہیں، ادھر سے حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوتے ہیں، اللہ کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ میرے پیغمبر کو آنے کی اجازت دو اور انہیں جنت کی خوشخبری بھی دو، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام یہ پیغام نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچاتے ہیں جسے سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور متواتر ایک ہفتہ تک سر بسجود رہتے ہیں، ایک ہفتہ گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! اپنا سر تو اٹھائیے، آپ جو کہیں گے ہم اسے سننے کے لئے تیار ہیں، آپ جس کی سفارش کریں گے، اس کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔ یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر اٹھاتے ہیں اور جوں ہی اپنے رب کے رخ تاباں پر نظر پڑتی ہے، اسی وقت دوبارہ سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور مزید ایک ہفتہ تک سر بسجود رہتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اپنا سر تو اٹھائیے، آپ جو کہیں گے اس کی شنوائی ہو گی اور جس کی سفارش کریں گے قبول ہو گی، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ ریز ہی رہنا چاہیں گے لیکن حضرت جبرائیل علیہ السلام آ کر بازو سے پکڑ کر اٹھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب منور ایسی دعاؤں کا دروازہ کھولتا ہے جو اب سے پہلے کسی بشر پر کبھی نہیں کھولا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: پروردگار! تو نے مجھے اولاد آدم کا سردار بنا کر پیدا کیا اور میں اس پر کوئی فخر نہیں کرتا، قیامت کے دن سب سے پہلے زمین میرے لئے کھولی گئی، میں اس پر بھی فخر نہیں کرتا، یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس آنے والے اتنے زیادہ ہیں جو صنعاء اور ایلہ کے درمیانی فاصلے سے بھی ز یادہ جگہ کو پُر کیے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد کہا جائے گا کہ صدیقین کو بلاؤ، وہ آکر سفارش کریں گے، پھر کہا جائے گا کہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو بلاؤ، چنانچہ بعض انبیاء علیہم السلام تو ایسے آئیں گے جن کے ساتھ اہل ایمان کی ایک بڑی جماعت ہو گی، بعض کے ساتھ پانچ، چھ آدمی ہوں گے، بعض کے ساتھ کوئی بھی نہ ہو گا، پھر شہداء کو بلانے کا حکم ہو گا چنانچہ وہ اپنی مرضی سے جس کی چاہیں گے سفارش کریں گے۔ جب شہدا بھی سفارش کر چکیں گے، تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ میں ارحم الراحمین ہوں، جنت میں وہ تمام لوگ داخل ہو جائیں جو میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے، چنانچہ ایسے تمام لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ دیکھو جہنم میں کوئی ایسا آدمی تو نہیں ہے جس نے کبھی کوئی نیکی کا کام کیا ہو؟ تلاش کرنے پر نہیں ایک آدمی ملے گا، اسی کو بارہ گاہ الہٰی میں پیش کر دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھیں گے کیا کبھی تو نے کوئی نیکی کا کام بھی کیا ہے؟ وہ جواب میں کہے گا نہیں! البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں بیع و شراء اور تجارت کے درمیان غریبوں سے نرمی کر لیا کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ جس طرح یہ میرے بندوں سے نرمی کرتا تھا، تم بھی اس سے نرمی کرو، چنانچہ اسے بخش دیا جائے گا۔ اس کے بعد فرشتے جہنم سے ایک اور آدمی کو نکال کر لائیں گے، اللہ تعالیٰ اس سے بھی یہی پوچھیں گے کہ تم نے کبھی کوئی نیکی کا کام بھی کیا ہے؟ وہ کہے گا ک نہیں! البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ میں نے اپنی اولاد کو یہ وصیت کی تھی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے آگ میں جلا کر میری راکھ کا سرمہ بنانا اور سمندر کے پاس جا کر اس راکھ کو ہوا میں بکھیر دینا، اس طرح رب العالمین بھی مجھ پر قادر نہ ہو سکے گا، اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تو نے یہ کام کیوں کیا؟ وہ جواب دے گا، تیرے خوف کی وجہ سے، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ سب سے بڑے بادشاہ کا ملک دیکھو، تمہیں وہ اور اس جیسے دس ملکوں کی حکومت ہم نے عطا کر دی، وہ کہے گا کہ پروردگار! تو بادشاہوں کا بادشاہ ہو کر مجھ سے کیوں مذاق کرتا ہے؟ اس بات پر مجھے چاشت کے وقت ہنسی آئی تھی اور میں ہنس پڑا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن