مسند احمد
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
0
2. مُسْنَدُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
0
حدیث نمبر: 3
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ أَبُو سَعِيدٍ يَعْنِي الْعَنْقَزِيَّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ: اشْتَرَى أَبُو بَكْرٍ مِنْ عَازِبٍ سَرْجًا بِثَلَاثَةَ عَشَرَ دِرْهَمًا، قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعَازِبٍ: مُرْ الْبَرَاءَ فَلْيَحْمِلْهُ إِلَى مَنْزِلِي، فَقَالَ: لَا، حَتَّى تُحَدِّثَنَا كَيْفَ صَنَعْتَ حِينَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْتَ مَعَهُ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : خَرَجْنَا فَأَدْلَجْنَا، فَأَحْثَثْنَا يَوْمَنَا وَلَيْلَتَنَا، حَتَّى أَظْهَرْنَا، وَقَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ، فَضَرَبْتُ بِبَصَرِي هَلْ أَرَى ظِلًّا نَأْوِي إِلَيْهِ؟ فَإِذَا أَنَا بِصَخْرَةٍ، فَأَهْوَيْتُ إِلَيْهَا، فَإِذَا بَقِيَّةُ ظِلِّهَا، فَسَوَّيْتُهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفَرَشْتُ لَهُ فَرْوَةً، وَقُلْتُ: اضْطَجِعْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَاضْطَجَعَ، ثُمَّ خَرَجْتُ أَنْظُرُ هَلْ أَرَى أَحَدًا مِنَ الطَّلَبِ؟ فَإِذَا أَنَا بِرَاعِي غَنَمٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلَامُ؟ فَقَالَ لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَسَمَّاهُ فَعَرَفْتُهُ، فَقُلْتُ: هَلْ فِي غَنَمِكَ مِنْ لَبَنٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: هَلْ أَنْتَ حَالِبٌ لِي؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَمَرْتُهُ، فَاعْتَقَلَ شَاةً مِنْهَا، ثُمَّ أَمَرْتُهُ فَنَفَضَ ضَرْعَهَا مِنَ الْغُبَارِ، ثُمَّ أَمَرْتُهُ فَنَفَضَ كَفَّيْهِ مِنَ الْغُبَارِ، وَمَعِي إِدَاوَةٌ عَلَى فَمِهَا خِرْقَةٌ، فَحَلَبَ لِي كُثْبَةً مِنَ اللَّبَنِ، فَصَبَبْتُ يَعْنِي الْمَاءَ عَلَى الْقَدَحِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَافَيْتُهُ وَقَدْ اسْتَيْقَظَ، فَقُلْتُ: اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ، ثُمَّ قُلْتُ: هَلْ أَنَى الرَّحِيلُ، قَالَ: فَارْتَحَلْنَا، وَالْقَوْمُ يَطْلُبُونَا، فَلَمْ يُدْرِكْنَا أَحَدٌ مِنْهُمْ إِلَّا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ عَلَى فَرَسٍ لَهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا، فَقَالَ:" لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا"، حَتَّى إِذَا دَنَا مِنَّا، فَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ قَدْرُ رُمْحٍ أَوْ رُمْحَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الطَّلَبُ قَدْ لَحِقَنَا، وَبَكَيْتُ، قَالَ:" لِمَ تَبْكِي؟" قَالَ: قُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ مَا عَلَى نَفْسِي أَبْكِي، وَلَكِنْ أَبْكِي عَلَيْكَ، قَالَ: فَدَعَا عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اكْفِنَاهُ بِمَا شِئْتَ"، فَسَاخَتْ قَوَائِمُ فَرَسِهِ إِلَى بَطْنِهَا فِي أَرْضٍ صَلْدٍ، وَوَثَبَ عَنْهَا، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ هَذَا عَمَلُكَ، فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يُنْجِيَنِي مِمَّا أَنَا فِيهِ، فَوَاللَّهِ لَأُعَمِّيَنَّ عَلَى مَنْ وَرَائِي مِنَ الطَّلَبِ، وَهَذِهِ كِنَانَتِي، فَخُذْ مِنْهَا سَهْمًا، فَإِنَّكَ سَتَمُرُّ بِإِبِلِي وَغَنَمِي فِي مَوْضِعِ كَذَا وَكَذَا، فَخُذْ مِنْهَا حَاجَتَكَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَاجَةَ لِي فِيهَا"، قَالَ: وَدَعَا لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُطْلِقَ، فَرَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ، وَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَتَلَقَّاهُ النَّاسُ، فَخَرَجُوا فِي الطَّرِيقِ، وَعَلَى الْأَجَاجِيرِ، فَاشْتَدَّ الْخَدَمُ وَالصِّبْيَانُ فِي الطَّرِيقِ، يَقُولُونَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَ مُحَمَّدٌ، قَالَ: وَتَنَازَعَ الْقَوْمُ أَيُّهُمْ يَنْزِلُ عَلَيْهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْزِلُ اللَّيْلَةَ عَلَى بَنِي النَّجَّارِ، أَخْوَالِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لِأُكْرِمَهُمْ بِذَلِكَ"، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا حَيْثُ أُمِرَ. قَالَ الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ: أَوَّلُ مَنْ كَانَ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنَ الْمُهَاجِرِينَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ أَخُو بَنِي عَبْدِ الدَّارِ، ثُمَّ قَدِمَ عَلَيْنَا ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى أَخُو بَنِي فِهْرٍ، ثُمَّ قَدِمَ عَلَيْنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي عِشْرِينَ رَاكِبًا، فَقُلْنَا: مَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: هُوَ عَلَى أَثَرِي، ثُمَّ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ مَعَهُ، قَالَ الْبَرَاءُ: وَلَمْ يَقْدَمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قرأت سُوَرًا مِنَ الْمُفَصَّلِ، قَالَ إِسْرَائِيلُ: وَكَانَ الْبَرَاءُ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْ بَنِي حَارِثَةَ.
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے میرے والد حضرت عازب رضی اللہ عنہ سے تیرہ درہم کے عوض ایک زین خریدی اور میرے والد سے فرمایا کہ اپنے بیٹے براء سے کہہ دیجیے کہ وہ اسے اٹھا کر میرے گھر تک پہنچا دے، انہوں نے کہا کہ پہلے آپ وہ واقعہ سنائیے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی اور آپ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ شب ہجرت ہم لوگ رات کی تاریکی میں نکلے اور سارا دن اور ساری رات تیزی سے سفر کرتے رہے، یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہو گیا، میں نے نظر دوڑا کر دیکھا کہ کہیں کوئی سایہ نظر آتا ہے یا نہیں؟ مجھے اچانک ایک چٹان نظر آئی، میں اسی کی طرف لپکا تو وہاں کچھ سایہ موجود تھا، میں نے وہ جگہ برابر کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹھنے کے لئے اپنی پوستین بچھا دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ! کچھ دیر آرام فرما لیجیے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے۔ ادھر میں یہ جائزہ لینے کے لئے نکلا کہ کہیں کوئی جاسوس تو نہیں دکھائی دے رہا؟ اچانک مجھے بکریوں کا ایک چرواہا مل گیا، میں نے اس سے پوچھا: بیٹا! تم کس کے ہو؟ اس نے قریش کے ایک آدمی کا نام لیا جسے میں جانتا تھا، میں نے اس سے فرمائش کی کہ کیا تمہاری بکریوں میں دودھ ہے؟ اس نے اثبات میں جواب دیا، میں نے اس سے دودھ دوہ کر دینے کی فرمائش کی تو اس نے اس کا بھی مثبت جواب دیا اور میرے کہنے پر اس نے ایک بکری کو قابو میں کر لیا۔ پھر میں نے اس سے بکری کے تھن پر سے غبار صاف کرنے کو کہا جو اس نے کر دیا، پھر میں نے اس سے اپنے ہاتھ جھاڑنے کو کہا تاکہ وہ گرد و غبار دور ہو جائے چنانچہ اس نے اپنے ہاتھ بھی جھاڑ لیے، اس وقت میرے پاس ایک برتن تھا، جس کے منہ پر چھوٹا سا کپڑا لیپٹا ہوا تھا، اس برتن میں اس نے تھوڑا سا دودھ دوہا اور میں نے اس پر پانی چھڑک دیا تاکہ برتن نیچے سے ٹھنڈا ہو جائے۔ اس کے بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو، جب میں وہاں پہنچا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو چکے تھے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ دودھ نوش فرمانے کی درخواست کی، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کر لیا اور اتنا دودھ پیا کہ میں مطمئن اور خوش ہو گیا، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا اب روانگی کا وقت آ گیا ہے اور اب ہمیں چلنا چاہئے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر ہم وہاں سے روانہ ہو گئے، پوری قوم ہماری تلاش میں تھی، لیکن سراقہ بن مالک بن جعشم کے علاوہ جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا ہمیں کوئی نہ پا سکا، سراقہ کو دیکھ کر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ جاسوس ہم تک پہنچ گیا ہے، اب کیا ہو گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپ غمگین اور دل برداشتہ نہ ہوں، اللہ ہمارے ساتھ ہے“، ادھر وہ ہمارے اور قریب ہو گیا اور ہمارے اور اس کے درمیان ایک یا دو تین نیزوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا، میں نے پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ تو ہمارے قریب پہنچ گیا ہے اور یہ کہہ کر میں رو پڑا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے رونے کی وجہ پوچھی تو میں نے عرض کیا: بخدا! میں اپنے لئے نہیں رو رہا، میں تو آپ کے لئے رو رہا ہوں کہ اگر آپ کو پکڑ لیا گیا تو یہ نجانے کیا سلوک کریں گے؟ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ کے لئے بددعا فرمائی کہ اے اللہ! تو جس طرح چاہے، اس سے ہماری کفایت اور حفاظت فرما۔ اس وقت اس کے گھوڑے کے پاؤں پیٹ تک زمین میں دھنس گئے، حالانکہ وہ زمین انتہائی سپات اور سخت تھی اور سراقہ اس سے نیچے گر پڑا اور کہنے لگا کہ اے محمد! میں جانتاہوں کہ یہ آپ کا کوئی عمل ہے، آپ اللہ سے دعا کر دیجیے کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نجات دے دے، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپ کی تلاش میں اپنے پیچھے آنے والے تمام لوگوں پر آپ کو مخفی رکھوں گا اور کسی کو آپ کی خبر نہ ہونے دوں گا، نیز یہ میرا ترکش ہے، اس میں سے ایک تیر بطور نشانی کے آپ لے لیجئیے، فلاں فلاں مقام پر آپ کا گزر میرے اونٹوں اور بکریوں پر ہو گا، آپ کو ان میں سے جس چیز کی جتنی ضرورت ہو، آپ لے لیجیے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اسے رہائی مل گئی، اس کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس لوٹ گیا اور ہم دونوں اپنی راہ پر ہو لئے یہاں تک کہ ہم لوگ مدینہ منورہ پہنچ گئے، لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے اپنے گھروں سے نکل پڑے، کچھ اپنے گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرنے لگے۔ اور راستے ہی میں بچے اور غلام مل کر زور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر لوگوں میں یہ جھگڑا ہونے لگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس قبیلے کے مہمان بنیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جھگڑے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرمایا: ”آج رات تو میں عبد المطلب کے اخوال بنو نجار کا مہمان بنوں گا تاکہ ان کے لئے باعث عزوشرف ہو جائے“، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے جہاں کا آپ کو حکم ملا۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ مہاجرین میں سے ہمارے یہاں سب سے پہلے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جن کا تعلق بنو عبدالدار سے تھا، تشریف لائے تھے، پھر بنوفہر سے تعلق رکھنے والے ایک نابینا صحابی حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیسں سواروں کے ساتھ ہمارے یہاں رونق افروز ہوئے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے، تو ہم نے ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ بھی میرے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں، چنانچہ کچھ ہی عرصے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مدینہ منورہ میں جلوہ افروز ہو گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ساتھ آئے۔ حضرت براء رضی اللہ عنہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل ہی میں مفصلات کی متعدد سورتیں پڑھ اور یاد کر چکا تھا، راوی حدیث اسرائیل کہتے ہیں کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو حارثہ سے تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح. خ: 3615، م: 2009