Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كتاب المرضى
کتاب: امراض اور ان کے علاج کے بیان میں
1. بَابُ مَا جَاءَ فِي كَفَّارَةِ الْمَرَضِ:
باب: بیماری کے کفارہ ہونے کا بیان اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں فرمایا ”جو کوئی برا کرے گا اس کو بدلہ ملے گا“۔
حدیث نمبر: 5644
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَمَثَلِ الْخَامَةِ مِنَ الزَّرْعِ، مِنْ حَيْثُ أَتَتْهَا الرِّيحُ كَفَأَتْهَا، فَإِذَا اعْتَدَلَتْ تَكَفَّأُ بِالْبَلَاءِ، وَالْفَاجِرُ كَالْأَرْزَةِ، صَمَّاءَ مُعْتَدِلَةً حَتَّى يَقْصِمَهَا اللَّهُ إِذَا شَاءَ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے بنی عامر بن لوی کے ایک مرد ہلال بن علی نے، ان سے عطاء بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کی مثال پودے کی پہلی نکلی ہوئی ہری شاخ جیسی ہے کہ جب بھی ہوا چلتی ہے اسے جھکا دیتی ہے پھر وہ سیدھا ہو کر مصیبت برداشت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور بدکار کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے کہ سخت ہوتا ہے اور سیدھا کھڑا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اسے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5644 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5644  
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ مومن تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع اور اس پر راضی رہتا ہے۔
اگر اس پر کبھی تنگی یا سختی آ جائے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرتا اور اللہ تعالیٰ سے خیر کی امید رکھتا ہے، پھر جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ثابت قدمی کا اظہار کرتا ہے۔
اس کے برعکس منافق اور کافر دنیا میں خوشحال رہتا ہے اور کسی آزمائش سے دوچار نہیں ہوتا تاکہ قیامت کے معاملات اس کے لیے سنگین ہوں۔
آخر کار جب اللہ تعالیٰ اس کی ہلاکت کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے یک لخت صنوبر کے درخت کی طرح اکھاڑ پھینکتا ہے تاکہ اس کی موت اس کے لیے سخت عذاب اور سنگین سزا ثابت ہو۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5644   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7094  
حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مومن کی تمثیل ترو تازہ اور کچی کھیتی کی سی ہے، جسے ہوا جھکاتی ہے، کبھی گراتی ہے اور کبھی سیدھا کرتی ہے حتی کہ وہ پختہ ہو کر پک جاتی ہے اور کافر کی مثال زمین میں پیوست صنوبر کی ہے جو اپنی جڑ پر کھڑا رہتا ہے۔ اسے کوئی چیز ہلا نہیں سکتی حتی کہ درخت ایک ہی دفعہ اکھڑ جاتا ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:7094]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الخامة:
انکھواں،
زمین سے نکلنے والی سوئی،
ابتدائی انگوری۔
(2)
المجذية:
گڑی ہوئی،
زمین میں پیوست،
(3)
انجعاف:
اکھڑنا۔
فوائد ومسائل:
ایک مومن مصائب اور تکالیف سے متاثر ہوتا ہے،
اپنے حالات کو درست کرنے کی کوشش کرتا ہے،
لیکن کافر مصائب وتکالیف سے متاثر ہوکر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرف رخ نہیں کرتا،
حتی کہ موت کے سخت تھپڑوں سے دوچار ہوجاتاہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7094   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7466  
7466. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کی مثال کھیت کے نرم پودے کی سی ہے جدھر کی ہوا چلتی ہے اس کے پتے ادھر ہی جھک جاتے ہیں۔ جب ہوا رک جاتی ہے تو وہ سیدھا ہوجاتا ہے، یعنی ہوائیں اسے ادھر ادھر جھکاتی رہتی ہیں۔ اسی طرح مومن بلاؤں اور مصیبتوں کی وجہ سے ادھر اُدھر جھکتا رہتا ہے۔ اور کافر کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے جو ایک حالت پر کھڑا رہتا ہے حتیٰ کہ جب اللہ چاہتا ہے اسےایکبار ہی اکھاڑ پھینکتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7466]
حدیث حاشیہ:
مومن کی مثال کچھ نرم کھیتی سے ہے جس کے پتے ہوا کے رخ پر مڑ جاتے ہیں اسی طرح مومن ہر حکم الہی کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہے اور کافر کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے جو احکام الہی کے سامنے مڑناجھکنا جانتا ہی نہیں۔
یہاں تک کہ عذاب خداوندی موت وغیرہ کی شکل میں آ کر اسے ایک دم موڑ دیتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7466   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7466  
7466. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کی مثال کھیت کے نرم پودے کی سی ہے جدھر کی ہوا چلتی ہے اس کے پتے ادھر ہی جھک جاتے ہیں۔ جب ہوا رک جاتی ہے تو وہ سیدھا ہوجاتا ہے، یعنی ہوائیں اسے ادھر ادھر جھکاتی رہتی ہیں۔ اسی طرح مومن بلاؤں اور مصیبتوں کی وجہ سے ادھر اُدھر جھکتا رہتا ہے۔ اور کافر کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے جو ایک حالت پر کھڑا رہتا ہے حتیٰ کہ جب اللہ چاہتا ہے اسےایکبار ہی اکھاڑ پھینکتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7466]
حدیث حاشیہ:

مومن کبھی مصائب میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔
اس کے درجات کی بلندی کا باعث ہے جب آرام پاتا ہے تو خود کو اللہ تعالیٰ کے ذکر و فکر میں مصروف کر لیتا ہے جیسے نرم کھیتی کی شاخ ہو جب ہوا چلتی ہے تو وہ کبھی ادھر گرتی ہے کبھی اُدھرگرتی ہے جب ہوا ٹھہرجاتی ہے تو وہ سیدھی رہتی ہے۔
اس کے برعکس کافر کی مثال صنوبر کے درخت جیسی ہے وہ ہواؤں کی وجہ سے جھکتا نہیں ہے۔
اسی طرح کافر بھی احکام الٰہی کے سامنے جھکنا نہیں چاہتا یہاں کہ تک اللہ تعالیٰ کا عذاب یا موت اسے یکدم ختم ہر دیتی ہے پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور زندگی کے پورے گناہ لے کر پیش ہوتا ہے کیونکہ اس کی دنیوی زندگی نہایت آرام اور سکون سے گزری ہوتی ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو ثابت کیا ہے یعنی جب اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے تو ایک ہی بار اس کی ہلاکت ہو جاتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں تمام کام اللہ تعالیٰ کی مشیت سے سر انجام پاتے ہیں۔
اس عالم رنگ و بو میں چھوٹا بڑا کوئی کام بھی اللہ تعالیٰ کے ارادے اور اس کی مشیت کے بغیر پروان نہیں چڑھتا اور اس کی مشیت ہر چیز میں کار فرما ہے اور وہ ہر چیز پر مکمل طور پر قادر ہے واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7466