Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
16. بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الْعَصْرِ:
باب: نماز عصر کی فضیلت کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 555
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ، كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابوالزناد عبداللہ بن ذکوان سے، انہوں نے عبدالرحمٰن بن ہرمز اعرج سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 555 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 555  
تشریح:
فرشتوں کا یہ جواب ان ہی نیک بندوں کے لیے ہو گا جو نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتے تھے اور جن لوگوں نے نماز کو پابندی کے ساتھ ادا ہی نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے دربار میں فرشتے ان کے بارے میں کیا کہہ سکیں گے۔ کہتے ہیں کہ ان فرشتوں سے مراد کراماً کاتبین ہی ہیں۔ جو آدمی کی محافظت کرتے ہیں، صبح و شام ان کی بدلی ہوتی رہتی ہے۔ قرطبی نے کہا یہ دو فرشتے ہیں اور پروردگار جو سب کچھ جاننے والا ہے۔ اس کا ان سے پوچھنا ان کے قائل کرنے کے لیے ہے جو انھوں نے آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کہا تھا کہ آدم زاد زمین میں خون اور فساد کریں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 555   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:555  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں نماز عصر کی خصوصی فضیلت کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کا اجتماع فجر اور عصر کی نماز میں ہوتا ہے۔
مگر فرق یہ ہے کہ فجر کی نماز میں جو فرشتے آتے ہیں وہ دن کے فرشتے ہیں اور ان کی آمد اپنے مقررہ اوقات میں ہوتی ہے، کیونکہ دن صبح صادق سے شروع ہو جاتا ہے اور عصر کے وقت جو فرشتے آتے ہیں ان کی ڈیوٹی رات کی ہے انھیں نماز میں مغرب شریک ہونا ہوتا ہے، کیونکہ رات غروب آفتاب کے بعد شروع ہوتی ہے، لیکن یہ فرشتے مقررہ اوقات پر آنے کے بجائے قبل از وقت حاضر ہوجاتے ہیں، معلوم ہوا کہ وقت سے پہلے آنے میں نماز عصر کی فضیلت کا دخل ہے۔
وهوالمقصود. پھر اللہ تعالیٰ کا اپنے مومن بندوں پر کرم و احسان ہے کہ فرشتوں کے اجتماع اور تبدیلی کے لیے جو وقت رکھا ہے اس وقت اہل ایمان نمازوں میں مصروف ہوتے ہیں تاکہ ان کے متعلق خیر و برکت اور بھلائی کی گواہی دیں۔
(شرح الکرماني: 200/2) (2)
اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کا علم رکھتا ہے، اس کے باوجود فرشتوں سے سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں پایا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتوں سے اعتراف کروانا مقصود ہے کہ تخلیق آدم کے وقت ان کا اعتراض درست نہ تھا کہ تو زمین میں ایسی مخلوق پیدا کرنا چاہتا ہے جو وہاں پر فساد اور خون خرابہ کرے گی۔
اللہ تعالیٰ فرشتوں کو بتانا چاہتا ہے کہ ان کا موقف درست نہیں تھا، نیز جن بندوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرشتوں سے سوال کرتا ہے، وہ وہی ہیں جن کے متعلق ارشاد ہے:
﴿ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ﴾ اے شیطان! میرے بندوں پر تو غلبہ حاصل نہیں کر سکے گا۔
(الحجر15: 42)
اس کے علاوہ فرشتے بھی اہل ایمان کی بابت بہت خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں، کیونکہ جب ان سے سوال ہوا کہ جب تم ان سے جدا ہوئے تو وہ کس حالت میں تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ جب ہم ان کے پاس پہنچے تو نماز پڑھ رہے تھے اور جب وہاں سے واپس آئے تو بھی نماز ہی میں مشغول تھے، یعنی وہ ہر آن اہل ایمان کی عظمت و فضیلت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اور وہ ایسی چیزیں بیان کرتے ہیں جن سے ان کی مغفرت ہو۔
واضح رہے کہ یہ وہی فرشتے ہیں جن کی ڈیوٹی ہی مومنین کے لیے استغفار کرنا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ يَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا﴾ وہ فرشتے اہل ایمان کےلیے استغفارکرتے رہتے ہیں۔
(المومن 40: 7)
بہرحال اللہ تعالیٰ کے معزز فرشتے اہل ایمان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی بابت خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں۔
(شرح الکرماني: 200/2) (3)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ان فرشتوں سے سوال کرتا ہے جن کی ڈیوٹی صرف رات کی تھی۔
ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ دن کے وقت ڈیوٹی دینے والوں سے بھی سوال کیا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے:
فجر اور عصر کی نماز میں دن اور رات کے فرشتے اکٹھے ہوجاتے ہیں، چنانچہ جب نماز فجر میں اکٹھے ہوتے ہیں تو رات کے فرشتے چلے جاتے ہیں اور دن کے فرشتے ڈیوٹی دیتے ہیں اور جب نماز عصر میں اکٹھے ہوتے ہیں تو دن کے فرشتے اوپر چلے جاتے ہیں اور رات کو ڈیوٹی دینے والے موجود رہتے ہیں۔
ان سب سے اللہ تعالیٰ سوال کرتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھوڑا؟ (صحیح ابن خزیمة: 165/1، حدیث: 322)
اس تفصیلی روایت سے معلوم ہوا کہ دن اور رات دونوں قسم کے فرشتوں سے سوال کیا ہوتا ہے اور وہ اہل ایمان کےلیے نماز میں مصروف رہنے کی گواہی دیتے ہیں۔
(فتح الباري: 49/2)
علامہ کرمانی فرماتے ہیں کہ رات کا وقت نیند اور آرام کا ہوتا ہے اور زیادہ تر گناہ بھی اسی وقت ہوتے ہیں، تو جو لوگ رات کے وقت نہ صرف گناہ سے کنارہ کش رہتے ہیں بلکہ عبادت میں اپنے آپ کو مشغول رکھتے ہیں، وہ دن کے اوقات میں بالاولیٰ گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے عبادت میں مشغول رہیں گے۔
(شرح الکرماني: 200/2)
(4)
اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ نماز ایک اعلیٰ ترین عبادت ہے کیونکہ اس کے متعلق سوال و جواب کا ذکر ہے، خاص طور پر نماز فجر اور نماز عصر تو گرانقدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہیں، کیونکہ ان دونوں کے اوقات میں فرشتوں کے دو گروہ اکٹھے ہوتے ہیں جبکہ دوسری نمازوں میں صرف ایک گروہ ہوتا ہے۔
ان دونوں نمازوں کے اوقات بھی انتہا کی فضیلت رکھتے ہیں، چنانچہ صبح کے وقت رزق تقسیم ہوتا ہے اور شام کے وقت اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور انھیں اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔
جو شخص ان اوقات میں اللہ کی عبادت کرے گا اللہ اس کے رزق اور عمل میں برکت فرمائے گا۔
(فتح الباري: 50/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 555   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 98  
´باجماعت نماز کی فضیلت`
«. . . 331- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يتعاقبون فيكم ملائكة بالليل وملائكة بالنهار ويجتمعون فى صلاة الفجر وصلاة العصر ثم يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم وهو أعلم بهم كيف تركتم عبادي فيقولون تركناهم وهم يصلون وآتيناهم وهم يصلون. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے درمیان رات اور دن کو فرشتے آتے جاتے رہتے ہیں اور فجر کی نماز اور عصر کی نماز میں اکٹھے ہوتے ہیں، پھر جنہوں نے تمہارے درمیان رات گزاری (ہوتی ہے صبح کو) اوپر چڑھ جاتے ہیں تو ان سے (اللہ تعالیٰ) پوچھتا ہے اور وہ ان سے زیادہ جانتا ہے! میرے بندوں کو تم کس حال پر چھوڑ کر آئے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں: ہم انہیں اس حالت میں چھوڑ آئے ہیں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/0/0: 98]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 555، ومسلم 632، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اللہ تعالیٰ سات آسمانوں سے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے جیسا کہ قرآن، حدیث اور اجماعِ صحابہ واجماعِ تابعین سے ثابت ہے۔
➋ فرشتوں کا آسمان پر جانا اور آنا روشنی کی رفتار کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ ایسی رفتار سے آتے جاتے ہیں جو روشنی کی رفتار سے بے حد زیادہ ہے۔ ہم اس کی کیفیت سے بے خبر ہیں۔
➌ اہل ایمان کے دل ودماغ میں ہر وقت نماز کا خیال رہتا ہے۔
➍ باجماعت نماز میں فرشتے بھی حاضر ہوتے ہیں۔
➎ غیب پر ایمان لانا ضروری ہے بشرطیکہ قرآن وحدیث سے ثابت ہو۔
➏ فجر اور عصر کی نمازیں بہت زیادہ فضیلت واہمیت کی حامل ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 331   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1432  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس فرشتے رات اور دن کے وقت باری، باری آتے ہیں اور فجر کی نماز اور عصر کی نماز کے وقت وہ اکھٹے ہو جاتے ہیں، پھر جنہوں نے رات گزاری ہوتی ہے وہ اوپر چلے جاتے ہیں تو ان سے ان کا رب پوچھتا ہے، حالانکہ وہ ان سے زیادہ جانتا ہے، تم میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟ تو وہ جواب دیتے ہیں ہم ان کو (صبح) چھوڑ کر آئے ہیں جبکہ وہ نماز پڑھ رہے تھے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1432]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
يَتَعَاقَبُونَ:
یکے بعد دیگرے یا باری باری آتے ہیں،
ایک گروہ کی ڈیوٹی ختم ہوتی ہے اور دوسرے کی ذمہ داری شروع ہوتی ہے،
دوسرے گروہ کی آمد کے بعد پہلا گروہ جاتا ہے،
اس طرح فرشتوں کی ڈیوٹی صبح اور عصر کے وقت تبدیل ہو جاتی ہے تاکہ صبح کے وقت وہ اللہ کے بندوں کو نرم وگرم بستروں اور پیاری اور میٹھی نیند کو اللہ کی رضا کی خاطر چھوڑتا دیکھ لیں اور عصر کے وقت فکر معاش اور کاروبار کو چھوڑتا دیکھ لیں اور صبح وعصر کی نماز کی اس اہمیت کی بنا پر یہ بندے میں دیدار الٰہی کی صلاحیت واستعداد پیدا کرتی ہیں۔
فوائد ومسائل:
جمہور عرب اور اکثر نحوی جن کے سرخیل امام النحو سیبویہ ہیں کا نظریہ ہے کہ اگر فاعل ظاہر ہو تثنیہ ہو یا جمع تو فعل مفرد لائیں گے اس کے ساتھ تثنیہ یا جمع کی ضمیر لانا جائز نہیں ہے لیکن بنو حارث بن کعب کے نزدیک علامت تثنیہ اور جمع لانا جائز ہے۔
(يَتَعَاقَبُونَ فِيكُم مَلَائِكَةُ)
انہیں کے قول کے مطابق ہے اس لیے اخفش اور اس کے ہمنوا قرآن مجید کی آیت:
﴿وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ کو بھی اس پر محمول کرتے ہیں کہ:
﴿الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ فاعل ظاہر اور ﴿وَأَسَرُّوا﴾ فعل کی جمع ہے اس کے ساتھ ضمیر جمع موجود ہے اس طرح ملائکہ فاعل ظاہرہے اور (يتعاقبون)
فعل جمع ہے لیکن سیبویہ اور اس کے ہمنوا ﴿الَّذِينَ ظَلَمُوا﴾ اور ملائکہ کو فعل سے متصل ضمیرجمع سے بدل بناتے ہیں ان کو فاعل تسلیم نہیں کرتے لیکن اگلی روایت میں:
(الملائكة يتعاقبون)
ہے۔
(الملائكة)
مبتدا اور ﴿يتعاقبون﴾ فعل فاعل ہے۔
﴿ملائكة﴾ کی مناسبت سے ضمیر فاعل جمع لائی گئی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1432   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3223  
3223. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فرشتے لگاتار ایک د وسرے کے بعد آتے جاتے ہیں۔ کچھ فرشتے رات کو آتے ہیں اور کچھ دن کے وقت اترتے ہیں۔ یہ سب نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوجاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے تم میں رات بھر رہتے ہیں اور وہ اللہ کے حضور جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حالت پر چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے ان کو (فجر کی) نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز (عصر) پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3223]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث کے لانے سے مجتہد مطلق حضرت امام بخاری ؒ کی غرض فرشتوں کا وجود ثابت کرنا ہے۔
جن پر ایمان لانا ارکان ایمان سے ہے۔
فرشتوں میں حضرت جبرئیل، میکائیل، اسرافیل ؑ زیادہ مشہور ہیں۔
باقی ان کی تعداد اتنی ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہ سب اللہ کے بندے ہیں، اللہ کے فرمانبردار ہیں۔
اس کی اجازت بغیر وہ دم بھی نہیں مارسکتے نہ وہ کسی نفع نقصان کے مالک ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3223   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7486  
7486. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور عصر وفجر کی نمازوں میں وہ اکھٹے ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تم میں رات گزارتے ہیں جب اوپر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ بندوں کے احوال سے خوب واقف ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: ہم نے انہیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تھے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7486]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سےاما م بخاری نے یہ نکالا کہ اللہ تعالی فرشتوں سے کلام کرتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7486   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3223  
3223. حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فرشتے لگاتار ایک د وسرے کے بعد آتے جاتے ہیں۔ کچھ فرشتے رات کو آتے ہیں اور کچھ دن کے وقت اترتے ہیں۔ یہ سب نماز فجر اور نماز عصر میں جمع ہوجاتے ہیں۔ پھر جو فرشتے تم میں رات بھر رہتے ہیں اور وہ اللہ کے حضور جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حالت پر چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے ان کو (فجر کی) نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تب بھی وہ نماز (عصر) پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3223]
حدیث حاشیہ:

فرشتے اپنی ڈیوٹی کے لیے یکے بعد دیگرے آتے جاتے ہیں۔
ایک گروہ آتا ہے تو دوسرا چلا جاتا ہے۔

ان تمام احادیث سے امام بخاری ى کی غرض فرشتوں کا وجود ثابت کرنا ہے جن پر ایمان لانا ارکان ایمان میں سے ہے۔
فرشتوں میں حضرت جبرئیل ؑ، حضرت میکائل ؑاور حضرت اسرافیل ؑ زیادہ مشہور ہیں۔
باقی تعداد میں اتنے ہیں کہ انھیں اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔
وہ سب اللہ کے عاجز بندے اور اس کی اطاعت گزار ہیں۔
وہ اللہ کی اجازت کے بغیر دم بھی نہیں مارسکتے اور نہ وہ کسی کے لیے نفع ونقصان ہی کے مالک ہیں۔
وہ شب و روز اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت میں مصروف ہیں۔
یہی ان کاکام اور اوڑھنا بچھونا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3223   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7429  
7429. سییدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: رات اور دن کے فرشتے تمہارے پاس باری باری آتے ہیں اور عصر وفجر کی نمازوں میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر جن فرشتوں نے تمہارے پاس رات گزاری ہوتی ہے وہ اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے، حالانکہ اسے تمہاری خوب خبر ہوتی ہے، وہ پوچھتا ہے، تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں چھورا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں:جب ہم نے انہیں چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تو بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7429]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو اور جہت فوق کو ثابت کیا ہےکیونکہ اس میں ہے کہ فرشتے اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے سوال کرتا ہے اور ان سے براہ راست خطاب کرتا ہے۔
حدیث کی ظاہری عبارت کا یہی تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے وحی کے واسطے کے بغیر دریافت کرتا ہے۔
فرشتوں کے لیے لفظ عروج استعمال ہوا ہے۔
عربی لغت کے اعتبار سے اس کے معنی ہیں نیچے سے اوپرچڑھنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ)
"اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول بھی دیتے جس میں وہ اوپر چڑھنے لگ جاتے۔
" (الحجر: 15۔
14)


ذات باری تعالیٰ کے علو کی دو قسمیں ہیں۔
علو ذات۔
علو صفات۔
علو ذات کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے اوپر ہے کوئی چیز بھی اس کے اوپر تو کجا اس کے برابر بھی نہیں ہو سکتی علو صفات کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تمام صفات بلند پایہ ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ)
"اللہ تعالیٰ کے لیے سب سے اونچی اور بلند مثال ہے۔
" (النحل: 16۔
60)

اس سلسلے میں اہل سنت کا موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے تمام مخلوقات سے اوپر ہے اور اس کی بلندی ازلی اور ابدی صفات کی وجہ سے ہے دو گروہوں نے اہل سنت کی مخالفت کی ہے۔
ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہر جگہ موجود ہے۔
اس عقیدے سے اللہ تعالیٰ کی توہین لازم آتی ہے کیونکہ کائنات میں بعض مقامات ایسے ہیں جہاں انسان خود ٹھہرنا گوارا نہیں کرتا چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ ان مقامات میں بھی ہے دوسرا گروہ ان کے برعکس کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کے اوپر ہے نہ نیچے نہ جہان کے اندر ہے نہ باہر نہ دائیں ہے نہ بائیں نہ کائنات سے متصل (ملاہو)
ہے اور نہ اس سے متصل (الگ)
واضح رہے کہ ہم عدم کے سواکسی ایسی چیز سے واقف نہیں جو کائنات کے اوپر ہو نہ نیچےنہ دائیں نہ متصل نہ منفصل۔
اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی اور توہین کیا ہو سکتی ہے۔

الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ اور تابعین کے اقوال سے کوئی نص یا واضح بات ایسی نہیں جو ثابت کرے۔
کہ اللہ تعالیٰ عرش پر یا آسمانوں کے اوپر نہیں بلکہ ان کی تمام باتوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کے اوپر ہے۔
بہر حال ذات باری تعالیٰ کے لیے صفت علو کا ثابت ہونا قرآن مجید حدیث، اجماع، عقل اور فطرت سے ثابت ہے۔
اس کے خلاف عقیدہ رکھنا سراسر گمراہی اور ضلالت ہے۔
أعاذنا اللہ منه آمین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7429   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7486  
7486. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے آتے ہیں اور عصر وفجر کی نمازوں میں وہ اکھٹے ہوتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے جو تم میں رات گزارتے ہیں جب اوپر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ بندوں کے احوال سے خوب واقف ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں: ہم نے انہیں اس حال میں چھوڑا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تھے تو بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7486]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق فرشتے لوگوں کے شب وروز کے عمل کو لے کر اوپر جاتے ہیں۔
اسی طرح ان کا تانتا لگا رہتا ہے۔
اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے علاوہ دوسرے فرشتوں سے بھی کلام کرتا ہے اور اس کا کلام قرآن مجید کے علاوہ بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا کلام حروف واصوات پر مشتمل مبنی برحقیقت ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے فرشتوں سے سوال کرنے کا ذکر ہے اورسوال ایسا کلام ہوتا ہے جو دوسروں کو سنائی دے اور وہ کلام حروف وآواز پر مشتمل ہو۔
واللہ أعلم۔

اس حدیث میں رات گزارنے والے فرشتوں کا خاص طور پر اس لیے ذکر ہوا کہ جو لوگ رات کے وقت نیک کام کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نےرات کو آرام کے لیے بنایا ہے تو وہ دن کے اوقات میں بطریق اولیٰ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مصروف رہتے ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7486