مشكوة المصابيح
كتاب المناقب
كتاب المناقب
امہات المؤمنین کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے گریز کرنا
حدیث نمبر: 6036
وَعَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: اسْتَأْذن عمر رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُكَلِّمْنَهُ وَيَسْتَكْثِرْنَهُ عَالِيَةً أَصْوَاتُهُنَّ فَلَمَّا اسْتَأْذَنَ عُمَرُ قُمْنَ فَبَادَرْنَ الْحِجَابَ فَدَخَلَ عُمَرُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ فَقَالَ: أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلَاءِ اللَّاتِي كُنَّ عِنْدِي فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَكَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ» قَالَ عُمَرُ: يَا عَدُوَّاتِ أَنْفُسِهِنَّ أَتَهَبْنَنِي وَلَا تَهَبْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم؟ قُلْنَ: نَعَمْ أَنْتَ أَفَظُّ وَأَغْلَظُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِيهٍ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَقَالَ الْحُمَيْدِيُّ: زَادَ الْبَرْقَانِيُّ بَعْدَ قَوْلِهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: مَا أَضْحَكَكَ
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، اس وقت آپ کے پاس قریش کی چند خواتین (آپ کی ازواج مطہرات) تھیں، وہ آپ سے بلند آواز میں گفتگو کر رہیں تھیں اور آپ سے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر رہی تھیں، جب عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو وہ کھڑی ہوئیں اور جلدی سے پردے میں چلی گئیں، عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس رہے تھے، انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! اللہ آپ کو سدا خوش رکھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ان پر تعجب ہے کہ وہ میرے پاس تھیں، جب انہوں نے آپ کی آواز سنی تو وہ فوراً حجاب میں چلی گئیں۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں ڈرتی ہو، انہوں نے فرمایا: ہاں، آپ سخت مزاج اور سخت دل ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ابن خطاب! اور کچھ کہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا مل جاتا ہے تو وہ اس راستے کو چھوڑ کر کسی دوسرے راستے پر چل پڑتا ہے۔ “ متفق علیہ۔ اور امام حمیدی ؒ بیان کرتے ہیں، برقانی نے ”یا رسول اللہ“ کے الفاظ کے بعد ”ما أضحک“ ”آپ کو کس چیز نے ہنسایا“ کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3683) و مسلم (22/ 2396)»
قال الشيخ الألباني: مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه