Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
15. بَابُ مَنْ تَرَكَ الْعَصْرَ:
باب: اس بیان میں کہ نماز عصر چھوڑ دینے پر کتنا گناہ ہے؟
حدیث نمبر: 553
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ قَالَ: كُنَّا مَعَ بُرَيْدَةَ فِي غَزْوَةٍ فِي يَوْمٍ ذِي غَيْمٍ، فَقَالَ: بَكِّرُوا بِصَلَاةِ الْعَصْرِ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ تَرَكَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے بیان کیا، کہا ہمیں یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے خبر دی۔ انہوں نے ابوالملیح سے، کہا ہم بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر جنگ میں تھے۔ ابر و بارش کا دن تھا۔ آپ نے فرمایا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا نیک عمل ضائع ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 553 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:553  
حدیث حاشیہ:
(1)
موسم کے ابر آلود ہونے کی بنا پر اندیشہ تھا کہ مبادا تاخیر کرتے ہوئے سورج غروب ہوجائے اور نماز کا وقت نکل جائے۔
پھر یہ بھی خطرہ تھا کہ لوگ خرابئ موسم کی وجہ سے انتظامات میں مشغول ہوکر نماز میں دیر نہ کردیں، اس لیے حضرت بریدہ ؓ نے نماز عصر کی ادائیگی کے متعلق غیر معمولی اہتمام کیا، نیز نماز عصر کی اہمیت دیگر نمازوں کے مقابلے میں زیادہ ہے کیونکہ اس وقت اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور فرشتے بھی اپنی باری تبدیل کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ لوگ بھی اس وقت خریدوفروخت اور تجارتی لین دین میں مصروف ہوتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کی بروقت ادئیگی کے متعلق خصوصی حکم دیا ہے اور اس کے چھوڑدینے پر سنگین وعید سنائی ہے۔
(2)
معتزلہ کے نزدیک ارتکاب کبیرہ سے انسان کافر ہوجاتا ہے۔
وہ اس قسم کی احادیث سے دلیل لیتے ہیں۔
اسی طرح بعض صحابہ نے بھی کہا ہے کہ تارک نماز دین اسلام سے خارج ہے، جبکہ جمہور محدیثین کے نزدیک ارتکاب کبیرہ سے انسان کافر نہیں ہوتا اور نہ ترک نماز سے انسان اپنے ایمان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ﴾ اور جو ایمان کے بجائے کفر اختیار کرے گا اس کا عمل ضائع ہوجائے گا۔
(المائدة: 5: 5)
اس آیت سے یہ بات نکلتی ہے کہ جس نے ایمان کے بجائے کفر اختیار نہیں کیا اس کے اعمال ضائع نہ ہوں جبکہ حدیث میں نماز عصر چھوڑ دینے سے عمل کے ضائع ہونے کی وعید ہے۔
گویا آیت کا مفہوم اور حدیث کا منطوق ظاہری طور پر ایک دوسرے کےے مخالف ہیں۔
اس کے علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں، مثلا:
٭ اگر فرضیت کا انکار کرتےہوئے نماز ترک کی تو اس کا عمل ضائع ہوجاتا ہے۔
٭حبطِ عمل سے مراد تشبیہ ہے کہ نماز عصر ترک کرنے والا انسان اس قدر محروم و بدنصیب ہے، جیسے وہ انسان جس کےتمام عمل ضائع ہوجائیں۔
(3)
راجح بات یہ ہے کہ نماز ترک نماز کی شدت اور نزاکت کو بیان کرنے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں تاکہ اس سنگین جرم سے احتراض کیا جائے، اس کا ظاہری مفہوم مراد نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔
مومن کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے۔
(صحیح البخاري، الإیمان، حدیث: 48)
حالانکہ قرآن کریم نے باہمی جنگ و قتال کرنے والوں کو مومن ہی کہا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا۔
۔
۔
۔
اگر اہل ایمان کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں..... (الحجرات49: 9)
اس قرآنی آیت کی روشنی میں مذکورہ حدیث میں کفر سے مراد حقیقی کفر نہیں۔
اسی طرح حدیث میں حبط عمل سے مراد حقیقی حبط عمل نہیں بلکہ جرم کی سنگینی اور شدت کو بیان کرنے لیے یہ الفاظ اختیار کیے گئے ہیں، کیونکہ کفروشرک اور ارتداد ہی ایسے اعمال ہیں جو اعمال کی بربادی کا سبب بنتے ہیں۔
(4)
قرآن کریم کی تصریحات کے مطابق حبط اعمال (بربادئ اعمال)
کے تین بڑے اسباب ہیں:
٭ ایمان کے بعد شرک کا ارتکاب کرنا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾ ﴿٨٨﴾ )
اگر وہ لوگ، یعنی انبیائے کرام علیہم السلام بھی شرک کرتے تو ان کا سب کیا کرایا برباد ہو جاتا۔
(الانعام6: 88)
٭ایمان لانے کے بعد ارتداد کی روش اختیار کرنا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَن يَرْتَدِدْ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَـٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ﴾ اور تم میں سے اگر کوئی اپنے دین سے برگشتہ ہوجائے پھر اس حالت میں مرجائے کہ وہ کافر ہی ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیاوآخرت میں برباد ہوگئے۔
(البقرة: 2: 217)
٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی اور گستاخی کرنا،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴾ ﴿٢﴾ اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ اس کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو،ایسا نہ ہو کہ تمھارے اعمال برباد ہو جائیں اور تمھیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔
(الحجرات49: 2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 553