مشكوة المصابيح
كتاب الفضائل والشمائل
كتاب الفضائل والشمائل
حدیث قرطاس
حدیث نمبر: 5966
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلُمُّوا أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ» . فَقَالَ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَ عَلَيْهِ الْوَجَعُ وَعِنْدَكُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُكُمْ كِتَابُ اللَّهِ فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم. وَمِنْهُم يَقُولُ مَا قَالَ عُمَرُ. فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغَطَ وَالِاخْتِلَافَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُومُوا عَنِّي» . قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَكَانَ ابنُ عباسٍ يَقُول: إِن الرزيئة كل الرزيئة مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيَّنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذَلِكَ الْكِتَابَ لِاخْتِلَافِهِمْ وَلَغَطِهِمْ وَفِي رِوَايَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي مُسْلِمٍ الْأَحْوَلِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: يَوْمُ الْخَمِيسِ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى. قُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ فَقَالَ: «ائْتُونِي بِكَتِفٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا» . فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ. فَقَالُوا: مَا شَأْنُهُ أَهَجَرَ؟ اسْتَفْهِمُوهُ فَذَهَبُوا يَرُدُّونَ عَلَيْهِ. فَقَالَ: «دَعُونِي ذَرُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ» . فَأَمَرَهُمْ بِثَلَاثٍ: فَقَالَ: «أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ» . وَسَكَتَ عَنِ الثَّالِثَةِ أَوْ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا قَالَ سُفْيَانُ: هَذَا مِنْ قَول سُلَيْمَان. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مرض الموت کے آثار ظاہر ہونے لگے، تو اس وقت (آپ کے) گھر میں کچھ افراد تھے ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”لاؤ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہوں گے۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ پر تکلیف کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن ہے، تمہارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے، اس پر گھر میں موجود افراد میں اختلاف پڑ گیا، اور وہ جھگڑ پڑے، کوئی کہہ رہا تھا، لاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں لکھ دیں، اور کوئی وہی کہہ رہا تھا جو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا، چنانچہ جب شور و غوغہ اور اختلاف زیادہ ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس سے اٹھ جاؤ۔ “ عبید اللہ نے بیان کیا، ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ ان کا اختلاف اور شور و شغب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گیا۔ اور سلیمان بن ابی مسلم الاحول کی روایت میں ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا، اور جمعرات کے دن کیا ہوا؟ پھر وہ رونے لگے، اتنا روئے کہ ان کے آنسوؤں نے سنگریزوں کو تر کر دیا۔ میں نے کہا: ابن عباس! جمعرات کے دن کیا ہوا؟ انہوں نے فرمایا: اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکلیف شدت اختیار کر گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے شانے کی ہڈی دو میں تمہیں تحریر لکھ دوں، اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ “ انہوں نے اختلاف کر لیا، حالانکہ نبی کے ہاں تنازع مناسب نہیں، انہوں نے کہا: ان کی کیا حالت ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (مرض کی وجہ سے) ایسی بات فرما رہے ہیں، انہیں سمجھنے کی کوشش کرو، پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بار بار پوچھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے چھوڑ دو، مجھے میرے حال پر رہنے دو میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے، جس کے لیے تم کہہ رہے ہو، بہتر ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں تین باتوں کی وصیت فرمائی: ”مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال دینا، وفود کو اسی طرح عطیات دیتے رہنا جس طرح میں انہیں عطیات دیا کرتا تھا۔ “ اور راوی نے تیسری بات نہیں کی یا اس کے متعلق انہوں نے کہا: میں اسے بھول گیا ہوں، سفیان ؒ نے کہا، یہ (کہنا کہ انہوں نے تیسری بات بیان نہیں کی) سلیمان کا قول ہے۔ متفق علیہ۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (114) و مسلم (22/ 1637) الرواية الثانية: البخاري (4431) و مسلم (1637/20)»
قال الشيخ الألباني: مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه