مشكوة المصابيح
كتاب الفضائل والشمائل
كتاب الفضائل والشمائل
”یا ساریہ! الجبل“ کا غیر ثابت شدہ قصہ
حدیث نمبر: 5954
وَعَن ابْن عمر أَنَّ عُمَرَ بَعَثَ جَيْشًا وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا يُدْعَى سَارِيَةَ فَبَيْنَمَا عُمَرُ يَخْطُبُ فَجَعَلَ يَصِيحُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَقِيَنَا عَدُوُّنَا فَهَزَمُونَا فَإِذَا بِصَائِحٍ يَصِيحُ: يَا سَارِيَ الْجَبَلَ. فَأَسْنَدْنَا ظُهُورَنَا إِلَى الْجَبَلِ فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ تَعَالَى رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي دَلَائِل النُّبُوَّة
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر روانہ کیا، اور ساریہ نامی شخص کو اس کا امیر مقرر کیا، اس اثنا میں کہ عمر رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ آپ زور سے کہنے لگے: ساریہ! پہاڑ کی طرف، پھر لشکر کی طرف سے ایک قاصد آیا تو اس نے کہا: امیر المومنین! ہمارا دشمن سے مقابلہ ہوا تو اس نے ہمیں شکست سے دوچار کر دیا تھا مگر اچانک کسی نے زور سے آواز دی: ساریہ! پہاڑ کو نہ چھوڑو۔ ہم نے اپنی پشتیں پہاڑ کی جانب کر لیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست سے دوچار کر دیا۔ رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده ضعيف، رواه البيھقي في دلائل النبوة (6/ 380)
٭ فيه محمد بن عجلان مدلس و عنعن و له طرق عند ابن عساکر (تاريخ دمشق 22/ 18، 19) وغيره و کلھا ضعيفة و مرسلة، لا يصح منھا شئ و أخطأ من صححه أو حسنه!»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف