مشكوة المصابيح
كتاب الفضائل والشمائل
كتاب الفضائل والشمائل
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی سزا
حدیث نمبر: 5915
وَعَن أبي حميد السَّاعِدِيّ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ فَأَتَيْنَا وَادِيَ الْقُرَى عَلَى حَدِيقَةٍ لِامْرَأَةٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اخْرُصُوهَا» فَخَرَصْنَاهَا وَخَرَصَهَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ أَوْسُقٍ وَقَالَ: «أَحْصِيهَا حَتَّى نَرْجِعَ إِلَيْكِ إِنْ شَاءَ اللَّهُ» وَانْطَلَقْنَا حَتَّى قَدِمْنَا تَبُوكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَتَهُبُّ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُمْ فِيهَا أَحَدٌ مِنْكُم فَمَنْ كَانَ لَهُ بَعِيرٌ فَلْيَشُدَّ عِقَالَهُ» فَهَبَّتْ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَقَامَ رَجُلٌ فَحَمَلَتْهُ الرِّيحُ حَتَّى أَلْقَتْهُ بِجَبَلَيْ طَيِّئٍ ثُمَّ أَقْبَلْنَا حَتَّى قَدِمْنَا وَادِيَ الْقُرَى فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَرْأَةُ عَنْ حَدِيقَتِهَا كَمْ بَلَغَ ثَمَرهَا فَقَالَت عشرَة أوسق. مُتَّفق عَلَيْهِ
ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم غزوۂ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے، ہم وادی قریٰ میں ایک عورت کے باغ کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس (کے پھلوں) کا اندازہ لگاؤ۔ “ ہم نے اندازہ لگایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا دس وسق کا اندازہ لگایا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو یاد رکھنا حتیٰ کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم تمہارے پاس واپس آئیں گے۔ “ اور ہم چلتے گئے حتیٰ کہ ہم تبوک پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی، اس میں کوئی شخص کھڑا نہ ہو اور جس شخص کے پاس اونٹ ہو تو وہ اسے باندھ لے۔ “ زور کی آندھی چلی، ایک آدمی کھڑا ہوا تو آندھی نے اسے اٹھا کر جبل طیئ پر جا پھینکا۔ پھر ہم واپس آئے حتیٰ کہ ہم وادی قریٰ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت سے اس کے باغ کے پھل کے متعلق پوچھا کہ ”اس کے پھل کتنے ہوئے تھے؟“ اس نے عرض کیا: دس وسق۔ متفق علیہ۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1481) و مسلم (11/ 1392)»
قال الشيخ الألباني: مُتَّفق عَلَيْهِ
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه