Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كتاب الفضائل والشمائل
كتاب الفضائل والشمائل
معراج مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
حدیث نمبر: 5862
عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالك بن صعصعة أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدثهمْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ: «بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ-وَرُبَّمَا قَالَ فِي الْحِجْرِ-مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ» يَعْنِي مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ «فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي ثُمَّ حُشِيَ ثُمَّ أُعِيدَ» -وَفِي رِوَايَةٍ: ثُمَّ غُسِلَ الْبَطْنُ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثمَّ ملئ إِيماناً وَحِكْمَة-ثُمَّ أُتِيتُ بِدَابَّةٍ دُونَ الْبَغْلِ وَفَوْقَ الْحِمَارِ أَبْيَضَ يُقَالُ لَهُ: الْبُرَاقُ يَضَعُ خَطْوَهُ عِنْدَ أَقْصَى طَرْفِهِ فَحُمِلْتُ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ بِي جِبْرِيلُ حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الدُّنْيَا فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ. قَالَ: نَعَمْ. قيل: مرْحَبًا بِهِ فَنعم الْمَجِيء جَاءَ ففُتح فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا فِيهَا آدَمُ فَقَالَ: هَذَا أَبُوكَ آدَمُ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ السَّلَام ثمَّ قَالَ: مرْحَبًا بالابن الصَّالح وَالنَّبِيّ الصَّالح ثمَّ صعد بِي حَتَّى السَّماءَ الثانيةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ. فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يَحْيَى وَعِيسَى وَهُمَا ابْنَا خَالَةٍ. قَالَ: هَذَا يَحْيَى وَهَذَا عِيسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِمَا فَسَلَّمْتُ فَرَدَّا ثُمَّ قَالَا: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ. ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ ففُتح فَلَمَّا خَلَصْتُ إِذَا يُوسُفُ قَالَ: هَذَا يُوسُفُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ. ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الرَّابِعَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفُتِحَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِدْرِيسُ فَقَالَ: هَذَا إِدْرِيسُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي حَتَّى أَتَى السَّمَاءَ الْخَامِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَفتح فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا هَارُونُ قَالَ: هَذَا هَارُونُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءَ السَّادِسَةَ فَاسْتَفْتَحَ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَهل أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا مُوسَى قَالَ: هَذَا مُوسَى فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ ثُمَّ قَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالح فَلَمَّا جَاوَزت بَكَى قيل: مَا بيكيك؟ قَالَ: أَبْكِي لِأَنَّ غُلَامًا بُعِثَ بَعْدِي يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِهِ أَكْثَرَ مِمَّنْ يَدْخُلُهَا مِنْ أُمَّتِي ثُمَّ صَعِدَ بِي إِلَى السَّمَاءِ السَّابِعَةِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ قِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: جِبْرِيلُ. قِيلَ: وَمَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: مُحَمَّدٌ. قِيلَ: وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قِيلَ: مَرْحَبًا بِهِ فَنِعْمَ الْمَجِيءُ جَاءَ فَلَمَّا خَلَصْتُ فَإِذَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ: هَذَا أَبُوكَ إِبْرَاهِيمُ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرد السَّلَام ثمَّ قَالَ: مرْحَبًا بالابن الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ ثُمَّ [ص: 1637] رُفِعْتُ إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى فَإِذَا نَبِقُهَا مِثْلُ قِلَالِ هَجَرَ وَإِذَا وَرَقُهَا مِثْلُ آذَانِ الْفِيَلَةِ قَالَ: هَذَا سِدْرَةُ الْمُنْتَهَى فَإِذَا أَرْبَعَةُ أَنْهَارٍ: نَهْرَانِ بَاطِنَانِ وَنَهْرَانِ ظَاهِرَانِ. قُلْتُ: مَا هَذَانِ يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: أَمَّا الْبَاطِنَانِ فَنَهْرَانِ فِي الْجَنَّةِ وَأَمَّا الظَّاهِرَانِ فَالنِّيلُ وَالْفُرَاتُ ثُمَّ رُفِعَ لِيَ الْبَيْتُ الْمَعْمُورُ ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ وَإِنَاءٍ مِنْ عَسَلٍ فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ: هِيَ الْفِطْرَةُ أَنْتَ عَلَيْهَا وَأُمَّتُكَ ثُمَّ فُرِضَتْ عَلَيَّ الصَّلَاةُ خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ فَمَرَرْتُ عَلَى مُوسَى فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: أُمِرْتُ بِخَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ. قَالَ: إِنَّ أمتك لَا تستطع خَمْسِينَ صَلَاةً كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي وَاللَّهِ قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنِّي عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلى مُوسَى فَقَالَ مثله فَرَجَعت ف وضع عني عَشْرًا فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَوَضَعَ عَنَى عَشْرًا فَأُمِرْتُ بِعَشْرِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ مِثْلَهُ فَرَجَعْتُ فَأُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى فَقَالَ: بِمَا أُمِرْتَ؟ قُلْتُ: أُمِرْتُ بِخَمْسِ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ. قَالَ: إِنَّ أُمَّتَكَ لَا تَسْتَطِيعُ خَمْسَ صَلَوَاتٍ كُلَّ يَوْمٍ وَإِنِّي قَدْ جَرَّبْتُ النَّاسَ قَبْلَكَ وَعَالَجْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَشَدَّ الْمُعَالَجَةِ فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَسَلْهُ التَّخْفِيفَ لِأُمَّتِكَ قَالَ: سَأَلْتُ رَبِّي حَتَّى اسْتَحْيَيْتُ وَلَكِنِّي أَرْضَى وَأُسَلِّمُ. قَالَ: فَلَمَّا جَاوَزْتُ نَادَى مُنَادٍ: أَمْضَيْتُ فريضتي وخففت عَن عبَادي. مُتَّفق عَلَيْهِ
قتادہ ؒ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے شب معراج کے متعلق انہیں بتایا کہ میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا، اور بعض روایات میں ہے، میں حجر میں لیٹا ہوا تھا، کہ اچانک ایک آنے والا میرے پاس آیا تو اس نے میرا سینہ چاک کیا، میرے دل کو نکالا، پھر میرے پاس ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا، میرے دل کو دھویا گیا، پھر اسے بھر دیا گیا، پھر اسے واپس اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے: پھر (میرے) پیٹ کو آب زم زم سے دھویا گیا، پھر اسے ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا، پھر خچر سے چھوٹی اور گدھے سے بڑی سفید رنگ کی براق نامی ایک سواری میرے پاس لائی گئی، وہ اپنی انتہائے نظر تک اپنا قدم رکھتی تھی، مجھے اس پر سوار کیا گیا، جبریل ؑ مجھے ساتھ لے چلے، حتی کہ وہ آسمان دنیا پر پہنچے تو انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، ان سے پوچھا گیا، آپ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا: جبریل، پوچھا گیا: اور آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا: محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم)، پوچھا گیا، کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، کہا گیا: خوش آمدید، اور تشریف لانے والے کتنے ہی اچھے ہیں، دروازہ کھول دیا گیا، جب میں وہاں پہنچا تو میں نے وہاں آدم ؑ کو دیکھا، جبریل ؑ نے بتایا: یہ آپ کے والد آدم ؑ ہیں، انہیں سلام کریں، میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر انہوں نے فرمایا: صالح بیٹے! اور صالح نبی خوش آمدید، پھر جبریل ؑ مجھے اوپر لے گئے حتی کہ وہ دوسرے آسمان پر پہنچ گئے، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، پوچھا گیا: کون ہے؟ انہوں نے فرمایا: جبریل ؑ، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ کون ہے؟ انہوں نے کہا: محمد! پوچھا گیا، کیا ان کی طرف کسی کو بھیجا گیا تھا؟ فرمایا: ہاں، کہا گیا: خوش آمدید! آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں، دروازہ کھول دیا گیا، جب میں وہاں پہنچا تو یحیی اور عیسیٰ ؑ سے ملاقات ہو گئی، اور وہ دونوں خالہ زاد تھے۔ فرمایا: یہ یحیی ؑ ہیں اور یہ عیسیٰ ؑ ہیں، ان دونوں کو سلام کریں، میں نے سلام کیا، تو ان دونوں نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: صالح بھائی! خوش آمدید، نبی صالح خوش آمدید، پھر مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے جایا گیا، انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، پوچھا گیا، کون ہے؟ فرمایا: جبریل، کہا گیا: آپ کے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: محمد (صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم) پوچھا گیا، کیا ان کی طرف کسی کو بھیجا گیا تھا؟ فرمایا: ہاں، کہا گیا: خوش آمدید، آنے والے کیا ہی اچھے ہیں، دروازہ کھول دیا گیا، جب میں ادھر پہنچا تو وہاں یوسف ؑ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بتایا، یہ یوسف ؑ ہیں، انہیں سلام کریں، میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: صالح بھائی اور صالح نبی خوش آمدید، پھر مجھے اوپر لے جایا گیا، حتیٰ کہ چوتھے آسمان پر پہنچے، پھر دروازہ کھولنے کے لیے درخواست کی، پوچھا کون ہے؟ کہا: جبریل، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ فرمایا: محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، پوچھا گیا: کیا ان کی طرف بھیجا گیا تھا؟ فرمایا: ہاں! کہا گیا: خوش آمدید، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں، جب میں وہاں پہنچا تو ادریس ؑ سے ملاقات ہوئی، تو انہوں نے کہا، یہ ادریس ؑ ہیں، انہیں سلام کریں، میں نے سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا: صالح نبی خوش آمدید، پھر مجھے اوپر لے جایا گیا حتیٰ کہ وہ پانچویں آسمان پر پہنچے اور انہوں نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی تو ان سے پوچھا گیا، آپ کون ہیں؟ کہا: جبریل، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ کون ہیں؟ فرمایا: محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، پوچھا گیا، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، پھر کہا گیا: خوش آمدید، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں، جب میں وہاں پہنچا تو وہاں ہارون ؑ سے ملاقات ہوئی فرمایا: یہ ہارون ؑ ہیں انہیں سلام کریں، پس میں نے انہیں سلام کیا، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: صالح بھائی، اور نبی صالح خوش آمدید، پھر وہ مجھے اور اوپر لے گئے، حتیٰ کہ ہم چھٹے آسمان پر پہنچے تو انہوں نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا، انہوں نے پوچھا: کون ہیں؟ فرمایا: جبریل، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، پوچھا گیا، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ فرمایا: ہاں، کہا گیا، خوش آمدید، آنے والے کتنے ہی اچھے ہیں، دروازہ کھول دیا گیا، جب میں وہاں پہنچا تو وہاں موسی ؑ تشریف فرما تھے، جبریل ؑ نے فرمایا: یہ موسیٰ ہیں، انہیں سلام کریں، میں نے انہیں سلام کیا، تو انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: صالح بھائی اور صالح نبی خوش آمدید جب میں ان سے آگے بڑھنے لگا تو وہ رونے لگے، ان سے پوچھا گیا: آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں اس لیے روتا ہوں کہ ایک نوجوان میرے بعد مبعوث کیا گیا، اور اس کی امت کے جنت میں جانے والے افراد، میری امت کے جنت میں جانے والے افراد سے زیادہ ہوں گے، پھر مجھے ساتویں آسمان پر لے جایا گیا، جبریل ؑ نے دروازہ کھولنے کی درخواست کی، تو پوچھا گیا: آپ کون ہیں؟ فرمایا: جبریل، پوچھا گیا، آپ کے ساتھ کون ہیں؟ فرمایا: محمد صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم، پوچھا گیا، کیا ان کی طرف پیغام بھیجا گیا تھا؟ فرمایا: ہاں، کہا گیا: خوش آمدید، کتنے ہی اچھے ہیں آنے والے؟ جب میں وہاں پہنچا تو وہاں ابراہیم ؑ تشریف فرما تھے، جبریل نے فرمایا، یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ ہیں، انہیں سلام کریں، چنانچہ میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے سلام کا جواب دیا، پھر فرمایا: صالح بیٹے اور صالح نبی خوش آمدید، پھر مجھے سدرۃ المنتہی تک لے جایا گیا، اس کے میوے (بیر) حجر کے مٹکوں کی طرح تھے، اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح تھے، انہوں نے بتایا، یہ سدرۃ المنتہی ہے، وہاں چار نہریں تھیں: دو باطنی تھیں اور دو ظاہری تھیں میں نے کہا: جبریل! یہ دو چیزیں کیا ہیں، انہوں نے فرمایا: دو باطنی نہریں، یہ دو نہریں جنت میں بہتی ہیں، اور دو ظاہری نہریں، اور یہ نیل و فرات ہیں، پھر مجھے بیت المعمور کی طرف لے جایا گیا، پھر میرے پاس شراب، دودھ اور شہد کا برتن لایا گیا، میں نے دودھ والا برتن اٹھا لیا، انہوں نے فرمایا: یہ وہ فطرت ہے جس پر آپ اور آپ کی امت ہے، پھر مجھ پر دن میں پچاس نمازیں فرض کی گئیں، میں واپس آیا اور موسی ؑ کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا: آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کیا حکم ملا ہے؟ میں نے کہا: مجھے ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، انہوں نے فرمایا: آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت ہر روز پچاس نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھے گی، اللہ کی قسم! میں آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں، اور بنی اسرائیل کا مجھے سخت تجربہ ہو چکا ہے، آپ اپنے رب کے پاس دوبارہ جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں، میں دوبارہ گیا تو مجھ سے دس کم کر دی گئیں، پھر میں موسی ؑ کے پاس آیا، انہوں نے پھر وہی بات کی، میں پھر حاضر خدمت ہوا، اللہ تعالیٰ نے پھر دس نمازوں کی تخفیف فرما دی، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات کہی، میں پھر حاضر خدمت ہوا، اللہ تعالیٰ نے دس نمازیں کم کر دیں، میں موسی ؑ کے پاس واپس آیا تو انہوں نے پھر وہی بات دہرائی، میں پھر اللہ کے پاس گیا تو مجھ سے دس کم کر دی گئیں، اور مجھے ہر روز دس نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر ویسے ہی فرمایا، میں پھر (رب کے حضور) گیا تو مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا، میں موسی ؑ کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا: آپ کو کیا حکم دیا گیا ہے؟ میں نے کہا: مجھے ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، انہوں نے فرمایا: آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی امت ہر روز پانچ نمازیں پڑھنے کی طاقت نہیں رکھے گی، کیونکہ میں آپ سے پہلے لوگوں کا تجربہ کر چکا ہوں اور بنی اسرائیل کا مجھے سخت تجربہ ہو چکا ہے، آپ اپنے رب کے پاس پھر جائیں اور اپنی امت کے لیے تخفیف کی درخواست کریں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے (تخفیفِ نماز کے لیے اتنی مرتبہ) سوال کیا ہے لہذا اب مجھے حیا آتی ہے، اب میں راضی ہوں اور تسلیم کرتا ہوں، فرمایا: جب میں وہاں سے چلا تو آواز دینے والے نے آواز دی، میں نے (پانچ نمازوں کا) اپنا فریضہ جاری کر دیا اور اپنے بندوں پر تخفیف فرما دی۔ متفق علیہ۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (3207) و مسلم (265 / 164)»

قال الشيخ الألباني:

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه