حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ، أَنَّ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ، دَعَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُرْسِهِ، فَكَانَتِ امْرَأَتُهُ خَادِمَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَهِيَ الْعَرُوسُ، فَقَالَتْ: مَا تَدْرُونَ مَا أَنْقَعْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْقَعْتُ، لَهُ تَمَرَاتٍ مِنَ اللَّيْلِ فِي تَوْرٍ.
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5597
حدیث حاشیہ:
بعض اہل علم نے کھجوروں سے تیار کی ہوئی نبیذ کو مکروہ خیال کیا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید میں یہ عنوان قائم کیا ہے۔
جن حضرات نے اسے ناپسند کیا ہے وہ اس امر پر محمول ہو گا کہ جس میں کافی تغیر آ چکا ہو اور نشہ آور ہونے کے قریب ہو۔
بہرحال کھجوروں کا نبیذ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ نشہ آور نہ ہو۔
اگرچہ حدیث میں اس کے نشہ آور ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں، تاہم رات کے آغاز سے لے کر دوپہر دن تک اس میں کسی قسم کا جوش نہیں آتا اور نہ اس میں ترشی ہی پیدا ہوتی ہے، لہذا اس قسم کا مشروب پینے کی شرعاً اجازت ہے۔
(فتح الباري: 79/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5597
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1912
´ولیمہ کا بیان۔`
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابواسید ساعدی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی شادی میں بلایا، تو سب لوگوں کی خدمت دلہن ہی نے کی، وہ دلہن کہتی ہیں: جانتے ہو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پلایا؟ میں نے چند کھجوریں رات کو بھگو دی تھیں، صبح کو میں نے ان کو صاف کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا شربت پلایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1912]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ولیمے کے لیے اپنی طاقت کے مطابق اہتمام کرنا چاہیے۔
اگر کوئی شخص معمولی دعوت ہی کر سکتا ہو تو اس کو قرض لے کر پر تکلف دعوت کرنے کی ضرورت نہیں۔
(2)
ہرشخص کی دعوت قبول کرنی چاہیے، خواہ وہ غریب ہو یا امیر۔
(3)
عورت مہمانوں کی خدمت کر سکتی ہے اگرچہ وہ محرم نہ ہوں بشرطیکہ شرعی پردے کا خیال رکھا جائے۔
(4)
کجھوروں کو پانی میں بھگو کر جو شربت بنایا جاتا ہے اسے نبیذ کہتے ہیں۔
اس میں نشہ نہیں ہوتا اس طرح کا شربت منقی پانی میں رات بھر بھگو کر بھی بنایا جاتا ہے۔
اگر اسے مناسب مدت سے زیادہ رکھا جائے تو اس میں نشہ پیدا ہو جاتا ہے، اس وقت اس کا پینا حرام ہے۔
اس کی علامت یہ ہے کہ شربت پر جھاگ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کا ذائقہ میٹھے کے بجائے کڑوا ہو جاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1912
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5233
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو اسید ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی شادی کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا، (آپ کے کچھ ساتھی بھی ساتھ تھے) اس دن ان کی خدمت، ابواسید رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے ہی کی جو دلہن تھی، حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، تم جانتے ہو، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا پلایا؟ اس نے رات کو ایک پتھر کے بڑے پیالے میں کچھ کھجوریں پانی میں ڈال دیں، جب آپ نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5233]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
دلہن کا خاوند کے گھر آنے والے مہمانوں کے لیے کھانا وغیرہ تیار کرنا اور اس سلسلہ کے دوسرے کام کاج کرنا معیوب نہیں ہے،
وہ شادی کے مہمانوں کی خود اس قسم کی خدمت کر سکتی ہے،
جو پردہ میں خلل انداز نہ ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5233
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5182
5182. سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب سیدنا ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ نے شادی کی تو انہوں نے نے نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دعوت طعام دی اس موقع پر کھانا ان کی دلھن ام اسید رضی اللہ عنہا نے خود ہی تیار کیا اور خود ہی مردوں کو پیش کیا۔ انہوں نے پتھر کے ایک بڑے پیالے میں رات کے وقت کھجوریں بھگو دی تھیں پھر جب نبی ﷺ کھانے سے فارغ ہوئے تو ام اسید رضی اللہ عنہا نے ہی شربت تیار کیا اور آپ ﷺ کو بطور تحفہ پیش کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5182]
حدیث حاشیہ:
لفظ أماثته أماتة سے ہے اس کے معنی پانی میں کسی چیز کا حل کرنا۔
معلوم ہوا کہ دلہن بھی فرائض میزبانی ادا کر سکتی ہے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت پردے کے ساتھ عورت ایسے سارے کام کاج کر سکتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5182
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5183
5183. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو اسید ساعدی ؓ نے اپنی شادی کے موقع پر نبی ﷺ کو مدعو کیا تو اس دن ان کی بیوی ہی مدعوین کی خدمت گزار تھی جبکہ وہ دلھن تھی۔ انہوں نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے کون سا جوس رسول اللہ ﷺ کے لیے تیار کیا تھا؟ میں نے رات کے وقت ہی ایک پتھر کے پیالے میں کچھ کھجوریں بھگودیں (اور ان کا جوس رسول اللہ ﷺ کو پلایا تھا) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5183]
حدیث حاشیہ:
عرب میں کھجور ایک مرغوب اور بکثرت ملنے والی جنس تھی۔
کھانے میں اور شربت بنانے میں اکثر اسی کا استعمال ہوتا تھا جیسا کہ حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5183
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5591
5591. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ابو اسید ساعدی ؓ آئے اور رسول اللہ ﷺ کو اپنے ولیمے میں شمولیت کی دعوت دی۔ ان کی بیوی ہی تمام کام کر رہی تھی، حالانکہ وہ دلھن تھی۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو کیا پلایا تھا؟ آپ ﷺ کے لیے انہوں نے رات کے وقت پتھر کے برتن میں کھجوریں بھگو رکھی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5591]
حدیث حاشیہ:
ان ہی کا شربت آپ کو پلایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5591
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6685
6685. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک صحابی حضرت ابو اسید ؓ نے نکاح کیا اور اپنی شادی کے موقع پر انہوں نے نبی ﷺ کو دعوت دی۔ دلہن ہی میزبانی کا کام کر رہی تھی۔ پھر حضرت سہل ؓ نے لوگوں سے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس دلہن نے کیا پلایا تھا؟ اس نے رات ہی کو پتھر کے ایک برتن میں کھجوریں بھگو رکھی تھیں حتٰی کہ جب صبح ہوئی تو اس نے ان کا پانی ہی آپ ﷺ کو پلایا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6685]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی وفات نبوی کے وقت 15 سال کے تھے۔
91ھ میں مدینہ میں وفات پائی۔
مدینہ میں فوت ہونے والے یہ آخری صحابی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6685
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5176
5176. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ابو اسید ساعدی ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی شادی پر دعوت دی۔ اس دن سیدنا ابو اسید ؓ کی بیوی لوگوں کی خدمت کر رہی تھی اور وہی دلھن تھی۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: تم جانتے ہو کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو کون سا مشروب پیش کیا تھا؟ انہوں نے رات کے وقت کچھ کھجوریں پانی میں بھگو دی تھیں پھر جب (صبح کے وقت) آپ ﷺ کھانے سے فارغ ہوئے تو اس نے وہی مشروب نوش کر نے لیے پیش کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5176]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو اسید رضی اللہ عنہ کا نام مالک بن ربیعہ ہے جو ساعدہ قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔
بدری صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے آخر میں فوت ہوئے۔
ان کی بیوی کا نام سلامہ بنت وہب ہے۔
مذکورہ واقعہ نزول حجاب، یعنی پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔
(2)
دعوت ولیمہ قبول کرنے کی شرط یہ ہے کہ وہاں کوئی غیر شرعی کام نہ ہوں، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم ایک دعوت میں گئے، وہاں انھوں نے جانداروں کی تصاویر دیکھیں تو واپس آ گئےاور شرکت نہ کی۔
(عمدة القاري: 133/14)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5176
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5182
5182. سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب سیدنا ابو اسید ساعدی رضی اللہ عنہ نے شادی کی تو انہوں نے نے نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دعوت طعام دی اس موقع پر کھانا ان کی دلھن ام اسید رضی اللہ عنہا نے خود ہی تیار کیا اور خود ہی مردوں کو پیش کیا۔ انہوں نے پتھر کے ایک بڑے پیالے میں رات کے وقت کھجوریں بھگو دی تھیں پھر جب نبی ﷺ کھانے سے فارغ ہوئے تو ام اسید رضی اللہ عنہا نے ہی شربت تیار کیا اور آپ ﷺ کو بطور تحفہ پیش کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5182]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت دلہن بھی فرائض میزبانی ادا کر سکتی ہے اور پردے کے ساتھ وہ گھر میں کام کاج کر سکتی ہے۔
اس میں کوئی حرج نہیں۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے بیوی کا خاوند اور مہما نوں کی خدمت کرنا ثابت ہوتا ہے، خاوند کے علاوہ دوسرے لوگوں کی خدمت اس وقت جائز ہے جب کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور عورت بھی پردے کی پابندی کرے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ خاوند اپنی بیوی سے اس طرح کی خدمت لے سکتا ہے۔
والله اعلم (فتح الباري: 312/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5182
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5183
5183. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ سیدنا ابو اسید ساعدی ؓ نے اپنی شادی کے موقع پر نبی ﷺ کو مدعو کیا تو اس دن ان کی بیوی ہی مدعوین کی خدمت گزار تھی جبکہ وہ دلھن تھی۔ انہوں نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے کون سا جوس رسول اللہ ﷺ کے لیے تیار کیا تھا؟ میں نے رات کے وقت ہی ایک پتھر کے پیالے میں کچھ کھجوریں بھگودیں (اور ان کا جوس رسول اللہ ﷺ کو پلایا تھا) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5183]
حدیث حاشیہ:
(1)
عنوان میں نقیع کے بعد شراب کا ذکر کیا گیا ہے جو فقہی اصطلاح میں عام کا خاص پر عطف ہے۔
(2)
مشروب کے لیے شرط ہے کہ اس میں نشہ نہ ہو کیونکہ نشہ آور کوئی بھی مشروب استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
(3)
یاد رہے کہ نقیع وہ کھجوریں ہیں جو پانی میں ڈال دی جائیں تاکہ ان کی مٹھاس نکل آئے،جسے ہماری زبان میں کھجور کا جوس (نبیذ)
کہتے ہیں۔
(4)
عربوں کےہاں کھجور ایک مرغوب اور بکثرت ملنے والا میوہ ہے۔
کھانے میں اور شربت بنانے میں عرب اسی کو استعمال کرتے تھے جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5183
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5591
5591. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ابو اسید ساعدی ؓ آئے اور رسول اللہ ﷺ کو اپنے ولیمے میں شمولیت کی دعوت دی۔ ان کی بیوی ہی تمام کام کر رہی تھی، حالانکہ وہ دلھن تھی۔ سیدنا سہل ؓ نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کو کیا پلایا تھا؟ آپ ﷺ کے لیے انہوں نے رات کے وقت پتھر کے برتن میں کھجوریں بھگو رکھی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5591]
حدیث حاشیہ:
(1)
کھجور کو پانی میں بھگو کر اسے مل چھان کر شربت بنانا نبیذ کہلاتا ہے۔
یہ ایک مقوی اور فرحت بخش مشروب ہے۔
عربی زبان میں اسے نقیع کہتے ہیں۔
جب اس میں ترشی پیدا ہو جائے اور جوش مارنے لگے تو اس کا پینا جائز نہیں۔
(2)
اس قسم کا نبیذ سردیوں میں تین دن تک اور گرمیوں میں صرف ایک دن تک قابل استعمال رہتا ہے، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کشمش کا نبیذ بنایا جاتا تو آپ اسے اس دن، اگلے دن اور اس سے اگلے دن، یعنی تیسرے دن کی شام تک استعمال کرتے تھے، پھر آپ حکم دیتے کہ خادموں کو پلا دیا جائے یا اسے بہا دیا جائے۔
(صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5226 (2004)
امام ابو داود رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خادموں کو پلانے سے مقصود یہ ہوتا تھا کہ خراب ہونے سے پہلے پہلے اسے استعمال کر لیا جائے، اس کے بعد اسے استعمال نہ کیا جائے۔
(سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3713)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5591