Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كتاب الفضائل والشمائل
كتاب الفضائل والشمائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت کا تورات میں ذکر
حدیث نمبر: 5799
وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ غُلَامًا يَهُودِيًّا كَانَ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَوَجَدَ أَبَاهُ عِنْدَ رَأْسِهِ يَقْرَأُ التَّوْرَاةَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا يَهُودِيٌّ أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ التَّوْرَاةَ عَلَى مُوسَى هَلْ تَجِدُ فِي التَّوْرَاةِ نَعْتِي وَصِفَتِي وَمَخْرَجِي؟» . قَالَ: لَا. قَالَ الْفَتَى: بَلَى وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَجِدُ لَكَ فِي التَّوْرَاة نعتك وَصِفَتَكَ وَمَخْرَجَكَ وَإِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: «أَقِيمُوا هَذَا مِنْ عِنْدِ رَأْسِهِ وَلُوا أَخَاكُمْ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «دَلَائِل النُّبُوَّة»
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، وہ بیمار ہو گیا تو نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے آپ نے اس کے والد کو اس کے سر کے پاس تورات پڑھتے دیکھ کر فرمایا: اے یہودی! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسی ؑ پر تورات نازل فرمائی، (بتاؤ) کیا تم تورات میں میری ذات و صفات کے متعلق کچھ لکھا ہوا پاتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں لیکن وہ لڑکا کہنے لگا، اللہ کی قسم! اللہ کے رسول! ہم آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ذات و صفات اور آپ کی تشریف آوری کے متعلق تورات میں لکھا ہوا پاتے ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور آپ اللہ کے رسول ہیں، نبی صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: اس کو اس (لڑکے) کے سرہانے سے اٹھا دو اور تم اپنے (اسلامی) بھائی کی (تجہیز و تکفین کے متعلق) سر پرستی کرو۔ حسن، رواہ البیھقی فی دلائل النبوۃ۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه البيھقي في دلائل النبوة (6/ 272 وسنده حسن)
٭ فيه مؤمل بن إسماعيل حسن الحديث و ثقه الجمھور و له شواھد عند البيھقي في الدلائل (6/ 272. 273) وغيره فالحديث حسن.»

قال الشيخ الألباني: لم تتمّ دراسته

قال الشيخ زبير على زئي: حسن