مشكوة المصابيح
كتاب الفتن
كتاب الفتن
ابن صیاد کا ذکر
حدیث نمبر: 5494
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بن الْخطاب انْطَلَقَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِهِ قِبَلَ ابْنِ الصياد حَتَّى وجدوهُ يلعبُ مَعَ الصّبيانِ فِي أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ يَوْمَئِذٍ الْحُلُمَ فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ بِيَدِهِ ثمَّ قَالَ: «أتشهدُ أَنِّي رسولُ الله؟» فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الْأُمِّيِّينَ. ثُمَّ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَرَصَّهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ: «آمَنت بِاللَّه وبرسلِه» ثمَّ قَالَ لِابْنِ صيَّاد: «مَاذَا تَرَى؟» قَالَ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُلِّطَ عَلَيْكَ الْأَمْرُ» . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي خَبَّأْتُ لَكَ خَبِيئًا» وَخَبَّأَ لَه: (يومَ تَأتي السَّماءُ بدُخانٍ مُبينٍ) فَقَالَ: هُوَ الدُّخُّ. فَقَالَ: «اخْسَأْ فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ» . قَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَأْذَنُ لي فِي أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ يَكُنْ هُوَ لَا تُسَلَّطْ عَلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ هُوَ فَلَا خير لَك فِي قَتْلِهِ» . قَالَ ابْنُ عُمَرَ: انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بْنُ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيُّ يَؤُمَّانِ النَّخْلَ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ وَهُوَ يَخْتِلُ أنْ يسمعَ مِنِ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ وَابْنُ صَيَّادٍ مُضْطَجِعٌ عَلَى فِرَاشِهِ فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا زَمْزَمَةٌ فَرَأَتْ أُمُّ ابْنِ صَيَّادٍ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ. فَقَالَتْ: أَيْ صَافُ-وَهُوَ اسْمُهُ-هَذَا مُحَمَّدٌ. فَتَنَاهَى ابْنُ صَيَّادٍ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ» . قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّاسَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ ذَكَرَ الدَّجَّالَ فَقَالَ: «إِنِّي أُنْذِرُكُمُوهُ وَمَا مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا وَقَدْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ لَقَدْ أَنْذَرَ نُوحٌ قَوْمَهُ وَلَكِنِّي سَأَقُولُ لَكُمْ فِيهِ قَوْلًا لَمْ يَقُلْهُ نَبِيٌّ لِقَوْمِهِ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ أَعْوَرُ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ» . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ ابن صیاد کی طرف روانہ ہوئے اور انہوں نے اسے بنو مغالہ کے قلعے میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے پایا، ابن صیاد ان دنوں بلوغت کے قریب تھا، اسے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا) پتہ اس وقت چلا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی پشت پر ہاتھ مارا، پھر فرمایا: ”کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف (غصہ سے) دیکھا اور کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں (عربوں) کے رسول ہیں، پھر ابن صیاد نے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے زور سے دبایا اور فرمایا: ”میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابن صیاد سے فرمایا: ”تم کیا دیکھتے ہو؟“ اس نے کہا: میرے پاس سچا اور جھوٹا دونوں آتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے لیے معاملہ مشتبہ کر دیا گیا ہے۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہارے لیے اپنے دل میں ایک چیز چھپائی ہے (بتاؤ وہ کیا ہے؟) آپ نے یہ بات چھپائی تھی: ”جس دن آسمان ظاہر دھوئیں کے ساتھ آئے گا۔ “ اس نے کہا: وہ دخ (دھواں) ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”دور ہو جا، تو اپنی حیثیت سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ “ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، اللہ کے رسول! کیا آپ اس کے متعلق مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اسے قتل کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو یہ وہی (دجال) ہے تو پھر اس پر غلبہ حاصل نہیں کیا جا سکتا، اور اگر یہ وہ نہیں تو پھر اس کے قتل کرنے میں تیرے لیے کوئی بھلائی نہیں۔ “ ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابی بن کعب انصاری رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر کھجور کے اس باغ کی طرف روانہ ہوئے جس میں ابن صیاد تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور کے تنوں میں چھپنے لگے آپ چاہتے تھے کہ اس سے پہلے کہ ابن صیاد آپ کو دیکھ لے، آپ اس سے کچھ سن لیں، ابن صیاد مخملی چادر میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا، اور کچھ گنگنا رہا تھا، اتنے میں ابن صیاد کی ماں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ لیا جبکہ آپ کھجور کے تنوں میں چھپ رہے تھے، اس نے کہا: صاف یہ ابن صیاد کا نام ہے (دیکھو!) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آ گئے، چنانچہ ابن صیاد متنبہ ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ اس کو (اس حالت پر) چھوڑ دیتی تو وہ (اپنے دل کی بات) ظاہر کر دیتا۔ “ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی جو اس کی شان کے لائق ہے۔ پھر دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: ”میں تمہیں اس سے ڈراتا ہوں، اور ہر نبی ؑ نے اس سے اپنی قوم کو ڈرایا ہے، نوح ؑ نے بھی اپنی قوم کو ڈرایا لیکن میں اس کے متعلق تمہیں ایسی بات بتاؤں گا جو کسی نبی نے اپنی قوم کو نہیں بتائی، تم خوب جان لو کہ وہ کانا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کانا نہیں ہے۔ “ متفق علیہ۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «متفق عليه، رواه البخاري (1354. 1355) و مسلم (95/ 2930)»
قال الشيخ الألباني: مُتَّفق عَلَيْهِ
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه