Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ
کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
37. بَابُ إِذَا نَدَّ بَعِيرٌ لِقَوْمٍ فَرَمَاهُ بَعْضُهُمْ بِسَهْمٍ فَقَتَلَهُ فَأَرَادَ إِصْلاَحَهُمْ فَهْوَ جَائِزٌ:
باب: جب کسی قوم کا کوئی اونٹ بدک جائے اور ان میں سے کوئی شخص خیر خواہی کی نیت سے اسے تیر سے نشانہ لگا کر مار ڈالے تو جائز ہے؟
حدیث نمبر: 5544
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَدَّ بَعِيرٌ مِنَ الْإِبِلِ، قَالَ: فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ لَهَا أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ"، هَكَذَا قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَكُونُ فِي الْمَغَازِي وَالْأَسْفَارِ فَنُرِيدُ أَنْ نَذْبَحَ فَلَا تَكُونُ مُدًى، قَالَ:" أَرِنْ مَا نَهَرَ أَوْ أَنْهَرَ الدَّمَ، وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ فَكُلْ غَيْرَ السِّنِّ وَالظُّفُرِ، فَإِنَّ السِّنَّ عَظْمٌ، وَالظُّفُرَ مُدَى الْحَبَشَةِ".
ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو عمر بن عبید الطنافسی نے خبر دی، انہیں سعید بن مسروق نے، ان سے عبایہ بن رفاعہ نے، ان سے ان کے دادا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ ایک اونٹ بدک کر بھاگ پڑا، پھر ایک آدمی نے تیر سے اسے مارا اور اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اونٹ بھی بعض اوقات جنگلی جانوروں کی طرح بدکتے ہیں، اس لیے ان میں سے جو تمہارے قابو سے باہر ہو جائیں، ان کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔ رافع نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم اکثر غزوات اور دوسرے سفروں میں رہتے ہیں اور جانور ذبح کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس چھریاں نہیں ہوتیں۔ فرمایا کہ دیکھ لیا کرو جو آلہ خون بہا دے یا (آپ نے بجائے «نهر» کے) «أنهر» فرمایا اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ۔ البتہ دانت اور ناخن نہ ہو کیونکہ دانت ہڈی ہے اور ناخن حبش والوں کی چھری ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5544 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5544  
حدیث حاشیہ:
چھری نہ ہونے پر بوقت ضرورت دانت اور ناخون کے سوا ہر ایسے آلہ سے ذبح جائز ہے جو خون بہا سکے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5544   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5544  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں دو واقعات ہیں:
ایک یہ کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تقسیم غنیمت سے پہلے گوشت کی دیگیں چڑھا دیں، دوسرا یہ کہ اونٹ بھاگ نکلا تو اسے کسی نے تیر مار کر روک لیا۔
ان دونوں واقعات سے امام بخاری رحمہ اللہ نے الگ الگ مسائل کا استنباط کیا ہے لیکن علامہ اسماعیلی نے امام بخاری رحمہ اللہ پر اعتراض کیا ہے کہ دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ ذبح کرنے میں دونوں واقعات میں حد سے تجاوز کیا گیا ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ پہلی صورت میں لوگوں نے تقسیم سے پہلے جانور ذبح کر دیے تاکہ وہ گوشت کو اپنے لیے خاص کر لیں تو انہیں اس گوشت سے محروم کر دینے کی سزا دی گئی اور جس صورت میں آدمی نے اونٹ کو تیر مار کر روکا، اس میں مالک کے مال کو محفوظ رکھنے کا جذبہ کار فرما تھا۔
شارح صحیح بخاری ابن منیر نے بھی یہی لکھا ہے کہ اگر غیر مالک کا ذبح کرنا زیادتی کے طور پر ہے تو اس کا ذبح کرنا فاسد ہے اور اگر اس کا ذبح کرنا اصلاح کے جذبے سے ہے تو فاسد نہیں ہے۔
(فتح الباري: 832/9)
ایک حدیث میں ہے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی لونڈی نے ان کی بکری اجازت کے بغیر ذبح کر دی جو مرنے کے قریب پہنچ چکی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے کی اجازت دی۔
(صحیح البخاري، الذبائح و الصید، حدیث: 5501)
اس حدیث سے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کا قائم کیا ہوا عنوان ثابت ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5544   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4302  
´اگر مانوس اور پالتو جانور وحشی ہو جائے تو کیا کرے؟`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسی دوران کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہامہ کے ذی الحلیفہ میں تھے تو لوگوں کو کچھ اونٹ ملے اور کچھ بکریاں (بطور مال غنیمت) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کے پیچھے تھے، تو آگے کے لوگوں نے جلدی کی اور (تقسیم غنیمت سے پہلے) انہیں ذبح کیا اور ہانڈیاں چڑھا دیں، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے، آپ نے حکم دیا تو ہانڈیاں الٹ دی گئیں، پھر آپ نے ان کے درمیان مال غنی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4302]
اردو حاشہ:
(1) گھریلو جانور جب وحشی بن جائے اور انسانوں سے متنفر ہو کر بھاگ کھڑا ہو تو اس پر وحشی (جنگلی) جانور والا حکم لگے گا۔ ایسی صورت میں جب اس قسم کے جانور پر قابو پانا اور اسے ذبح کرنا ممکن نہ ہو تو اسے خشکی کے شکار کی طرح زخمی کیا جا سکتا ہے۔ پھر ذبح کرنے سے پہلے مر جانے کی صورت میں اس پر جنگلی شکاری جانوروں والا حکم ہی لاگو ہوگا، یعنی زخمی ہونے کے بعد زندہ قابو آنے کی صورت میں اسے ذبح کرنا ضروری ہو گا جبکہ اس سے پہلے مر جانے کی صورت میں، اگر اسے اللہ کا نام لے کر تیریا گولی وغیرہ ماری گئی ہو تو وہ حلال سمجھا جائے گا اور اس کا گوشت کھانا درست ہو گا۔ جمہور اہل علم کا یہی قول ہے۔ واللہ أعلم
(2) مشترکہ مال میں‘ اجازت کے بغیر انفرادی اور شخصی تصرف ناجائز ہے اگرچہ وہ مال تھوڑا ہی ہو، خواہ ضرورت کا تقاضا یہی کیوں نہ ہو۔
(3) یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کمال درجے کی اطاعت رسول اللہ ﷺ کی واضح دلیل ہے کہ سخت بھو کے ہونے کے باوجود انھوں نے ابلتی ہانڈیاں الٹا دیں لیکن رسول اللہ ﷺ کے حکم سے سر موانحراف نہیں کیا۔
(4) شرعی مصلحت کا تقاضا ہو تو حاکم وقت رعایا کو سزا دے سکتا ہے، خواہ اس صورت میں مال ضائع ہی کیوں نہ ہوتا ہو لیکن شرط یہ ہے کہ شرعی مصلحت ہی غالب ہو۔ محض اپنی اَنا کی تسکین کے لیے سزا دینا مقصود نہ ہو۔
(5) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مخلوط اور ملے جلے غنیمت میں ہر چیز کی الگ الگ تقسیم ضروری نہیں بلکہ تعدیل و تقویم (مختلف اشیاء میں کمی بیشی کر کے انھیں قیمتاََ ایک دوسرے کے برابر قرار دینا) بھی جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے دس بکریوں کو ایک ایک اونٹ کے برابر قرار دیا تھا۔
(6) اصول یہ ہے کہ گھریلو جانوروں کو قابو کر کے حلق سے ذبح کیا جائے۔ چھوٹے جانوروں کو لٹا کر ذبح کیا جائے۔ اور اونٹ کو کھڑا کر کے اس کا بایاں گھٹنا باندھ کر اس کے حلق میں چھری کی نوک یا نیزہ وغیرہ مار کر اسے نحر کیا جائے۔ گھریلو جانوروں کو شکار کی طرح تیر مار کر ذبح نہیں کرنا چاہیے، البتہ جنگلی جانور چونکہ انسانوں کے قابو میں آتے، لہٰذا ان کے لیے یہی طریقہ ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر تیر پھینکا جائے، جہاں بھی جا لگے۔ جب وہ خون نکلنے سے کمزور ہو جائے تو اس کو پکڑلے اور ذبح کر لے لیکن اگر وہ اسی تیر سے بے جان ہو جائے تب بھی کوئی حرج نہیں۔
(7) تہامہ کا ذوالحلیفہ اشارہ ہے کہ یہاں وہ ذوالحلیفہ مراد نہیں جو مدینہ کا میقات ہے اور جہاں احرام باندھا جاتا ہےبلکہ یہ اور ذوالحلیفہ ہے۔
(8) ذبح کیا نبی ﷺ کی اجازت کے بغیر، حالانکہ مال غنیمت امیر کی معرفت تقسیم ہونا چاہیے۔
(9) دس بکریاں معلوم ہوا دس بکریاں ایک اونٹ کے برابر ہیں، لہٰذا اونٹ کی قربانی میں دس افراد شریک ہو سکتے ہیں۔
(10) خال خال گھوڑے تھے یعنی اونٹ کا تعاقب کرنے اور اسے پکڑنے لے لیے گھوڑے مہیا نہ ہو سکے۔ اور گھوڑوں کے بغیر اسے پکڑا نہیں جا سکتا تھا۔
(11) بھاگنے لگتے ہیں یعنی وحشت محسوس کرتے ہیں۔ عربی میں لفظ أوابد استعمال ہوا ہے جو آبدة کی جمع ہے۔ اس کے معنیٰ غیر مانوس، وحشی، بدکنے اور بھاگنے والے جانور کے ہیں۔ چونکہ جنگلی جانور انسان سے غیر مانوس ہوتے ہیں اور دیکھتے ہی بھاگتے ہیں، اس لیے انھیں أوابد کہا جاتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4302   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4414  
´بدک کر بھاگ جانے والے جانور جس کو پکڑنا ممکن نہ ہو کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کل دشمن سے ملیں گے اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، آپ نے فرمایا: دانت اور ناخن کے علاوہ جس کسی آلہ سے (جانور کا) خون بہہ جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ اونٹ اور غنیمت کا مال ملا، ان میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا، ایک شخص نے اسے تیر مارا، جس سے وہ رک گیا، آپ نے فرمایا: ان جانوروں میں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4414]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھئے، حدیث 4302۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4414   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4415  
´بدک کر بھاگ جانے والے جانور جس کو پکڑنا ممکن نہ ہو کا بیان۔`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ کل دشمن سے ملیں گے، اور ہمارے پاس چھریاں نہیں ہیں، آپ نے فرمایا: جس آلہ سے خون بہہ جائے اور وہ دانت ناخن نہ ہو اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ، اور جلد ہی میں تمہیں اس کا سبب بتاتا ہوں، رہا دانت تو وہ ہڈی ہے اور رہا ناخن تو وہ حبشہ والوں کی چھری ہے، پھر مال غنیمت میں ہمیں کچھ بکریاں یا اونٹ ملے، ان میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4415]
اردو حاشہ:
ابتدائی حصے کی تفصیل کے لیے دیکھئے، حدیث: 4408۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4415   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3183  
´قابو سے باہر ہو جانے والے جانور کو کیسے ذبح کیا جائے؟`
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ایک اونٹ سرکش ہو گیا، ایک شخص نے اس کو تیر مارا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں کچھ وحشی ہوتے ہیں، میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنگلی جانوروں کی طرح تو جو ان میں سے تمہارے قابو میں نہ آ سکے، اس کے ساتھ ایسا ہی کرو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الذبائح/حدیث: 3183]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بھاگنے سے مراد مالک سے چھوٹ کر بھاگ جانا ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہو۔

(2)
بھاگے ہوئے بے قابو جانور کو دور سے تیر یا نیزہ وغیرہ (تکبیر کہہ کر)
مارا جائے تو اس کا حکم شکار كا ہوجا تا ہے، یعنی اگر اس تک لوگوں کے پہنچنے سے پہلے اس کی جان نکل جائے تو وہ ذبیحہ کے حکم میں ہے۔
اور اگر لوگوں کے پہنچنے تک زندہ ہو تو باقاعدہ تکبیر پڑھ کر ذبح یا نحر کیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3183   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1492  
´اونٹ، گائے اور بکری بدک کر وحشی بن جائیں تو انہیں تیر سے مارا جائے گا یا نہیں؟`
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، لوگوں کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بدک کر بھاگ گیا، ان کے پاس گھوڑے بھی نہ تھے، ایک آدمی نے اس کو تیر مارا سو اللہ نے اس کو روک دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان چوپایوں میں جنگلی جانوروں کی طرح بھگوڑے بھی ہوتے ہیں، اس لیے اگر ان میں سے کوئی ایسا کرے (یعنی بدک جائے) تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو ۱؎۔ اس سند سے بھی رافع رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں یہ نہیں ذکر ہے کہ عبایہ نے اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1492]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اس پر بسم اللہ پڑھ کر تیر چلاؤ اور تیر لگ جانے پر اسے کھاؤ،
کیوں کہ بھاگنے اور بے قابو ہونے کی صورت میں اس کے جسم کا ہر حصہ محل ذبح ہے،
گویا یہ اس شکار کی طرح ہے جو بے قابو ہوکر بھاگتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1492   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:414  
414- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کل ہمارا دشمن سے سامنا ہوگا، ہمارے پا چھریاں نہیں ہیں، تو کیا ہم درخت کی چھال کے ذریعہ جانور ذبح کرلیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو چیز خون بہادے اور جس پر تم نے اللہ کا نام لیا ہو اسے تم کھالو، ماسوائے اس کے جسے سن (یعنی ہڈی) یا ظفر (حبشہ کی مخصوص چھری) کے ذریعے ذبح کیا گیا ہو۔ سن انسان کی ہڈی کو کہتے ہیں، اور ظفر حبشیوں کی مخصوص چھری ہے (یہ الفاظ شاید راوی کے ہیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:414]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس مرضی چیز سے ماکول اللحم جانور کواللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کیا جائے وہ حلال ہے سوائے دانت اور ناخن کے۔ دانت سے اس لیے منع فرمایا کہ یہ ایک ہڈی ہے اور اس سے جانور پوری طرح ذبح نہیں ہوتا، اسی طرح ناخن سے ذبح کرنے میں بھی جانور کو تکلیف ہوتی ہے اور اس سے جانور پوری طرح ذبح نہیں ہوتا۔ [صحيح بخاري 4598] میں اس حدیث سے پہلے مفصل واقعہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ، اس حدیث سے قبل لکھتے ہیں: ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا اور جس نے بسم اللہ کو عمداً چھوڑ دیا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر کوئی ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول گیا تو کوئی حرج نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور اس جانور کو نہ کھاؤ جس پر ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، بلاشبہ یہ نا فرمانی ہے۔ (الأنعام: 121) بھولنے والے کو فاسق نہیں کہاجا سکتا۔
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور شیاطین تو اپنے دوستوں کے دلوں میں (شکوک و شبہات) القا کرتے رہتے ہیں تا کہ وہ تم سے جھگڑتے رہیں اور اگر تم نے ان کی بات مان لی تو تم بھی مشرک ہی ہوئے۔ (الأنعام: 121) [صحيح البخاري قبل ح: 5498]
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 414   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2488  
2488. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ مقام ذوالحلیفہ میں تھے۔ اس دوران میں لوگوں کو بھوک نے ستایا تو انھیں کچھ اونٹ اور بکریاں ہاتھ لگے۔ راوی کہتا ہے کہ اس وقت نبی ﷺ لوگوں سے پیچھے تھے۔ اس لیے لوگوں نے جلدی کی اور جانوروں کو ذبح کر ڈالا اور ہانڈیاں چڑھا دیں۔ نبی ﷺ (جب تشریف لائے تو آپ)نے حکم دیا کہ ان ہانڈیوں کو الٹ دیا جائے، چنانچہ انھیں الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے تقسیم فرمائی تو دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ اتفاقاً ایک اونٹ بھاگ نکلا تو لوگ اس کے پیچھے دوڑے جس نے ان کو تھکا دیا۔ اس وقت لشکر میں گھوڑے بھی کم تھے۔ آخر کارایک شخص نے اسے تیر ماراتو اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا۔ آپ ﷺ نے فر مایا: وحشی جانوروں کی طرح ان میں بھی کچھ وحشی ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی بے قابو ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔ میں نے کہا: ہمیں اندیشہ ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2488]
حدیث حاشیہ:
وہ ناخن ہی سے جانور کاٹتے ہیں، تو ایسا کرنے میں ان کی مشابہت ہے۔
امام نووی ؒنے کہا کہ ناخن خواہ بدن میں لگا ہوا ہو یا جدا کیا ہوا ہو، پاک ہو یا نجس کسی حال میں اس سے ذبح جائز نہیں۔
ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر کیا۔
ہانڈیوں کو ا س لیے اوندھا کر دیا گیا کہ ان میں جو گوشت پکا یا جارہا تھا وہ ناجائز تھا۔
جسے کھانا مسلمانوں کے لیے حلال نہ تھا۔
لہٰذآپ ﷺ نے ان کا گوشت ضائع کرا دیا۔
دیوبندی حنفی ترجمہ بخاری میں یہاں لکھا گیا ہے کہ ہانڈیوں کے الٹ دینے کا مطلب یہ ہے کہ یعنی تقسیم کرنے کے لیے ان سے گوشت نکال لیا گیا۔
(دیکھو تفہیم البخاری دیوبندی ص142پ9)
یہ مفہوم کتنا غلط ہے۔
اس کا اندازہ حاشیہ صحیح بخاری شریف مطبوعہ کراچی جلد اول ص 338 کی عبارت ذیل سے لگایا جاسکتا ہے۔
محشی صاحب جو غالباً حنفی ہی ہیں فرماتے ہیں فأکفئت أي أقلبت و رمیت وأریق ما فیها و هو من الإکفاء قیل إنما أمر بالإکفاء لأنهم ذبحوا الغنم قبل أن یقسم فلم یطب له بذلك۔
یعنی ان ہانڈیوں کو الٹا کر دیا گیا، گرا دیا گیا اور جو ان میں تھا وہ سب بہاد یا گیا۔
حدیث کا لفظ اکفئت مصدر اکفاء سے ہے۔
کہا گیا ہے کہ آپ نے ان کے گرانے کا حکم ا س لیے صادر فرمایا کہ انہوں نے بکریوں کو مال غنیمت کے تقسیم ہونے سے پہلے ہی ذبح کر ڈالا تھا۔
آپ ﷺ کو ان کا یہ فعل پسند نہیں آیا۔
اس تشریح سے صاف ظاہر ہے کہ دیوبندی حنفی کا مذکورہ مفہوم بالکل غلط ہے۔
واللہ أعلم بالصواب
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2488   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2488  
2488. حضرت رافع بن خدیج ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ مقام ذوالحلیفہ میں تھے۔ اس دوران میں لوگوں کو بھوک نے ستایا تو انھیں کچھ اونٹ اور بکریاں ہاتھ لگے۔ راوی کہتا ہے کہ اس وقت نبی ﷺ لوگوں سے پیچھے تھے۔ اس لیے لوگوں نے جلدی کی اور جانوروں کو ذبح کر ڈالا اور ہانڈیاں چڑھا دیں۔ نبی ﷺ (جب تشریف لائے تو آپ)نے حکم دیا کہ ان ہانڈیوں کو الٹ دیا جائے، چنانچہ انھیں الٹ دیا گیا۔ پھر آپ نے تقسیم فرمائی تو دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا۔ اتفاقاً ایک اونٹ بھاگ نکلا تو لوگ اس کے پیچھے دوڑے جس نے ان کو تھکا دیا۔ اس وقت لشکر میں گھوڑے بھی کم تھے۔ آخر کارایک شخص نے اسے تیر ماراتو اللہ تعالیٰ نے اسے روک دیا۔ آپ ﷺ نے فر مایا: وحشی جانوروں کی طرح ان میں بھی کچھ وحشی ہوتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی بے قابو ہو جائے تو اس کے ساتھ ایسا ہی کیا کرو۔ میں نے کہا: ہمیں اندیشہ ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2488]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ اندازے سے تقسیم کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تقسیم کے وقت دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر قرار دیا ہے اور بکریوں کے قد ایک جیسے نہیں ہوتے اور طاقت کے اعتبار سے بھی ان میں فرق ہوتا ہے۔
اس طرح اونٹوں کا معاملہ ہے، لیکن تقسیم کرتے وقت اس قسم کے فرق کا اعتبار نہیں کیا گیا۔
معلوم ہوا کہ جانوروں کی قیمت مقرر کرنے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ جب ایسا کیا جائے گا تو اس اندازے سے کیا جائے گا کہ اس حیثیت کا اونٹ ہے اور اس حیثیت کی بکریاں ہیں۔
اونٹ اور بکریوں کی مختلف اقسام ہیں۔
دونوں کی حیثیت دیکھ کر قیمت مقرر کی جائے گی۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ قیمت کا تعین کر کے جانوروں کا تبادلہ ہو گا۔
اس سے بہت دشواریاں پیدا ہو سکتی ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ بکریوں کی تقسیم تعداد کے اعتبار سے ہے، اس میں قیمت کا لحاظ نہیں کیا جائے گا۔
(2)
واضح رہے کہ اختیاری حالات میں تو جانور کو گلے ہی سے ذبح کیا جائے گا، البتہ اضطراری حالات میں کسی بھی مقام سے ذبح کیا جا سکتا ہے، نیز ذبح کرتے وقت بسم الله الله أكبر کہنا بھی ضروری ہے۔
اگر کوئی بسم الله بھول جائے یا اسے شک ہو کہ تکبیر پڑھی ہے یا نہیں تو کھاتے وقت بسم الله پڑھ لی جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2488