Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ
کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
8. بَابُ الصَّيْدِ إِذَا غَابَ عَنْهُ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلاَثَةً:
باب: جب شکار کیا ہوا جانور شکاری کو دو یا تین دن کے بعد ملے تو دہ کیا کرے؟
حدیث نمبر: 5485
وَقَالَ عَبْدُ الْأَعْلَى: عَنْ دَاوُدَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَدِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرْمِي الصَّيْدَ فَيَقْتَفِرُ أَثَرَهُ الْيَوْمَيْنِ وَالثَّلَاثَةَ ثُمَّ يَجِدُهُ مَيِّتًا وَفِيهِ سَهْمُهُ، قَالَ: يَأْكُلُ إِنْ شَاءَ".
اور عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے داؤد بن ابی یاسر نے، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ وہ شکار تیر سے مارتے ہیں پھر دو یا تین دن پر اسے تلاش کرتے ہیں، تب وہ مردہ حالت میں ملتا ہے اور اس کے اندر ان کا تیر گھسا ہوا ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو چاہے تو کھا سکتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5485 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5485  
حدیث حاشیہ:
یہ اسی صورت میں کہ شکار بد بو دار نہ ہوا ہو ورنہ پھر وہ کھانا مناسب نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5485   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5485  
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ احادیث درج ذیل اقسام پر مشتمل ہیں:
٭ اگر بسم اللہ پڑھ کر کتا چھوڑا جائے اور وہ شکار پکڑ کر مالک کے پاس لے آئے تو اسے کھانا جائز ہے۔
٭ اگر کتا اس میں سے خود کچھ کھا لے تو مالک کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔
٭ اگر شکاری کتے کے ساتھ دوسرے کتے بھی جائیں اور شکار کو مار ڈالیں تو ایسا شکار کھانا جائز نہیں۔
٭ اگر شکار کو تیر مارا، پھر دو یا تین دن بعد شکار ملا اور اس میں تیر کا نشان تھا تو اسے کھانا بھی جائز ہے۔
٭ اگر شکار پانی میں گر جائے تو اسے نہ کھایا جائے۔
(2)
واضح رہے کہ اگر شکار کو تیر مارنے کے بعد وہ دو یا تین دن غائب رہے، پھر ملے تو کھایا جا سکتا ہے بشرطیکہ گوشت خراب نہ ہوا ہو۔
اگر گوشت میں بدبو پڑ گئی اور وہ خراب ہو گیا تو اسے نہیں کھانا چاہیے جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، الصید والذبائح، حدیث: 4985 (1931)
، و فتح الباري: 757/9)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5485