صحيح البخاري
كِتَاب الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ
کتاب: ذبیح اور شکار کے بیان میں
7. بَابُ إِذَا أَكَلَ الْكَلْبُ:
باب: جب کتا شکار میں سے خود کھا لے تو اس کا کیا حکم ہے؟
وَقَوْلُهُ تَعَالَى: يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ سورة المائدة آية 4. الصَّوَائِدُ وَالْكَوَاسِبُ اجْتَرَحُوا: اكْتَسَبُوا، تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ إِلَى قَوْلِهِ: سَرِيعُ الْحِسَابِ سورة المائدة آية 4، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنْ أَكَلَ الْكَلْبُ فَقَدْ أَفْسَدَهُ إِنَّمَا أَمْسَكَ عَلَى نَفْسِهِ، وَاللَّهُ يَقُولُ: تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ سورة المائدة آية 4 فَتُضْرَبُ وَتُعَلَّمُ حَتَّى يَتْرُكَ، وَكَرِهَهُ ابْنُ عُمَرَ، وَقَالَ عَطَاءٌ: إِنْ شَرِبَ الدَّمَ وَلَمْ يَأْكُلْ فَكُلْ.
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ المائدہ میں) فرمایا کہ ”آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز کھانی ہمارے لیے حلال کی گئی ہے، آپ کہہ دیں کہ تم پر کل پاکیزہ جانور کھانے حلال ہیں اور تمہارے سدھائے ہوئے شکاری کتوں اور جانوروں کا شکار بھی جو شکار پر چھوڑ جاتے ہیں۔ تم انہیں اس طریقہ پر سکھاتے ہو جس طرح تمہیں اللہ نے سکھایا ہے سو کھاؤ اس شکار کو جسے (شکاری جانور یا کتا) تمہارے لیے پکڑ کر رکھیں۔“ اللہ کے قول ”بیشک اللہ حساب جلد کر دیتا ہے“ تک۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر کتے نے شکار کا گوشت خود بھی کھا لیا تو اس نے شکار کو ناپاک کر دیا کیونکہ اس صورت میں اس نے خود اپنے لیے شکار کو روکا ہے اور اللہ تعالیٰ کا اسی سورۃ میں فرمانا کہ ”تم انہیں سکھاتے ہو اس میں سے جو اللہ نے تمہیں سکھایا ہے“ اس لیے ایسے کتے کو پیٹا جائے گا اور سکھایا جاتا رہے گا، یہاں تک کہ شکار میں سے وہ کھانے کی عادت چھوڑ دے۔ ایسے شکار کو ابن عمر رضی اللہ عنہما مکروہ سمجھتے تھے اور عطاء نے کہا کہ اگر صرف شکار کا خون پی لیا ہو اور اس کا گوشت نہ کھایا ہو تو تم کھا سکتے ہو۔