مشكوة المصابيح
كتاب الطب والرقى
كتاب الطب والرقى
ستاروں کے فوائد
حدیث نمبر: 4602
وَعَن قتادةَ قَالَ: خلقَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِه النجومَ لثلاثٍ جَعَلَهَا زِينَةً لِلسَّمَاءِ وَرُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ وَعَلَامَاتٍ يُهْتَدَى بهَا فَمن تأوَّلَ فِيهَا بِغَيْرِ ذَلِكَ أَخَطَأَ وَأَضَاعَ نَصِيبَهُ وَتَكَلَّفَ مَالا يَعْلَمُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ تَعْلِيقًا وَفِي رِوَايَةِ رَزِينٍ: «تكلّف مَالا يعنيه ومالا عِلْمَ لَهُ بِهِ وَمَا عَجَزَ عَنْ عِلْمِهِ الْأَنْبِيَاء وَالْمَلَائِكَة»
قتادہ ؒ بیان کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے یہ ستارے تین مقاصد کے لیے پیدا فرمائے ہیں، انہیں آسمان کے لیے باعث زینت بنایا، شیاطین کے لیے مار اور علامت و نشانات جن کے ذریعے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ جس نے ان کے علاوہ کچھ اور بیان کیا اس نے غلطی کی، اپنا حصہ (عمر) ضائع کیا اور ایسی چیز کا تکلف کیا جو وہ نہیں جانتا۔ امام بخاری ؒ نے اسے معلق روایت کیا ہے۔ اور رزین کی روایت میں ہے، اور اس نے ایسی چیز کا تکلف کیا جو نہ تو اس کے متعلق ہے اور نہ اسے اس کا علم ہے اور جس کے علم سے انبیا ؑ اور فرشتے بھی عاجز ہیں۔ رواہ البخاری و رزین۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (کتاب بدء الخلق باب 3، بعد ح 3198) و رزين (لم أجده) [ورواه ابن حجر في تغليق التعليق (489/3) وسنده صحيح]
٭ وقوله ’’ما لا علم له به‘‘ صحيح.»
قال الشيخ الألباني: لم تتمّ دراسته
قال الشيخ زبير على زئي: رواه البخاري (کتاب بدء الخلق باب 3، بعد ح 3198)