Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْعَقِيقَةِ
کتاب: عقیقہ کے مسائل کا بیان
2. بَابُ إِمَاطَةِ الأَذَى عَنِ الصَّبِيِّ فِي الْعَقِيقَةِ:
باب: عقیقہ کے دن بچہ کے بال مونڈنا (یا ختنہ کرنا)۔
حدیث نمبر: 5472
وَقَالَ أَصْبَغُ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، حَدَّثَنَا سَلْمَانُ بْنُ عَامِرٍ الضَّبِّيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذَى".
اور اصبغ بن فرج نے بیان کیا کہ مجھے عبداللہ بن وہب نے خبر دی، انہیں جریر بن حازم نے، انہیں ایوب سختیانی نے، انہیں محمد بن سیرین نے کہ ہم سے سلمان بن عامر الضبی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لڑکے کے ساتھ اس کا عقیقہ لگا ہوا ہے اس لیے اس کی طرف سے جانور ذبح کرو اور اس سے بال دور کرو (سر منڈا دو یا ختنہ کرو)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5472 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5472  
حدیث حاشیہ:
(1)
ہر بچے کے ساتھ عقیقہ ہے حدیث کے ان الفاظ سے حضرت حسن بصری اور قتادہ رحمہم اللہ نے یہ استدلال کیا ہے کہ لڑکے کا عقیقہ ہے لڑکی کا نہیں۔
لیکن جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ عقیقہ دونوں کی طرف سے ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے:
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ قربانی کی جائے۔
(جامع الترمذي، الأضاحی، حدیث: 1513)
٭ حضرت ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ لڑکے کی طرف سے دو ایک جیسی بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری بطور عقیقہ ذبح کی جائے۔
(سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2834)
٭ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:
ہاں لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرو۔
(مسند أحمد: 381/6)
اسی طرح حدیث کے الفاظ ہیں کہ نومولود کی طرف سے خون بہاؤ۔
یہ مبہم الفاظ ہیں۔
ان کی تفسیر دیگر احادیث سے ہوتی ہے کہ کون سے جانور عقیقے میں ذبح کرنے ہیں۔
حدیث میں شاة کا لفظ ہے جو بکری، بھیڑ اور دنبہ تینوں پر بولا جاتا ہے۔
اگرچہ جمہور اہل علم گائے اور اونٹ کو ذبح کرنا جائز کہتے ہیں لیکن اس سلسلے میں ہمارا موقف ہے کہ صرف ان جانوروں پر اکتفا کیا جائے جن کا احادیث میں ذکر آیا ہے۔
اس کی وضاحت ہم اپنے تعارفی نوٹ میں کر آئے ہیں۔
وہ تکلیف دہ چیز کیا ہے جس کے متعلق حدیث میں آیا ہے کہ نومولود سے اسے دور کیا جائے؟ اس کے متعلق حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد سر کے بال صاف کرنے ہیں۔
(سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2840)
بعض علماء نے اس کے علاوہ کوئی اور چیز مراد لی ہے۔
بہرحال تکلیف دہ چیز عام ہے اور اس میں سر کا منڈوانا بھی شامل ہے۔
(فتح الباري: 734/9)
واللہ أعلم۔
بعض حضرات نے اس سے مراد ختنہ لیا ہے۔
کچھ حضرات کا موقف ہے کہ دور جاہلیت میں عقیقے کا خون بچے کے سر پر ملتے تھے، اس سے منع کیا گیا ہے، چنانچہ جب اسلام آیا تو سر کے بال صاف کرنے کے بعد اس پر زعفران لگائی جاتی تھی۔
(سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2843)
ہمارے رجحان کے مطابق اس سے وہ بلائیں اور آفتیں مراد ہیں جو نومولود سے وابستہ ہوتی ہیں اور جنہیں عقیقے سے دور کیا جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ بچہ عقیقے کی وجہ سے گروی رکھا ہوا ہوتا ہے۔
(سنن أبي داود، الضحایا، حدیث: 2838)
امام بخاری رحمہ اللہ نے عقیقے کے متعلق حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ ذکر نہیں کیے کیونکہ وہ مشہور ہے۔
اس کے الفاظ درج ذیل ہیں:
نومولود، عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے۔
ولادت کے ساتویں دن اس کا عقیقہ کیا جائے، اس کے سر کے بال صاف کیے جائیں اور اس کا نام رکھا جائے۔
(جامع الترمذي، الأضاحي، حدیث: 1522)
نومولود اپنے عقیقے کے عوض گروی ہے، اس کے مفہوم میں بہت اختلاف ہے۔
ہمارے نزدیک بہترین مفہوم امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔
وہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد بچے کا قیامت کے دن سفارش کرنا ہے، یعنی جب بچہ فوت ہو گیا اور اس کا عقیقہ نہ کیا گیا تو قیامت کے دن وہ والدین کے لیے سفارش نہیں کرے گا۔
(فتح الباري: 734/9)
نومولود کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنا بھی مشروع ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن کا عقیقہ کیا اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
اے فاطمہ! اس کا سر منڈاؤ اور بالوں کے عوض چاندی صدقہ کرو۔
(جامع الترمذي، الأضاحي، حدیث: 1519)
نومولود کے مذکورہ احکام کے علاوہ اس کے کان میں اذان کہنا بھی مشروع ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت حسن پیدا ہوئے تو ان کے کان میں اذان کہی تھی۔
(جامع الترمذي، الأضاحي، حدیث: 1516)
یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن دیگر شواہد کی وجہ سے مضبوط ہو جاتی ہے۔
(تحفة الأحوذي: 91/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5472