Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانوں کے بیان میں
47. بَابُ جَمْعِ اللَّوْنَيْنِ أَوِ الطَّعَامَيْنِ بِمَرَّةٍ:
باب: ایک وقت میں دو طرح کے (پھل) یا دو قسم کے کھانے جمع کر کے کھانا۔
حدیث نمبر: 5449
حَدَّثَنَا ابْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ الرُّطَبَ بِالْقِثَّاءِ".
ہم سے ابن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ابراہیم بن سعد نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ککڑی کے ساتھ کھجور کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5449 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5449  
حدیث حاشیہ:
(1)
طبرانی کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک برتن لایا گیا جس میں دودھ اور شہد تھا تو آپ نے فرمایا:
دو سالن ایک برتن میں، میں نہ تو اسے کھاتا ہوں اور نہ انہیں حرام ہی کرتا ہوں۔
(المعجم الأوسط للطبراني، رقم: 7404)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔
(فتح الباري: 710/9) (2)
اس حدیث سے دو پھلوں کو بیک وقت کھانا اور دو کھانوں کو ایک وقت میں جمع کرنے کا جواز ملتا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانے کی اشیاء میں وسعت کی جا سکتی ہے بشرطیکہ فضول خرچی اور نمود و نمائش کا شائبہ نہ ہو۔
ہمارے بعض اسلاف سے جو اس کی کراہت منقول ہے وہ اسی امر پر محمول ہو گی کہ اسے بطور عادت اختیار نہ کیا جائے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5449   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:550  
550- سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ککڑی کے ساتھ کھجور کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:550]
فائدہ:
اس حدیث میں تازہ کھجوریں اور ککڑی ملا کر کھانے کا ذکر ہے، دونوں کی تاثیر ایک دوسرے کی تاثیر سے مختلف ہوتی ہے، ایک گرم ہے تو دوسری سرد ہے، دونوں کو ملا کر کھانے سے تاثیر معتدل ہو جاتی ہے۔
کھانے کھاتے وقت اپنی طبیعت کو دیکھ کر کھانا چاہیے، اکثر بیماریاں کھانے میں لا پروائی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 550   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5330  
حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھیرے کے ساتھ تازہ کھجوریں کھاتے دیکھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5330]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
کھیرا یا ککڑی ٹھنڈی ہوتی ہے اور کھجور گرم ہے،
دونوں کے امتزاج سے اعتدال اور توازن ہوتا ہے،
اس سے معلوم ہوتا ہے،
ایک دوسرے میں اعتدال و توازن پیدا کرنے والی خوراک کھانا بہتر ہے،
اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں،
شادی کے بعد مجھے کھیرا اور کھجور ملا کر کھلائی گئیں تو میں اس سے موٹی ہو گئی اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے،
مختلف انواع کے کھانے کھائے جا سکتے ہیں اور کھانوں میں وسعت و فراوانی جائز ہے،
بشرطیکہ حد اعتدال سے نہ بڑھے اور انسان پیٹو نہ بنے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5330   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5440  
5440. سیدنا عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ککڑی کے ساتھ تازہ کھجور کھاتے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5440]
حدیث حاشیہ:
یہ بڑی دانائی اور حکمت کی بات ہے ایک دوسری کی مصلح ہیں کھجور کی گرمی ککڑی توڑ دیتی ہے جو ٹھنڈی ہے، حضرت عبداللہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے پہلے بیٹے ہیں جو حبش میں ہوئے۔
کثرت سخاوت سے ان کا لقب بحر الجود تھا۔
حد درجہ کے عبادت گزار تھے۔
سنہ 80 ھ میں بعمر 90 سال مدینہ المنورہ میں وفات پائی، (رضي اللہ عنه)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5440   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5440  
5440. سیدنا عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ککڑی کے ساتھ تازہ کھجور کھاتے دیکھا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5440]
حدیث حاشیہ:
(1)
تازہ کھجور، ککڑی کے ساتھ ملا کر کھانے میں یہ حکمت ہے کہ کھجور کا مزاج گرم خشک ہے اور ککڑی، سرد اور تر مزاج رکھتی ہے، ایسا کرنے میں ایک دوسرے کی مصلح ہو جاتی ہیں، یعنی کھجور کی گرمی، ککڑی کی ٹھنڈک سے ختم ہو جاتی ہے اور مزاج میں اعتدال آ جاتا ہے، چنانچہ بعض روایات میں ہے کہ ایک کی گرمی سے دوسرے کی ٹھنڈک ختم ہو جاتی ہے۔
(عمدة القاري: 439/14)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5440   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5447  
5447. سیدنا عبداللہ بن جعفر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ تازہ کھجوریں ککڑی ساتھ ملا کر کھا رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5447]
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں دبلی پتلی تھی۔
میری والدہ نے مجھے فربہ کرنے کے لیے بہت علاج کیا لیکن میں جوں کی توں رہی، حتی کہ میں نے تازہ کھجوریں، ککڑی کے ساتھ ملا کر کھانا شروع کیں تو میرا دبلا پن جاتا رہا۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ علاج تجویز کیا تھا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کو کہا تھا کہ وہ تازہ کھجوریں، ککڑی کے ساتھ ملا کر کھلائیں۔
(فتح الباري: 710/9)
بہرحال ان احادیث سے ککڑی کھانے کا جواز ملتا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5447