Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانوں کے بیان میں
41. بَابُ الرُّطَبِ وَالتَّمْرِ:
باب: تازہ کھجور اور خشک کھجور کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 5443
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْن أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ بِالْمَدِينَةِ يَهُودِيٌّ وَكَانَ يُسْلِفُنِي فِي تَمْرِي إِلَى الْجِدَادِ وَكَانَتْ لِجَابِرٍ الْأَرْضُ الَّتِي بِطَرِيقِ رُومَةَ، فَجَلَسَتْ فَخَلَا عَامًا، فَجَاءَنِي الْيَهُودِيُّ عِنْدَ الْجَدَادِ وَلَمْ أَجُدَّ مِنْهَا شَيْئًا، فَجَعَلْتُ أَسْتَنْظِرُهُ إِلَى قَابِلٍ، فَيَأْبَى فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: امْشُوا نَسْتَنْظِرْ لِجَابِرٍ مِنَ الْيَهُودِيِّ، فَجَاءُونِي فِي نَخْلِي فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ الْيَهُودِيَّ، فَيَقُولُ أَبَا الْقَاسِمِ: لَا أُنْظِرُهُ، فَلَمَّا رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فَطَافَ فِي النَّخْلِ، ثُمَّ جَاءَهُ فَكَلَّمَهُ فَأَبَى فَقُمْتُ فَجِئْتُ بِقَلِيلِ رُطَبٍ فَوَضَعْتُهُ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَ، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ عَرِيشُكَ يَا جَابِرُ؟ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: افْرُشْ لِي فِيهِ، فَفَرَشْتُهُ فَدَخَلَ فَرَقَدَ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ فَجِئْتُهُ بِقَبْضَةٍ أُخْرَى فَأَكَلَ مِنْهَا، ثُمَّ قَامَ فَكَلَّمَ الْيَهُودِيَّ فَأَبَى عَلَيْهِ فَقَامَ فِي الرِّطَابِ فِي النَّخْلِ الثَّانِيَةَ، ثُمَّ قَالَ: يَا جَابِرُ، جُدَّ وَاقْضِ فَوَقَفَ فِي الْجَدَادِ فَجَدَدْتُ مِنْهَا مَا قَضَيْتُهُ وَفَضَلَ مِنْهُ فَخَرَجْتُ حَتَّى جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَشَّرْتُهُ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، عُرُوشٌ وَعَرِيشٌ بِنَاءٌ". وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مَعْرُوشَاتٍ مَا يُعَرَّشُ مِنَ الْكُرُومِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، يُقَالُ: عُرُوشُهَا أَبْنِيَتُهَا.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن ابی ربیعہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مدینہ میں ایک یہودی تھا اور وہ مجھے قرض اس شرط پر دیا کرتا تھا کہ میری کھجوریں تیار ہونے کے وقت لے لے گا۔ جابر رضی اللہ عنہ کی ایک زمین بئررومہ کے راستہ میں تھی۔ ایک سال کھجور کے باغ میں پھل نہیں آئے۔ پھل چنے جانے کا جب وقت آیا تو وہ یہودی میرے پاس آیا لیکن میں نے تو باغ سے کچھ بھی نہیں توڑا تھا۔ اس لیے میں آئندہ سال کے لیے مہلت مانگنے لگا لیکن اس نے مہلت دینے سے انکار کیا۔ اس کی خبر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی تو آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ چلو، یہودی سے جابر رضی اللہ عنہ کے لیے ہم مہلت مانگیں گے۔ چنانچہ یہ سب میرے باغ میں تشریف لائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس یہودی سے گفتگو فرماتے رہے لیکن وہ یہی کہتا رہا کہ ابوالقاسم میں مہلت نہیں دے سکتا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو آپ کھڑے ہو گئے اور کھجور کے باغ میں چاروں طرف پھرے پھر تشریف لائے اور اس سے گفتگو کی لیکن اس نے اب بھی انکار کیا پھر میں کھڑا ہوا اور تھوڑی سی تازہ کھجور لا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تناول فرمایا پھر فرمایا جابر! تمہاری جھونپڑی کہاں ہے؟ میں نے آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں میرے لیے کچھ فرش بچھا دو۔ میں نے بچھا دیا تو آپ داخل ہوئے اور آرام فرمایا پھر بیدار ہوئے تو میں ایک مٹھی اور کھجور لایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے بھی تناول فرمایا پھر آپ کھڑے ہوئے اور یہودی سے گفتگو فرمائی۔ اس نے اب بھی انکار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ باغ میں کھڑے ہوئے پھر فرمایا کہ جابر! جاؤ اب پھل توڑو اور قرض ادا کر دو۔ آپ کھجوروں کے توڑے جانے کی جگہ کھڑے ہو گئے اور میں نے باغ میں سے اتنی کھجوریں توڑ لیں جن سے میں نے قرض ادا کر دیا اور اس میں سے کھجوریں بچ بھی گئی پھر میں وہاں سے نکلا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خوشخبری سنائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث میں جو «عروش» کا لفظ ہے «عروش» اور «عريش» عمارت کی چھت کو کہتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ (سورۃ الانعام میں لفظ) «معروشات» سے مراد انگور وغیرہ کی ٹٹیاں ہیں۔ دوسری آیت (سورۃ البقرہ) «عروشها خاویة علی» یعنی اپنی چھتوں پر گرے ہوئے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5443 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5443  
حدیث حاشیہ:
حدیث میں خشک وتر کھجوروں کا ذکر ہے۔
یہی وجہ مطابقت ہے آپ کی دعا کی برکت سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قرض ادا ہو گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5443   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5443  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی وضاحت ہم کسی دوسرے مقام پر کر چکے ہیں۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے تمام کھجوریں توڑ لیں اور ان کے ڈھیر لگا دیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ڈھیر پر بیٹھ گئے اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
وزن کر کے یہودی کا قرض ادا کرو۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی برکت سے سارا قرض اتر گیا اور بہت سی کھجوریں بچ گئیں۔
(2)
اس حدیث میں تازہ اور خشک کھجوروں کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کا حوالہ دیا ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5443   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3666  
´تہائی مال کی وصیت کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ ان کے والد ۱؎ اپنے پیچھے چھ بیٹیاں اور قرض چھوڑ کر جنگ احد میں شہید ہو گئے، جب کھجور توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ میرے والد جنگ احد میں شہید کر دیے گئے ہیں اور وہ بہت زیادہ قرض چھوڑ گئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ کو (وہاں موجود) دیکھیں (تاکہ مجھ سے وصول کرنے کے سلسلے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: جاؤ اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3666]
اردو حاشہ:
(1) اس روایت کا مندرجہ بالا باب سے کوئی تعلق نہیں‘ البتہ آئندہ باب سے تعلق ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ بہت جگہ ایسا کرتے ہیں۔ اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ممکن طویل باب کے آخر میں ایک حدیث باب کی تبدیلی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے لاتے ہوں کہ نیا باب آرہا ہے۔ واللہ أعلم۔
(2) چھ بیٹیاں بعض روایات میں نو کا ذکر ہے۔ ممکن ہے تین شادی شدہ ہوں‘ اس لیے یہاں ان کا ذکر نہیں کیا۔ یہ چھ غیر شادی شدہ تھیں جن کی ذمہ داری حضرت جابر کے ذمے تھی۔ واللہ أعلم۔
(3) بھڑکے دراصل وہ یہودی تھے اور یہودی انتہائی خودغرض، سنگ دل اور بے لحاظ قوم ہیں بلکہ ہر سود خور شخص ایسا ہی ہوتا ہے۔
(4) چکر لگائے برکت کے لیے کھجوروں کی مقدار کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے۔
(5) کم نہیں ہوئی یہ نبی ﷺ کی برکت تھی۔
(6) حاکم کا اپنی رعایا کی ضرورت پوری کرنے کے لیے خود چل کرجانا اور ان کے حق میں سفارش کرنا تاکہ ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کیا جاسکے‘ مستحب عمل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3666   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3670  
´میراث کی تقسیم سے پہلے قرض کی ادائیگی کا بیان اور اس سلسلہ میں جابر رضی الله عنہ کی حدیث کے ناقلین کے اختلاف الفاظ کا ذکر۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد (غزوہ احد میں) انتقال کر گئے اور ان کے ذمہ قرض تھا تو میں نے ان کے قرض خواہوں کے سامنے یہ بات رکھی کہ والد کے ذمہ ان کا جو حق ہے اس کے بدلے (ہمارے باغ کی) کھجوریں لے لیں تو انہوں نے اسے لینے سے انکار کر دیا، وہ سمجھتے تھے کہ اتنی کھجوریں ان کے قرض کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں ہیں تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3670]
اردو حاشہ:
:(1) کسی بھی لمبے واقعے کی تمام تفصیلات ایک حدیث میں ذکر نہیں ہوسکتیں۔ کچھ باتیں ایک روایات میں ہوتی ہیں‘ کچھ دوسری میں‘ وھکذا‘ ا س لیے مختلف روایات ذکر فرمائیں تاکہ واقعے کی تفصیلات واضح ہوجائیں۔ اگر ظاہراً تعارض نظر آئے تو عقلی دلالت سے تطبیق دی جائے گی‘ اس لیے بعض مقامات میں قوسین میں اضافے کیے گئے ہیں۔ (2) اگر ضرورت مند کی حاجت پوری کرنے کی قدرت نہ ہو تو دعا کے ذریعے سے اس کی مدد کی جاسکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3670   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2884  
´مال چھوڑ کر مرنے والے قرضدار کے وارث کو قرض خواہوں سے مہلت دلانا اور اس کے ساتھ نرمی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد انتقال کر گئے اور اپنے ذمہ ایک یہودی کا تیس وسق کھجور کا قرضہ چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس سے مہلت مانگی تو اس نے (مہلت دینے سے) انکار کر دیا، تو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی کہ آپ چل کر اس سے سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور یہودی سے بات کی کہ وہ (اپنے قرض کے بدلے میں) ان کے کھجور کے باغ میں جتنے پھل ہیں لے لے لیکن اس نے انکار کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2884]
فوائد ومسائل:

میت کا قرضہ اولین فرصت میں ادا کرنا چاہیے۔
مگر حسب احوال مہلت لینے میں کوئی حرج نہیں۔
اور مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حتی الامکان نرمی کا معاملہ کرے۔
اور اس قسم کے معاملات میں سفارش کرنا بھی مستحب ہے۔


صحیح بخاری میں اس حدیث کا مضمون کچھ اس طرح ہے۔
حضرت جابر بن عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔
کہ میرے والد احد میں شہید ہوگئے۔
اور چھ بیٹیوں کے ساتھ ساتھ بہت سا قرض بھی چھوڑ گئے۔
جب کھجوریں کاٹنے کا موسم آیا۔
تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں۔
آپ تشریف لائیں تاکہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں۔
(اور مطالبے میں سختی نہ کریں) آپ نے فرمایا: جاؤ اور اپنا تمام پھل ایک جانب ڈھیر کرو۔
چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور پھر آپ کو بلا لایا، جب ان لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو مجھے غضبناک تیز نظروں سے دیکھنے لگے، جب آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تیور دیکھے تو آپ نے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے اور پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کی بلائو، چنانچہ میں ان کےلئے کھجوریں بھرتا اور ناپتا رہا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کی امانت (قرض) ادا کردی۔
اور اللہ کی قسم میں اس بات پرراضی تھا۔
کہ اللہ میرے باپ کی امانت (قرض) پوری کرا دے۔
خواہ میں اپنی بہنوں کےلئے ایک دانہ بھی نہ لے جائوں۔
چنانچہ اللہ کی قسم وہ سب ڈھیر اسی طرح محفوظ رہے۔
اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ڈھیر جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔
ا س میں سے ایک دانہ بھی کم نہ ہوا تھا۔
(صحیح البخاري، الوصایا، حدیث: 2781) اس حدیث میں بیان ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی حساس تھے۔
اور پھر اللہ عزوجل بھی اپنے بندوں کی عزتوں کو کس پراسرارانداز میں محفوظ فرماتا ہے۔
اور ان کے رزق میں واضح برکت ڈال دیتا ہے۔
بشرط یہ کہ ایمان وعمل میں اخلاص ہو اور ایک اللہ ہی پر توکل ہو۔
جعلنا اللہ منھم، آمین۔


وسق کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
کہ ایک وسق ساٹھ صاع کا اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا ہوتا ہے۔
اس حساب سے ایک وسق تقریباً 3 من اور 30 کلو ہو اور 30 وسق کا وزن تقریبا ً 112 من اور 20 کلو ہوا۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2884   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2434  
´میت کی طرف سے قرض ادا کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد وفات پا گئے، اور اپنے اوپر ایک یہودی کے تیس وسق کھجور قرض چھوڑ گئے، جابر رضی اللہ عنہ نے اس یہودی سے مہلت مانگی لیکن اس نے انہیں مہلت دینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ اس سے اس کی سفارش کر دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور آپ نے اس سے بات کی کہ وہ ان کھجوروں کو جو ان کے درخت پر ہیں اپنے قرض کے بدلہ لے لے، لیکن وہ نہیں مانا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے مہلت مانگی، لیکن وہ انہیں مہلت دینے پر بھی راضی نہ ہوا تو رسول اللہ صلی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2434]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد غزوہ احد میں شہید ہوئےتھے۔

(2)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد پر اور بھی بہت سے لوگوں کا قرض تھا۔
ان کے بارے میں دوسری احادیث میں ذکر کیا گیا ہے۔
یہ یہودی ان قرض خواہوں میں سے ایک تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الاستقراض واداء الدیون .......، باب إذا قضی دون حقه أو حلله فھو جائز، حدیث: 2395)

(3)
اس یہودی کےسوا دوسرے قرض خواہوں کو ادائیگی کرتےوقت خود نبیﷺنےماپ کر ہر ایک کو اس كا قرض ادا کیا تھا۔ (صحیح البخاري، الاستقراض، باب الشفاعة فی وضع الدین حدیث: 2405)

(4)
کھانے پینے کی چیزوں میں يہ برکت رسول اللہ ﷺکا معجزہ ہے جو متعدد مواقع پرظاہر ہوا۔

(5)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایمان اتنا زیادہ تھا کہ انھیں معجزہ ظاہر ہونے سے پہلے ہی یقین ہو گیا کہ یہ واقعہ یوں پيشں آئے گا۔
اس سےحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عظمت اورشان کا اظہار ہوتا ہے۔

(6)
وسق ساٹھ صاع کےبرابر ہوتا ہے جس کی کل مقدار ہمارے یہاں کےاعتبار سےتقریباً چار من بنتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2434   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2395  
2395. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے اور ان پر قرض تھا تو قرض خواہوں نے حقوق طلبی میں سختی سے کام لیا۔ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے قرض خواہوں سے فرمایا کہ وہ ان کے باغ کا پھل قبول کر لیں اور ان کے والد کو قرض سے بری کردیں، لیکن ان لوگوں نے اس سے انکار کردیا۔ نبی ﷺ نے انھیں میرا باغ نہ دیا بلکہ مجھ سے فرمایا: کل تمھارے باغ میں آؤں گا۔ چنانچہ آپ ﷺ صبح تشریف لائے تو میرے باغ کا پورا چکر لگایا اور اس کے پھل میں برکت کی دعا فرمائی۔ اس کے بعد میں نے پھل اتارا، اس میں سے قرض خواہوں کا قرض بھی اداکردیا اور ہمارے لیے کچھ کھجوریں بچ بھی گئیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2395]
حدیث حاشیہ:
مضمون باب اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے شہید صحابی ؓ کے قرض خواہوں سے کچھ قرض معاف کر دینے کے لیے فرمایا۔
جب وہ لوگ تیار نہ ہوئے، تو رسول کریم ﷺ نے حضرت جابر ؓ کے باغ میں دعائے برکت فرمائی۔
جس کی وجہ سے سارا قرض پورا ادا ہونے کے بعد بھی کھجوریں باقی رہ گئیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2395   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2396  
2396. وہب بن کیسان کہتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ نے انھیں بتایا کہ ان کے والد جب فوت ہوئے تو ان پر ایک یہودی کا تیس وسق قرض تھا۔ حضرت جابر ؓ نے اس سے مہلت طلب کی تو اس نے مہلت دینے سے انکار کردیا۔ حضرت جابر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ یہودی سے اس کی سفارش کریں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ یہودی کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے گفتگو کی کہ وہ اپنے قرض کے عوض اس(جابر)کے باغ کی کھجوریں لے لے تو اس نے انکارکردیا۔ تب رسول اللہ ﷺ باغ میں تشریف لے گئے اور اس کا چکر لگایا، پھر حضرت جابر ؓ سے فرمایا: اس کا پھل توڑ کر اس کا قرض ادا کرو۔ چنانچہ حضرت جابر ٍ نے رسول اللہ ﷺ کے واپس جانے کے بعد پھل توڑا اور یہودی کے تیس وسق پورےدے دیے۔ ان کے پاس سترہ وسق کھجور باقی بچ رہی۔ اس کے بعد حضرت جابر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2396]
حدیث حاشیہ:
یہ آپ ﷺ کا معجزہ تھا۔
عرب لوگوں کو کھجور کا جو درختوں پر ہو ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ توڑ کر تولیں ناپیں تو اندازہ بالکل صحیح نکلتا ہے۔
سیر دو سیر کی کمی بیشی ہو تو یہ اور بات ہے۔
یہ نہیں ہوسکتا کہ ڈیوڑھے سے زیادہ فرق نکلے۔
اگر کھجور پہلے ہی سے زیادہ ہوتی تو یہودی خوشی سے باغ کا سب میوہ اپنے قرض کے بدل قبول کرلیتا، مگر وہ تیس وسق سے بھی کم معلوم ہوتا تھا۔
آپ کے وہاں پھرنے اور دعا کرنے کی برکت سے وہ 47وسق ہو گیا۔
یہ امر عقل کے خلاف نہیں ہے حضرت عیسیٰ ؑ اور ہمارے پیغمبر ﷺ سے اس قسم کے معجزات مکرر سہ کرر ظاہر ہوتے رہے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2396   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2781  
2781. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید کردیے گئے۔ انھوں نے پسماندگان میں چھ بیٹیاں اور کافی قرض چھوڑا۔ جب کھجوریں توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ کو یہ معلوم ہی ہے کہ میرے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید کر دیے گئے ہیں اور وہ بہت قرض چھوڑگئے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں (تاکہ قرض میں کچھ رعایت کریں)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤتمام کھجوریں ایک طرف اکٹھی کردو اور ہرقسم الگ الگ رکھو۔ جب میں نے ایسا کر لیا تو پھر رسول اللہ ﷺ کو تشریف لانے کے لیے عرض کیا۔ قرض خواہوں نے آپ ﷺ کو دیکھ کر اور زیادہ سختی شروع کردی۔ آپ ﷺ نے جب ان کا یہ طرز عمل ملاحظہ فرمایا تو آپ نے بڑے ڈھیر کے چاروں طرف تین چکرلگائے، پھر اس پر بیٹھ گے، پھر فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔ چنانچہ آپ نے انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2781]
حدیث حاشیہ:
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے یہود اورنصاریٰ کے درمیان عداوت اور بغض کو بھڑکا دیا۔
حدیث کا لفظ أغروا بي‘ أغرینا ہی کے معنی میں ہے۔
جابر ؓ تو آنحضرت ﷺ کو اس لئے لے گئے تھے کہ آپ ﷺ کودیکھ کر قرض خواہ نرمی کریں گے مگر ہو ایہ کہ وہ قرض خواہ اور زیادہ پیچھے پڑ گئے کہ ہمارا سب قرض اداکرو۔
انہوں نے یہ خیال کیا کہ جب آنحضرت ﷺ جابر ؓ کے پاس تشریف لائے ہیں تو اگر جابر سے کل قرضہ ادا نہ ہو سکے گا تو آنحضرت ﷺ ادا کردیں گے یا ذمہ داری لے لیں گے۔
اس غلط خیال کی بنا پر انہوں نے قرض وصول کرنے کے سلسلے میں اور زیادہ سخت رویہ اختیار کیا جس پر آنحضرت ﷺ نے حضرت جابر ؓ کے باغ میں دعافرمائی اور جو بھی ظاہر ہوا وہ آپ کا کھلا معجزہ تھا۔
یہ حدیث اوپر کئی بار گزر چکی ہے اور حضرت مجتہد مطلق امام بخاری ؒ نے اس سے کئی ایک مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔
یہاں باب کا مطلب یوں نکلا کہ جابر ؓ جو اپنے باپ کے وصی تھے‘ انہوں نے اپنے باپ کا قرض ادا کیا‘ اس وقت دوسرے وارث ان کی بہنیں موجود تھیں ان قرض خواہوں نے اپنا نقصان آپ کیا۔
آنحضرت ﷺ نے ان کو کئی بار سمجھایا کہ تم اپنے قرض کے بدل یہ ساری کجھوریں لے لو‘ انہوں نے کجھوروں کو کم سمجھ کر قبول نہ کیا۔
الحمدللہ کہ کتاب الشروط ختم ہو کر آگے کتاب الجہاد شروع ہو رہی ہے۔
جس میں حضرت امام بخاری ؒ نے مسئلہ جہاد کے اوپر پوری پوری روشنی ڈالی ہے۔
اللہ پاک خیریت کے ساتھ کتاب الجہاد کو ختم کرائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2781   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4053  
4053. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے اور اپنے اوپر بہت سا قرض اور چھ بیٹیاں چھوڑ گئے تھے۔ جب کھجوریں اتارنے کا موسم آیا تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ میرے باپ اُحد میں شہید ہو گئے ہیں اور بہت سا قرض چھوڑ گئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں اور کچھ رعایت کریں۔ آپ نے فرمایا: تم جا کر کھجوروں کی الگ الگ ڈھیریاں لگاؤ۔ میں نے آپ کے حکم کے مطابق عمل کیا، پھر آپ کو بلانے گیا۔ جب قرض خواہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو اس وقت میرے خلاف اور زیادہ مشتعل ہو گئے۔ آپ نے جب ان کا طرز عمل دیکھا تو آپ نے پہلے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ۔ آپ ﷺ مسلسل انہیں ناپ کر دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4053]
حدیث حاشیہ:
حضرت جابر ؓ رسول کریم ﷺ کو اس خیال سے لائے تھے کہ آپ کو دیکھ کر قرض خواہ کچھ قرض چھوڑدیں گے لیکن نتیجہ الٹا ہوا۔
قرض خواہ یہ سمجھے کہ آنحضرت ﷺ کی جابر ؓ پر نظر عنایت ہے۔
اگر جابر ؓ کے والد کا مال کافی نہ ہوگا تو باقی قرضہ آنحضرت ﷺ خود اپنے پاس سے ادا کردیں گے۔
اس لیے انہوں نے اور سخت تقاضا شروع کیا لیکن اللہ نے اپنے رسول کی دعا قبول کی اور مال میں کافی برکت ہو گئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4053   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2601  
2601. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوہ احد میں شہید ہوئے توان کے قرض خواہوں نے اپنے حقوق کی ادائیگی کا سختی سے مطالبہ کیا۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ سے گفتگو کی۔ آپ نے قرض خواہوں سے کہا کہ وہ میرے باغ کا پھل قبول کرلیں۔ اورمیرے باپ کو قرض کی ذمہ داری سے بری کردیں تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے پھر ان لوگوں کو میرا باغ نہیں دیا اور نہ ان کے لیے پھل ہی تڑوایا بلکہ آپ نے فرمایا: میں تیرے پاس إن شاء اللہ تعالیٰ کل آؤں گا۔ چنانچہ آپ اگلے روزصبح تشریف لائے۔ نخلستان میں چکر لگایا اور پھل میں برکت کی دعا فرمائی، پھر میں نے باغ کا پھل توڑا اور قرض خواہوں کے تمام حقوق ادا کردیے، باغ کےپھل میں سے کچھ بچ بھی رہا۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواجبکہ آپ تشریف فرماتھے۔ میں نے صورت واقعہ سے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے حضرت عمر ؓ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2601]
حدیث حاشیہ:
عینی نے کہا اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جابر کے قرض خواہوں سے یہ سفارش فرمائی کہ باغ میں جتنا میوہ نکلے وہ اپنے قرض کے بدلے لے لو اور جو قرضہ باقی رہے وہ معاف کردو گویا باقی دین کا جابر کو ہبہ ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2601   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2709  
2709. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے والد گرامی شہید ہوئے تو ان کے ذمے قرض تھا۔ میں نے قرض خواہوں کے سامنے ایک تجویز پیش کی کہ وہ اس قرض کے عوض میری تمام کھجوریں قبول کر لیں لیکن انھوں نے انکار کردیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کھجوروں سے ان کاقرض پورا نہیں ہوگا، چنانچہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے ان کاتذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: جب تم کھجوریں توڑکر ان کے لیے مخصوص جگہ میں رکھو تو (مجھے) رسول اللہ ﷺ کو اطلاع کرو۔ میں نے حسب ارشاد جب انھیں توڑ کرکھلیان میں رکھا تو آپ کو اطلاع کی، چنانچہ آپ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ آپ کھجوروں کی ڈھیری کے پاس بیٹھ گئے، پھر ان کے متعلق برکت کی دعا کی اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ اور ان کا قرض ادا کرو۔ اب کوئی شخص ایسا نہ رہا جس کا میرے باپ کے ذمے قرض تھا اور میں نے اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2709]
حدیث حاشیہ:
ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔
عجوہ مدینہ کی کھجور میں بہت اعلیٰ قسم ہے اور لون اس سے کمتر ہوتی ہے۔
آنحضرت ﷺ کی دعا کی برکت سے حضرت جابر ؓ نے اپنا سارا قرض ادا کردیا، پھر بھی کافی بچت ہوگئی۔
خوش نصیب تھے حضرت جابر ؓ جن کو یہ فضیلت نبوی حاصل ہوئی۔
مضمون باب کی ہر شق حدیث ہذا سے ثابت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2709   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2395  
2395. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے اور ان پر قرض تھا تو قرض خواہوں نے حقوق طلبی میں سختی سے کام لیا۔ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے قرض خواہوں سے فرمایا کہ وہ ان کے باغ کا پھل قبول کر لیں اور ان کے والد کو قرض سے بری کردیں، لیکن ان لوگوں نے اس سے انکار کردیا۔ نبی ﷺ نے انھیں میرا باغ نہ دیا بلکہ مجھ سے فرمایا: کل تمھارے باغ میں آؤں گا۔ چنانچہ آپ ﷺ صبح تشریف لائے تو میرے باغ کا پورا چکر لگایا اور اس کے پھل میں برکت کی دعا فرمائی۔ اس کے بعد میں نے پھل اتارا، اس میں سے قرض خواہوں کا قرض بھی اداکردیا اور ہمارے لیے کچھ کھجوریں بچ بھی گئیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2395]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے قرض خواہوں کو حضرت جابر ؓ کے باغ کا پھل لینے کی پیش کش فرمائی لیکن وہ اس پر راضی نہ ہوئے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پھل کی مقدار ان کے قرض سے کم تھی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں راضی کرنا چاہا۔
اس پر امام بخاری ؒ نے اپنے عنوان کی بنیاد رکھی ہے کہ اگر کسی کو اس کے حق سے کم دینا جائز نہ ہوتا تو آپ ایسا کیوں کرتے لیکن کم دینے کی صورت میں حق دار کی رضا مندی شرط ہے، جب وہ راضی نہ ہوئے تو آپ نے اس پر اصرار نہیں کیا بلکہ معاملہ اگلے دن پر چھوڑ دیا (2)
جب آدمی کو قرض کا کچھ حصہ معاف کرنے کا اختیار ہے تو وہ تمام قرض بھی معاف کر سکتا ہے، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔
اس مقام پر امام بخاری ؒ نے ایک وہم دور کیا ہے کہ کسی نے دوسرے سے دس ہزار قرض لینا تھا، جب وہ آٹھ ہزار لینے پر راضی ہو گیا تو دو ہزار مقروض کے ہاں بلا عوض رہ گئے، شاید یہ سود ہو۔
امام بخاری ؒ نے اس وہم کو دور کیا کہ قرض خواہ کو اپنا قرض معاف کرنے کا اختیار ہے، خواہ کچھ حصہ چھوڑ دے یا تمام قرض اس پر صدقہ کر دے۔
قرآن کریم میں اس کا اشارہ موجود ہے۔
(البقرة: 280: 2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2395   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2396  
2396. وہب بن کیسان کہتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ نے انھیں بتایا کہ ان کے والد جب فوت ہوئے تو ان پر ایک یہودی کا تیس وسق قرض تھا۔ حضرت جابر ؓ نے اس سے مہلت طلب کی تو اس نے مہلت دینے سے انکار کردیا۔ حضرت جابر ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ آپ یہودی سے اس کی سفارش کریں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ یہودی کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے گفتگو کی کہ وہ اپنے قرض کے عوض اس(جابر)کے باغ کی کھجوریں لے لے تو اس نے انکارکردیا۔ تب رسول اللہ ﷺ باغ میں تشریف لے گئے اور اس کا چکر لگایا، پھر حضرت جابر ؓ سے فرمایا: اس کا پھل توڑ کر اس کا قرض ادا کرو۔ چنانچہ حضرت جابر ٍ نے رسول اللہ ﷺ کے واپس جانے کے بعد پھل توڑا اور یہودی کے تیس وسق پورےدے دیے۔ ان کے پاس سترہ وسق کھجور باقی بچ رہی۔ اس کے بعد حضرت جابر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے تاکہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2396]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ قرض کی ادائیگی میں سستی اور کاہلی کی جاتی ہے، یعنی اس میں وہ بات جائز ہوتی ہے جو عام لین دین میں جائز نہیں ہوتی، چنانچہ خشک کھجور کے عوض درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجور دینا جائز نہیں صرف محدود پیمانے پر عرایا میں جائز ہے۔
لیکن قرض کی ادائیگی اس انداز سے ہو سکتی ہے کیونکہ حضرت جابر ؓ نے یہودی کو خشک کھجوروں کے عوض تازہ کھجوریں ادا کیں تاکہ باپ کا قرض اتر جائے۔
اس یہودی نے اپنے قرض کے عوض باغ کی تازہ کھجوریں یک مشت وصول کر لیں، جبکہ رسول اللہ ﷺ اس سے سارے باغ کی کھجوریں لینے کی پیشکش کر چکے تھے، لیکن وہ اس کے قرض سے کم معلوم ہوتی تھیں، اس لیے وہ اس پر راضی نہ ہوا۔
اگر کھجوریں زیادہ ہوتیں تو یہودی خوشی سے اس پیشکش کو قبول کر لیتا۔
رسول اللہ ﷺ کی دعا سے اس باغ سے 47 وسق کھجوریں اتریں۔
(2)
حضرت عمر ؓ کو بتانے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو اس یہودی پر بڑا غصہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ سفارش کے لیے اس کے پاس چل کر گئے لیکن وہ اپنا حق ساقط کرنے پر راضی نہ ہوا۔
رسول اللہ ﷺ نے انہیں اطلاع دی تاکہ ان کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے، نیز حضرت عمر ؓ کو حضرت جابر ؓ کے والد کے قرض کی بہت فکر لاحق رہتی تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں اطلاع دینا مناسب خیال فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2396   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2601  
2601. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد غزوہ احد میں شہید ہوئے توان کے قرض خواہوں نے اپنے حقوق کی ادائیگی کا سختی سے مطالبہ کیا۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور آپ سے گفتگو کی۔ آپ نے قرض خواہوں سے کہا کہ وہ میرے باغ کا پھل قبول کرلیں۔ اورمیرے باپ کو قرض کی ذمہ داری سے بری کردیں تو انھوں نے صاف انکار کردیا۔ رسول اللہ ﷺ نے پھر ان لوگوں کو میرا باغ نہیں دیا اور نہ ان کے لیے پھل ہی تڑوایا بلکہ آپ نے فرمایا: میں تیرے پاس إن شاء اللہ تعالیٰ کل آؤں گا۔ چنانچہ آپ اگلے روزصبح تشریف لائے۔ نخلستان میں چکر لگایا اور پھل میں برکت کی دعا فرمائی، پھر میں نے باغ کا پھل توڑا اور قرض خواہوں کے تمام حقوق ادا کردیے، باغ کےپھل میں سے کچھ بچ بھی رہا۔ پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواجبکہ آپ تشریف فرماتھے۔ میں نے صورت واقعہ سے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے حضرت عمر ؓ سے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2601]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے قرض خواہوں سے سفارش کی کہ وہ حضرت جابر ؓ کے باغ کا پھل قبول کر لیں اور باقی ماندہ قرض معاف کر دیں۔
اگر وہ اس پیشکش کو قبول کر لیتے تو اس سے حضرت جابر ؓ کے باپ کی قرض سے براءت ہو جاتی۔
دراصل ایسا کرنا قرض خواہ کی طرف سے مقروض کو قرض ہبہ کر دینا ہے۔
اس واقعے سے معلوم ہوا کہ قرض کے معاملے میں ایسا کرنا جائز ہے۔
اگر ایسا کرنا جائز نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ قرض خواہوں سے اس قسم کی سفارش نہ کرتے۔
شرعی اعتبار سے ایسا معاملہ کرنے میں کوئی برائی نہیں۔
(2)
حدیث کی اپنے عنوان سے مطابقت بالکل واضح ہے لیکن علامہ عینی نے اسے تکلف قرار دیا ہے بلکہ اسے معنوی مطابقت کہا ہے۔
(عمدة القاري: 424/9)
مولانا امین احسن اصلاحی نے عینی کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ روایت غیر متعلق ہے۔
مزید کہا ہے:
میں بھی کہتا ہوں کہ باب سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
(تدبرحدیث: 357/2)
یہ ہے ان حضرات کی امانت و دیانت اور ان کا مبلغ علم اور علمی بصیرت۔
تدبر حدیث میں اس طرح کے متعدد شاہکار دیکھے جا سکتے ہیں، ہم انہیں جمع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بإذن اللہ تعالیٰ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2601   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2709  
2709. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میرے والد گرامی شہید ہوئے تو ان کے ذمے قرض تھا۔ میں نے قرض خواہوں کے سامنے ایک تجویز پیش کی کہ وہ اس قرض کے عوض میری تمام کھجوریں قبول کر لیں لیکن انھوں نے انکار کردیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کھجوروں سے ان کاقرض پورا نہیں ہوگا، چنانچہ میں نبی کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے ان کاتذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: جب تم کھجوریں توڑکر ان کے لیے مخصوص جگہ میں رکھو تو (مجھے) رسول اللہ ﷺ کو اطلاع کرو۔ میں نے حسب ارشاد جب انھیں توڑ کرکھلیان میں رکھا تو آپ کو اطلاع کی، چنانچہ آپ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمر ؓ کے ہمراہ تشریف لائے۔ آپ کھجوروں کی ڈھیری کے پاس بیٹھ گئے، پھر ان کے متعلق برکت کی دعا کی اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ اور ان کا قرض ادا کرو۔ اب کوئی شخص ایسا نہ رہا جس کا میرے باپ کے ذمے قرض تھا اور میں نے اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2709]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت جابر ؓ نے اپنے والد گرامی کے قرض کے عوض انہیں باغ کا پورا پھل پیش کیا کہ وہ اس کی کھجوریں لے لیں اور میرے باپ کو قرض سے رہا کر دیں، لیکن انہوں نے اس پیشکش کو قبول نہ کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق کچھ نہ کہا، جس کا مطلب یہ ہے قرض کے متعلق قرض خواہوں سے کسی بھی طریقے سے صلح ہو سکتی ہے۔
(2)
اس روایت میں اوقات نماز کے متعلق اختلاف بیان ہوا ہے۔
یہ اختلاف نقصان دہ نہیں کیونکہ اصل مقصود تو رسول اللہ ﷺ کی برکت بتانا تھا جو کھجوروں میں پیدا ہوئی۔
اسے راویوں نے بیان کیا ہے۔
تعیین نماز میں اختلاف سے اصل روایت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
دراصل حضرت جابر ؓ اپنے قرض خواہوں کا قرض ادا کر کے بار بار رسول اللہ ﷺ کو اطلاع دینے کے لیے آتے ہوں گے۔
بعض قرض خواہوں کا قرض دینے کی اطلاع ظہر کے وقت جبکہ دوسرے گروہ کے قرض کی ادائیگی سے عصر کے وقت مطلع کیا اور تیسرے گروہ کا قرض ادا کر کے مغرب کے وقت اطلاع کی۔
اس طرح تمام روایات اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں۔
(3)
حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کو اطلاع دینے کا مقصد یہ تھا کہ وہ آپ کے معجزے اور حضرت جابر ؓ کے قرض کی ادائیگی سے خوش ہو جائیں کیونکہ یہ حضرات بھی حضرت جابر ؓ کے اس قرض سے بہت فکر مند تھے۔
رضي اللہ عنهم أجمعین (4)
واضح رہے کہ مدینہ طیبہ میں کھجور کی بہت سی قسمیں ہوتی تھیں۔
اس میں عجوہ، کھجور کی بہترین قسم ہے اور لون اس سے کمتر ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی دعا سے ایسی برکت پڑی کہ تمام قرض اور اخراجات ادا کرنے کے بعد بھی کافی کھجوریں بچ گئی۔
حضرت جابر ؓ بڑے خوش نصیب تھے کہ انہیں یہ فیضان نبوی حاصل ہوا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2709   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2781  
2781. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید کردیے گئے۔ انھوں نے پسماندگان میں چھ بیٹیاں اور کافی قرض چھوڑا۔ جب کھجوریں توڑنے کا وقت آیا تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!آپ کو یہ معلوم ہی ہے کہ میرے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید کر دیے گئے ہیں اور وہ بہت قرض چھوڑگئے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں (تاکہ قرض میں کچھ رعایت کریں)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاؤتمام کھجوریں ایک طرف اکٹھی کردو اور ہرقسم الگ الگ رکھو۔ جب میں نے ایسا کر لیا تو پھر رسول اللہ ﷺ کو تشریف لانے کے لیے عرض کیا۔ قرض خواہوں نے آپ ﷺ کو دیکھ کر اور زیادہ سختی شروع کردی۔ آپ ﷺ نے جب ان کا یہ طرز عمل ملاحظہ فرمایا تو آپ نے بڑے ڈھیر کے چاروں طرف تین چکرلگائے، پھر اس پر بیٹھ گے، پھر فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ۔ چنانچہ آپ نے انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2781]
حدیث حاشیہ:
(1)
میت کے قرضوں کی ادائیگی تقسیم ترکہ سے پہلے ضروری ہے۔
ادائیگئ قرض کے وقت ورثاء کا موجود ہونا ضروری نہیں۔
وہ لوگ اجنبیوں کی طرح ہیں۔
مال کا معاملہ وصی کے سپرد ہے۔
ورثاء کو اس میں دخل اندازی کی اجازت نہیں۔
چنانچہ حضرت جابر ؓ نے اپنی بہنوں کی عدم موجودگی میں اپنے باپ کے ذمے قرض ادا کر دیا اور انہیں اطلاع تک نہ دی۔
علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں کہ اس مسئلے میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں۔
(عمدة القاري: 55/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2781   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4053  
4053. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ ان کے والد گرامی غزوہ اُحد میں شہید ہو گئے اور اپنے اوپر بہت سا قرض اور چھ بیٹیاں چھوڑ گئے تھے۔ جب کھجوریں اتارنے کا موسم آیا تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ میرے باپ اُحد میں شہید ہو گئے ہیں اور بہت سا قرض چھوڑ گئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ کو دیکھ لیں اور کچھ رعایت کریں۔ آپ نے فرمایا: تم جا کر کھجوروں کی الگ الگ ڈھیریاں لگاؤ۔ میں نے آپ کے حکم کے مطابق عمل کیا، پھر آپ کو بلانے گیا۔ جب قرض خواہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو اس وقت میرے خلاف اور زیادہ مشتعل ہو گئے۔ آپ نے جب ان کا طرز عمل دیکھا تو آپ نے پہلے سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین چکر لگائے پھر اس پر بیٹھ گئے اور فرمایا: اپنے قرض خواہوں کو بلا لاؤ۔ آپ ﷺ مسلسل انہیں ناپ کر دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4053]
حدیث حاشیہ:

حضرت جابر ؓ رسول اللہ ﷺ کو اس خیال سے قرض خواہوں کے پاس لائے تھے کہ وہ آپ کا لحاظ کریں گے اور کچھ قرض معاف کردیں گے لیکن اس کا نتیجہ برعکس نکلا۔
چونکہ وہ یہودی تھے اور دنیا داری کے رگ وریشے میں رچ بس چکی تھی۔
وہ یہ سمجھے کہ رسول اللہ ﷺ کی جابر ؓ ہر نظر عنایت ہے اگر جابر ؓ کے والد گرامی کا مال کافی نہ ہوا تو باقی قرض خود رسول اللہ ﷺ اپنے پاس سے ادا کردیں گے، اس لیے انھوں نے ادائیگی کے لیے تقاضا مزید سخت کردیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی دعا قبول فرمائی اور مال میں اس قدر برکت پڑگئی کہ قرض کی ادائیگی کے بعد کافی کھجوریں بچ گئیں۔

اس حدیث میں غزوہ احد کے موقع پر حضرت جابر ؓ کے والد گرامی کی شہادت کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
ایک حدیث میں حضرت جابر کی فضیلت بایں طور واقع ہوئی ہے:
حضرت جابر کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ ملے تو میں انتہائی افسردہ تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے وجہ پوچھی تو میں نے عرض کی:
اللہ کے رسول اللہﷺ !میرے والد گرامی غزوہ احد میں شہید ہو گئے ہیں اور اپنے پیچھے اہل وعیال اور کافی قرض چھوڑگئے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں تجھے بتاؤں کہ پروردگارنے تیرے والد کے ساتھ کیا برتاؤ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر سے براہ راست گفتگو نہیں فرمائی۔
تیرے والد کو زندہ کیا اور اس سے بلا واسطہ کلام کیا اور فرمایا:
میرے بندے!کسی خواہش کا اظہار کرو۔
تاکہ میں اسے پورا کروں۔
انھوں نے عرض کی۔
اے اللہ! مجھے زندہ کر کے دنیا میں بھیج دے تاکہ تیرے راستے میں دوبارہ شہید ہو جاؤں۔
اللہ نے فرمایا:
یہ تو میرے ضابطے اور قانون کے خلاف ہے۔
یہ آیت کریمہ ان کے متعلق نازل ہوئی:
جو لوگ اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے ہیں انھیں ہر گز مردہ گمان نہ کریں۔
(آل عمران: 169/3۔
و جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3010)


پہلی حدیث میں حضرت جابر ؓنے بہنوں کا ذکر کیا تھا جبکہ اس حدیث میں چھ کا بیان ہے؟ دراصل حضرت جابر ؓکی کل نو بہنیں تھیں۔
ان میں سے تین شادی شدہ تھیں جو اپنے خاوندوں کے پاس رہتی تھیں اور چھ کنواریاں تھیں جو حضرت جابر کے پاس تھیں۔
(فتح الباري: 447/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4053