مشكوة المصابيح
كتاب الأطعمة
كتاب الأطعمة
سلام تین بار کہا جائے
حدیث نمبر: 4249
وَعَنْ أَنَسٍ أَوْ غَيْرِهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَأْذَنَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فَقَالَ: «السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ» فَقَالَ سَعْدٌ: وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَلَمْ يُسْمِعِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَلَّمَ ثَلَاثًا وَرَدَّ عَلَيْهِ سَعْدٌ ثَلَاثًا وَلَمْ يُسْمِعْهُ فَرَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاتَّبَعَهُ سَعْدٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مَا سَلَّمْتَ تَسْلِيمَةً إِلَّا هِيَ بِأُذُنِي: وَلَقَدْ رَدَدْتُ عَلَيْكَ وَلَمْ أُسْمِعْكَ أَحْبَبْتُ أَنْ أَسْتَكْثِرَ مِنْ سَلَامِكَ وَمِنَ الْبَرَكَةِ ثُمَّ دَخَلُوا الْبَيْتَ فَقَرَّبَ لَهُ زَبِيبًا فَأَكَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ: «أَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ وَأَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُونَ» . رَوَاهُ فِي «شَرْحِ السُّنَّةِ»
انس رضی اللہ عنہ یا ان کے علاوہ کسی صحابی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کی اور فرمایا: ”السلام علیکم ورحمۃ اللہ“ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ، لیکن انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آواز نہ سنائی حتی کہ آپ نے تین مرتبہ سلام کیا اور سعد رضی اللہ عنہ نے بھی تین مرتبہ سلام کا جواب دیا لیکن آپ کو نہ سنایا، جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لے گئے تو سعد رضی اللہ عنہ، آپ کے پیچھے گئے اور عرض کیا، اللہ کے رسول! میرے والدین آپ پر قربان ہوں، آپ نے جتنی بار بھی سلام کیا میں نے اسے سنا اور آپ کو جواب عرض کیا لیکن میں نے آپ کو (اس لیے) نہیں سنایا کہ میں پسند کرتا تھا کہ آپ سے زیادہ سے زیادہ سلامتی اور برکت حاصل کر سکوں، پھر وہ گھر تشریف لائے تو انہوں نے آپ کی خدمت میں منقی پیش کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کھایا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہوئے تو فرمایا: ”نیکوکار تمہارا کھانا کھاتے رہیں، فرشتے تم پر رحمتیں بھیجیں اور روزہ دار تمہارے ہاں افطار کرتے رہیں۔ “ صحیح، رواہ فی شرح السنہ۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «صحيح، رواه البغوي في شرح السنة (282/12. 283 ح 3320) [و أحمد (138/3) والبيھقي (287/7) والطحاوي في مشکل الآثار (498/1، 499) و صححه العراقي و ابن الملقن وغيرھما]
٭ وله شاھد حسن لذاته عند الطحاوي في مشکل الآثار (242/4 ح 1577) و به صح الحديث.»
قال الشيخ الألباني: صَحِيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح