صحيح البخاري
كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
9. بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ:
باب: اس بارے میں کہ سخت گرمی میں ظہر کو ذرا ٹھنڈے وقت پڑھنا۔
حدیث نمبر: 534
حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ: حَدَّثَنَا الْأَعْرَجُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَنَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلَاةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ".
ہم سے ایوب بن سلیمان مدنی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر عبدالحمید بن ابی اویس نے سلیمان بن بلال کے واسطہ سے کہ صالح بن کیسان نے کہا کہ ہم سے اعرج عبدالرحمٰن وغیرہ نے حدیث بیان کی۔ وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مولیٰ نافع عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس حدیث کی روایت کرتے تھے کہ ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو، کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 534 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:534
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے یہاں سے نمازوں کے الگ الگ اوقات بیان کرنا شروع کیے ہیں۔
سب سے پہلے نماز ظہر کے وقت کو بیان کیا ہے، کیونکہ نمازوں کی ابتدا نماز ظہر سے ہوتی ہے۔
جیسا کہ امامت جبرئیل والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
(2)
واضح رہے کہ نماز ظہر کو ٹھنڈا کرکے پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اس وقت پڑھا جائے جب نسبتاً گرمی کم ہو، کیونکہ نماز جب پروردگار سے مناجات کا نام ہے تو مناجات کے آداب و قوانین کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے، چنانچہ گرمی کی شدت میں نماز پڑھنے سے دوچیزوں کاسامنا کرنا پڑے گا جو مناجات کے منافی ہیں:
٭ایسی صورت میں سکون قلب میسر نہ ہو گاجبکہ عبادت میں دل جمعی ضروری ہے۔
٭ گرمی کی شدت، جہنم کی آگ کی بھاپ کی وجہ سے ہے جو غضب الٰہی کی علامت ہے، ایسے وقت میں مناجات کرنا، آداب مناجات کے خلاف ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 534
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 84
´گرمی کے ایام میں ظہر و عصر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا`
«. . . 323- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا اشتد الحر فأبردوا عن الصلاة، فإن شدة الحر من فيح جهنم .“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی شدید ہو جائے تو (ظہر کی) نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس (باہر نکالنے) میں سے ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 84]
تخریج الحدیث: [وأخرجه ابن ماجه 677، من حديث مالك به وروه البخاري 533 من طريق صالح بن كيسان عن الاعرج عن ابي هريره رضي الله عنه]
تفقه:
➊ [صحيح بخاري 536، وصحيح مسلم 615] میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کی دوسری سندیں بھی ہیں۔
➋ گرمی میں ظہر کی نماز ٹھنڈی کرکے پڑھو، کا تعلق سفر سے ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري: 539، باب لإبراد بالظهر فى السفر]
➌ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نمازیں پڑھتے تھے تو گرمی سے بچنے کے لئے اپنے کپڑوں پر سجدہ کرتے تھے۔ [صحيح بخاري: 542، صحيح مسلم: 220]
◄ اس پر اجماع ہے کہ ظہر کا وقت زوال کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے۔ [الافصاح لا بن هبيره 76/1]
➍ جلیل القدر ثقہ تابعی سوید بن غفلہ رحمہ اللہ نماز ظہر اول وقت ادا کرنے پر اس قدر ڈٹے ہوئے تھے کہ مرنے کے لئے تیار ہوگئے مگر یہ گوارا نہ کیا ہ ظہر کی نماز تاخیر سے پڑھیں اور لوگوں کو بتایا کہ ہم سیدنا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے پیچھے اول وقت نماز ظہر ادا کیا کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 323/1 ح 3271 وسنده حسن]
● سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک نماز ظہر کا وقت دہپہر میں زوالِ شمس ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 323/1 ح 3270 وسنده صحيح، حبیب بن شہاب بن مدلج العنبری وابوہ ثقتان]
➎ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہنم کے سانس باہر نکالنے کی وجہ سے گرمی کی شدت ہوتی ہے لیکن اگر کسی علاقے میں موانع ہوں مثلاً اونچے پہاڑ، برف، درخت اور ائر کنڈیشنر وغیرہ تو وہاں یہ شدت محسوس نہیں ہوتی۔ استثنائی حالتوں کی وجہ سے صحیح حدیث پر رد کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو انکار حدیث کے مرتکب ہیں اور قرآن کو رسول کے بغیر سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔!
➏ نیز دیکھئے [الموطأ حديث 376، مسلم 617/186]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 323