صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانوں کے بیان میں
34. بَابُ الرَّجُلِ يَتَكَلَّفُ الطَّعَامَ لإِخْوَانِهِ:
باب: اپنے دوستوں اور مسلمان بھائیوں کی دعوت کے لیے کھانا تکلف سے تیار کرائے۔
حدیث نمبر: 5434
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ:" كَانَ مِنْ الْأَنْصَارِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: أَبُو شُعَيْبٍ، وَكَانَ لَهُ غُلَامٌ لَحَّامٌ، فَقَالَ: اصْنَعْ لِي طَعَامًا أَدْعُو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ، فَدَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ، فَتَبِعَهُمْ رَجُلٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ دَعَوْتَنَا خَامِسَ خَمْسَةٍ وَهَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبِعَنَا فَإِنْ شِئْتَ أَذِنْتَ لَهُ وَإِنْ شِئْتَ تَرَكْتَهُ، قَالَ: بَلْ أَذِنْتُ لَهُ"، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ، يَقُولُ: إِذَا كَانَ الْقَوْمُ عَلَى الْمَائِدَةِ لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يُنَاوِلُوا مِنْ مَائِدَةٍ إِلَى مَائِدَةٍ أُخْرَى وَلَكِنْ يُنَاوِلُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا فِي تِلْكَ الْمَائِدَةِ أَوْ يَدَعُ.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جماعت انصار میں ایک صاحب تھے جنہیں ابوشعیب کہا جاتا تھا۔ ان کے پاس ایک غلام تھا جو گوشت بیچتا تھا۔ ابوشعیب رضی اللہ عنہ نے ان غلام سے کہا کہ تم میری طرف سے کھانا تیار کر دو۔ میں چاہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت پانچ آدمیوں کی دعوت کروں۔ چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار دوسرے آدمیوں کے ساتھ بلا کر لائے۔ ان کے ساتھ ایک صاحب بھی چلنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم پانچ آدمیوں کی تم نے دعوت کی ہے مگر یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہیں، اگر چاہو تو انہیں اجازت دو اور اگر چاہو منع کر دو۔ ابوشعیب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے انہیں بھی اجازت دے دی۔ محمد بن یوسف نے بیان کیا کہ میں نے محمد بن اسماعیل سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ جب لوگ دستر خوان پر بیٹھے ہوں تو انہیں اس کی اجازت نہیں ہے کہ ایک دستر خوان والے دوسرے دستر خوان والوں کو اپنے دستر خوان سے اٹھا کر کوئی چیز دیں۔ البتہ ایک ہی دستر خوان پر ان کے شرکاء کو اس میں سے کوئی چیز دینے نہ دینے کا اختیار ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5434 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5434
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت اس سے نکلی کہ اس نے خاص پانچ آدمیوں کا کھانا تیار کرایا تو ضرور اس میں تکلف کیا ہوگا۔
معلوم ہواکہ میزبان کو اختیار ہے کہ جو بن بلائے چلا آئے اس کو اجازت دے یا نہ دے۔
بن بلائے دعوت میں جانا حرام ہے مگر جب یہ یقین ہو کہ میزبان اس کے جانے سے خوش ہوگا اور دونوں میں بے تکلفی ہو تو درست ہے۔
اسی طرح اگر عام دعوت ہے تو اس میں بھی جانا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5434
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5434
حدیث حاشیہ:
(1)
ابو شعیب نامی صحابئ جلیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں انتہائی تکلف کیا کہ سپیشل ایک ماہر آدمی سے گوشت تیار کرایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ چھٹے آدمی کو دعوت میں شریک کرنا تکلف ہے۔
(2)
بہرحال مہمانوں اور بھائیوں کی دعوت کے موقع پر تکلف کرنا جائز اور مباح ہے۔
ان کے لیے گوشت کا اہتمام کرنا ایک پسندیدہ خصلت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ دنیا و آخرت میں گوشت تمام کھانوں کا سردار ہے۔
واللہ اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5434
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1099
´بغیر دعوت کے ولیمہ میں جانے کا حکم۔`
ابومسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ابوشعیب نامی ایک شخص نے اپنے ایک گوشت فروش لڑکے کے پاس آ کر کہا: تم میرے لیے کھانا بنا جو پانچ آدمیوں کے لیے کافی ہو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر بھوک کا اثر دیکھا ہے، تو اس نے کھانا تیار کیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے کے لیے آدمی بھیجا۔ تو اس نے آپ کو اور آپ کے ساتھ جو لوگ بیٹھے تھے سب کو کھانے کے لیے بلایا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (چلنے کے لیے) اٹھے، تو آپ کے پیچھے ایک اور شخص بھی چلا آیا، جو آپ کے ساتھ اس وقت نہیں تھا جب آپ کو دعوت دی گئی تھی۔ جب رسول اللہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1099]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہواکہ بغیردعوت کے کسی کے ساتھ طفیلی بن کر دعوت میں شریک ہو نا غیراخلاقی حرکت ہے،
تاہم اگر صاحب دعوت سے اجازت لے لی جائے تواس کی گنجائش ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1099
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2081
2081. حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ انصار کا ایک آدمی آیا جس کی کنیت ابو شعیب تھی، اس نے اپنے قصاب غلام سے کہا: میرے لیے کھانا تیار کرو جو پانچ اشخاص کو کافی ہو کیونکہ میرا ارادہ نبی کریم ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کی دعوت کرنے کا ہے، اس لیے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے چہرہ انور پر بھوک کے اثرات دیکھتا ہوں۔ پھر اس نے ان حضرات کو دعوت دی تو ان کے ساتھ ایک اور آدمی بھی شامل ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " یہ شخص ہمارے ساتھ چلا آیا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اجازت دے دیں اور اگر آپ اس کا واپس چلا جانا پسند کریں تو یہ واپس چلا جائے گا۔ "اس نے عرض کیا: نہیں بلکہ میں اس کو بھی اجازت دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2081]
حدیث حاشیہ:
یعنی وہ طفیلی بن کر چلا آیا، اس شخص کا نام معلوم نہ ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب خانہ سے اجازت لی تاکہ اس کا دل خوش ہو اور ابوطلحہ کی دعوت میں آپ نے یہ اجازت نہ لی کیوں کی ابوطلحہ نے دعوتیوں کی تعداد مقرر نہیں کی تھی اور اس شخص نے پانچ کی تعداد مقرر کر دی تھی۔
اس لیے آپ نے اجازت کی ضرورت سمجھی۔
حدیث میں قصاب کا ذکر ہے اور گوشت بیچنے والوں کا۔
اسی سے اس پیشہ کا جواز ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2081
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2456
2456. حضرت ابو مسعود سے روایت ہے کہ ابو شعیب نامی انصاری کاایک غلام تھا جو گوشت پکانے میں مہارت ر کھتاتھا۔ ابوشعیب نے اس سے کہا: پانچ آدمیوں کاکھانا تیار کرو، میں نبی کریم ﷺ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ پانچ اشخاص میں سے پانچویں ہوں گے، اس نے نبی کریم ﷺ کے چہرہ انور میں بھوک کے آثار دیکھے تھے، چنانچہ جب انھوں نے آپ ﷺ کو دعوت دی تو آپ کے ساتھ ایک صاحب اور آگئے جس کو کھانے کی دعوت نہیں تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”یہ صاحب ہمارے ساتھ آگئے ہیں۔ کیا آپ اسے اجازت دیتے ہیں؟“ ابو شعیب نے کہا: جی ہاں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2456]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس باب کا مطلب بھی اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ بن بلائے دعوت میں جانا اور کھانا کھانا درست نہیں، مگر جب صاحب خانہ اجازت دے تو درست ہوگیا۔
اس حدیث سے حضور نبی کریم ﷺ کی رافت اور رحمت پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ ﷺ کو کسی کا بھوکا رہنا گوارا نہ تھا۔
ایک باخدا بزرگ انسان کی یہی شان ہونی چاہئے۔
صلی اللہ علیه وسلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2456
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5461
5461. سیدنا ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ انصار میں ایک ابو شعیب نامی آدمی تھے اور انکا غلام گوشت فروش تھا۔ (ابو شعیب ؓ) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صحابہ کرام ؓ میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے آپ کے چہرہ مبارک سے فاقہ کشی کا اندازہ لگایا، چنانچہ وہ اپنے گوشت فروش غلام کے پاس آئے اور کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا كهنانا تيار كر دو،ميں نبی ﷺ چار دوسرے ٓدميوں كے ہمراہ دعوت دینے والا ہوں۔ اس (غلام) نے کھانا تیار کر دیا۔ اس کے بعد ابو شعیب ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو کھانے کی دعوت دی۔ ان کے ہمراہ ایک اور آدمی بھی چلنے لگا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے شعیب!یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہیں۔ اگر تم چاہو تو اسے اجازت دے دو اور اگر چاہو تو اسے چھوڑو۔“ انہوں نے کہا: نہیں بلکہ میں اسے بھی اجازت دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5461]
حدیث حاشیہ:
مگر اس طرح ہر کسی کے گھر چلے جانا یا کسی کو اپنے ساتھ میں لے جانا جائز نہیں ہے، کوئی مخلص دوست ہو تو بات الگ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5461
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2081
2081. حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ انصار کا ایک آدمی آیا جس کی کنیت ابو شعیب تھی، اس نے اپنے قصاب غلام سے کہا: میرے لیے کھانا تیار کرو جو پانچ اشخاص کو کافی ہو کیونکہ میرا ارادہ نبی کریم ﷺ سمیت پانچ آدمیوں کی دعوت کرنے کا ہے، اس لیے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے چہرہ انور پر بھوک کے اثرات دیکھتا ہوں۔ پھر اس نے ان حضرات کو دعوت دی تو ان کے ساتھ ایک اور آدمی بھی شامل ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " یہ شخص ہمارے ساتھ چلا آیا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اجازت دے دیں اور اگر آپ اس کا واپس چلا جانا پسند کریں تو یہ واپس چلا جائے گا۔ "اس نے عرض کیا: نہیں بلکہ میں اس کو بھی اجازت دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2081]
حدیث حاشیہ:
(1) (الحكام)
گوشت بیچنے والے کواور (جزار)
اونٹ ذبح کرنے والے کو کہتے ہیں، جبکہ قصاب بکریاں وغیرہ ذبح کرنے والے کو کہا جاتا ہے۔
جب جوازیا کراہت کا حکم ایک قسم میں ثابت ہوگیا تو عموم علت کی وجہ سے باقی قسموں میں بھی ثابت ہوگا۔
(2)
حدیث میں قصاب کا ذکر ہے کہ اس کا پیشہ اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں،اس بنا پر گوشت بیچنے اور اونٹ ذبح کرنے کا پیشہ اختیار کرنا بھی جائز ہے،البتہ امام بخاری رحمہ اللہ کے ذوق کے مطابق اس حدیث کی وضاحت بایں طور ہوگی کہ جب ملی جلی کھجوروں کی خریدوفروخت جائز ہے تو گوشت کا ہڈیوں سمیت بیچنا بھی جائز ہے۔
آپ نے پہلے عنوان سے کچھ ترقی کی ہے کیونکہ روی اور عمدہ کھجوریں ایک ہی جنس سے تھیں جبکہ پٹھے اور ہڈیاں،گوشت کی قسم نہیں ہیں،اس کے باوجود گوشت کے ساتھ پٹھے اور ہڈیاں فروخت کرنا جائز ہے۔
(3)
واضح رہے کہ بن بلائے مہمان کو طفیلی کہا جاتا ہے۔
اگر صاحب خانہ اسے اجازت دے تو وہ شامل ہوسکتا ہے بصورت دیگر اسے واپس جانا ہوگا۔
والله اعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2081
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2456
2456. حضرت ابو مسعود سے روایت ہے کہ ابو شعیب نامی انصاری کاایک غلام تھا جو گوشت پکانے میں مہارت ر کھتاتھا۔ ابوشعیب نے اس سے کہا: پانچ آدمیوں کاکھانا تیار کرو، میں نبی کریم ﷺ کی دعوت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ ﷺ پانچ اشخاص میں سے پانچویں ہوں گے، اس نے نبی کریم ﷺ کے چہرہ انور میں بھوک کے آثار دیکھے تھے، چنانچہ جب انھوں نے آپ ﷺ کو دعوت دی تو آپ کے ساتھ ایک صاحب اور آگئے جس کو کھانے کی دعوت نہیں تھی۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”یہ صاحب ہمارے ساتھ آگئے ہیں۔ کیا آپ اسے اجازت دیتے ہیں؟“ ابو شعیب نے کہا: جی ہاں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2456]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے دعوت کے آداب کا پتا چلتا ہے کہ میزبان جن لوگوں کو بلائے صرف انہی حضرات کو دعوت میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے، دعوت کے بغیر شریک ہونا ایک نامعقول حرکت ہے۔
اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو مہمان میزبان کو ضرور مطلع کر دے، تاہم مروت و اخلاق کا تقاضا ہے کہ میزبان ایسے شخص کو بے عزت نہ کرے بلکہ دعوت میں شمولیت کی اجازت دے دے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے میزبان کی اجازت سے عنوان ثابت کیا ہے کہ یہ اس کا حق ہے اور کھانے میں شمولیت کو اس کی اجازت پر موقوف رکھا ہے، اگر وہ اجازت دے تو جائز ہے بصورتِ دیگر دعوت میں شرکت کرنا اس کی حق تلفی ہے، جس کے متعلق دنیا اور آخرت میں باز پرس ہو سکتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2456
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5461
5461. سیدنا ابو مسعود انصاری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ انصار میں ایک ابو شعیب نامی آدمی تھے اور انکا غلام گوشت فروش تھا۔ (ابو شعیب ؓ) نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ آپ صحابہ کرام ؓ میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے آپ کے چہرہ مبارک سے فاقہ کشی کا اندازہ لگایا، چنانچہ وہ اپنے گوشت فروش غلام کے پاس آئے اور کہا کہ میرے لیے پانچ آدمیوں کا كهنانا تيار كر دو،ميں نبی ﷺ چار دوسرے ٓدميوں كے ہمراہ دعوت دینے والا ہوں۔ اس (غلام) نے کھانا تیار کر دیا۔ اس کے بعد ابو شعیب ؓ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو کھانے کی دعوت دی۔ ان کے ہمراہ ایک اور آدمی بھی چلنے لگا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اے شعیب!یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ آ گئے ہیں۔ اگر تم چاہو تو اسے اجازت دے دو اور اگر چاہو تو اسے چھوڑو۔“ انہوں نے کہا: نہیں بلکہ میں اسے بھی اجازت دیتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5461]
حدیث حاشیہ:
کسی کے دعوت کرنے پر دوسرے کو ساتھ لے جانے کا اصرار کرنا حالات و ظروف پر منحصر ہے۔
ہر کسی کے گھر میں دوسرے کو ساتھ لے جانا جائز نہیں۔
کوئی مخلص دوست ہو تو الگ بات ہے، البتہ اس کے متعلق دعوت ملتے ہی کہہ دینا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فرمایا:
”یہ بھی میرے ہمراہ ہو گی۔
“ اگر پہلے سے معاملہ نہیں ہوا تو اہل خانہ کی صوابدید پر موقوف ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔
اگر وہ چاہیں تو اسے اجازت دے دیں اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو اسے واپس بھیج دیا جائے۔
بہرحال موقع محل کو ضرور دیکھنا ہو گا۔
علی الاطلاق ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5461