مشكوة المصابيح
كتاب الصيد والذبائح
كتاب الصيد والذبائح
مرغ کا گوشت کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 4118
وَعَن أبي السَّائِب قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ فَبَيْنَمَا نحنُ جلوسٌ إِذ سمعنَا تَحت سَرِيره فَنَظَرْنَا فَإِذَا فِيهِ حَيَّةٌ فَوَثَبْتُ لِأَقْتُلَهَا وَأَبُو سَعِيدٍ يُصَلِّي فَأَشَارَ إِلَيَّ أَنِ اجْلِسْ فَجَلَسْتُ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَشَارَ إِلَى بَيْتٍ فِي الدَّارِ فَقَالَ: أَتَرَى هَذَا البيتَ؟ فَقلت: نعم فَقَالَ: كَانَ فِيهِ فَتًى مِنَّا حَدِيثُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ قَالَ: فَخَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْخَنْدَقِ فَكَانَ ذَلِكَ الْفَتَى يَسْتَأْذِنُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْصَافِ النَّهَارِ فَيَرْجِعُ إِلَى أَهْلِهِ فَاسْتَأْذَنَهُ يَوْمًا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذْ عَلَيْكَ سِلَاحَكَ فَإِنِّي أَخْشَى عَلَيْكَ قُرَيْظَةَ» . فَأَخَذَ الرَّجُلُ سِلَاحَهُ ثُمَّ رَجَعَ فَإِذَا امْرَأَتُهُ بَيْنَ الْبَابَيْنِ قَائِمَةٌ فَأَهْوَى إِلَيْهَا بِالرُّمْحِ لِيَطْعَنَهَا بِهِ وَأَصَابَتْهُ غَيْرَةٌ فَقَالَتْ لَهُ: اكْفُفْ عَلَيْكَ رُمْحَكَ وَادْخُلِ الْبَيْتَ حَتَّى تَنْظُرَ مَا الَّذِي أَخْرَجَنِي فَدَخَلَ فَإِذَا بِحَيَّةٍ عَظِيمَةٍ مُنْطَوِيَةٍ عَلَى الْفِرَاشِ فَأَهْوَى إِلَيْهَا بِالرُّمْحِ فَانْتَظَمَهَا بِهِ ثُمَّ خَرَجَ فَرَكَزَهُ فِي الدَّارِ فَاضْطَرَبَتْ عَلَيْهِ فَمَا يُدْرَى أَيُّهُمَا كَانَ أَسْرَعَ مَوْتًا: الْحَيَّةُ أَمِ الْفَتَى؟ قَالَ: فَجِئْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ وَقُلْنَا: ادْعُ اللَّهَ يُحْيِيهِ لَنَا فَقَالَ: «اسْتَغْفِرُوا لِصَاحِبِكُمْ» ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ لِهَذِهِ الْبُيُوتِ عَوَامِرَ فَإِذَا رأيتُم مِنْهَا شَيْئا فحرِّجوا عَلَيْهَا ثَلَاثًا فإنْ ذَهَبَ وَإِلَّا فَاقْتُلُوهُ فَإِنَّهُ كَافِرٌ» . وَقَالَ لَهُمْ: «اذْهَبُوا فَادْفِنُوا صَاحِبَكُمْ» وَفِي رِوَايَةٍ قَالَ: «إِنَّ بالمدينةِ جِنَّاً قد أَسْلمُوا فَإِذا رأيتُم مِنْهُم شَيْئًا فَآذِنُوهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنْ بَدَا لَكُمْ بَعْدَ ذَلِكَ فَاقْتُلُوهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ» . رَوَاهُ مُسلم
ابوسائب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، ہم ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اس اثنا میں ہم نے ان کی چارپائی کے نیچے کوئی آہٹ سنی، ہم نے دیکھا کہ وہ سانپ تھا، میں اسے قتل کرنے کے لیے جلدی سے اٹھا جبکہ ابوسعید رضی اللہ عنہ نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے مجھے اشارہ کیا کہ میں بیٹھ جاؤں، میں بیٹھ گیا، جب وہ فارغ ہوئے تو انہوں نے گھر میں ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: یہ کمرہ دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، انہوں نے فرمایا: اس کمرے میں ہمارا ایک نوبیاہتا نوجوان تھا، انہوں نے فرمایا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ خندق کی طرف نکلے، وہ نوجوان نصف النہار کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت حاصل کر کے اپنی اہلیہ کے پاس آ جایا کرتا تھا، چنانچہ ایک روز اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”اپنا اسلحہ ساتھ لے جاؤ کیونکہ مجھے تمہارے متعلق بنو قریظہ کا خطرہ ہے۔ “ اس نے اپنا اسلحہ لیا اور اپنے گھر کی طرف چل دیا (جب وہ گھر کے قریب پہنچا تو) اس نے دیکھا کہ اس کی اہلیہ دروازے پر ہے، اس نے غیرت میں آ کر اس کی طرف نیزہ بڑھایا تاکہ وہ اسے مارے، اس نے اسے کہا اپنا نیزہ روکیں اور کمرے میں جا کر دیکھیں کہ وہ کون سی چیز ہے جس نے مجھے باہر نکلنے پر مجبور کیا ہے، وہ داخل ہوا تو اس نے ایک بہت بڑے اژدھے کو کنڈل مارے زمین پر دیکھا تو اس نے نیزہ اس میں گھونپ دیا، پھر وہ باہر آ گیا اور اسے گھر میں گاڑ دیا سانپ اس (نیزے) پر تڑپنے لگا، معلوم نہیں ہو سکا کہ ان دونوں میں سے پہلے کون مرا، سانپ یا وہ نوجوان؟ راوی بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا اور ہم نے عرض کیا، اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ اسے ہمارے لیے زندہ فرما دے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے ساتھی کے لیے مغفرت طلب کرو۔ “ پھر فرمایا: ”ان گھروں کے کچھ مکین ہیں، جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو اسے تین بار گھر سے نکلنے پر مجبور کرو اگر وہ چلا جائے (تو ٹھیک) ورنہ اسے مار دو، کیونکہ وہ کافر ہے۔ “ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ میں جِن ہیں، جو اسلام قبول کر چکے ہیں، جب تم ان میں سے کوئی چیز دیکھو تو اسے تین روز خبردار کرو، پھر اگر اس کے بعد بھی ظاہر ہو تو اسے قتل کر دو، کیونکہ وہ تو شیطان ہے۔ “ رواہ مسلم۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه مسلم (2236/140)»
قال الشيخ الألباني: صَحِيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح