صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانوں کے بیان میں
12. بَابُ الْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ:
باب: مومن ایک آنت میں کھاتا ہے (اور کافر سات آنتوں میں)۔
حدیث نمبر: 5395
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ:" كَانَ أَبُو نَهِيكٍ رَجُلًا أَكُولًا، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ الْكَافِرَ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ"، فَقَالَ: فَأَنَا أُومِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے کہ ابونہیک بڑے کھانے والے تھے۔ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کافر ساتوں آنتوں میں کھاتا ہے۔ ابونہیک نے اس پر عرض کیا کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5395 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5395
حدیث حاشیہ:
سات آنتوں میں کھانے اور ایک آنت میں کھانے سے جو کچھ اللہ اور رسول کی مراد ہے بغیر کرید کئے میرا اس پر ایمان ہے، اس میں رد ہے ان لوگوں کا بھی جنہوں نے قول اطباء سے صرف چھ آنتوں کا ہونا نقل کیا ہے۔
حالانکہ اطباء کے قول کے آگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ایک مومن مسلمان کے لیے بہت بڑی حقیقت رکھتا ہے۔
پس آمنا بقول رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5395
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5395
حدیث حاشیہ:
(1)
ابو نہیک مکہ مکرمہ کا رہنے والا تھا۔
اس کے کہنے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ سات آنتوں میں کھانے اور ایک آنت میں کھانے سے جو اللہ اور اس کے رسول کی مراد ہے کرید کیے بغیر میرا اس پر ایمان ہے۔
(2)
بہرحال کافر کے کھانے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
”اور جو کافر ہیں وہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور حیوانوں کی طرح کھاتے ہیں۔
آخر کار ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔
“ (محمد: 12)
اس لیے ایک مومن کو چاہیے کہ وہ زیادہ کھانے کی عادت چھوڑ دے اور تھوڑے کھانے پر قناعت کرے تاکہ اللہ کی عبادت میں سستی واقع نہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5395
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1818
´مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنت میں۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کافر سات آنت میں کھاتا ہے اور مومن ایک آنت میں کھاتا ہے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1818]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
علماء نے اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں:
(1)
مومن اللہ کانام لے کر کھانا شروع کرتا ہے،
اسی لیے کھانے کی مقدار اگر کم ہے تب بھی اسے آسودگی ہوجاتی ہے،
اور کافر چونکہ اللہ کا نام لیے بغیر کھاتا ہے اس لیے اسے آسودگی نہیں ہوتی،
خواہ کھانے کی مقدار زیادہ ہو یا کم۔
(2)
مومن دنیاوی حرص طمع سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے،
اسی لیے کم کھاتا ہے،
جب کہ کافر حصول دنیا کا حریص ہوتا ہے اسی لیے زیادہ کھاتا ہے۔
(3)
مومن آخرت کے خوف سے سر شار رہتا ہے اسی لیے وہ کم کھا کربھی آسودہ ہو جاتا ہے،
جب کہ کافر آخرت سے بے نیاز ہوکر زندگی گزارتا ہے،
اسی لیے وہ بے نیاز ہوکر کھاتا ہے،
پھر بھی آسودہ نہیں ہوتا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1818
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:685
685- عمر و بن دینار کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گیا: مکہ کا ایک شخص ابو نہیک بہت زیادہ کھاتا ہے، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کا فر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔“ راوی کہتے ہیں:تو وہ صاحب بولے: جہاں تک میرا تعلق ہے، تو میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہوں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:685]
فائدہ:
علماء نے اس کی مختلف توجیہات کی ہیں:
① مومن اللہ تعالیٰ کا نام لے کر کھانا شروع کرتا ہے اس لیے کھانے کی مقدار اگر کم ہے تب بھی اسے آسودگی ہو جاتی ہے اور کافر چونکہ اللہ تعالیٰ کا نام لیے بغیر کھاتا ہے اس لیے اسے آسودگی نہیں ہوتی، خواہ کھانے کی مقدار زیادہ ہو یا کم
② مؤمن دنیاوی حرص وطمع سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے، اس لیے کم کھاتا ہے۔ جبکہ کافرحصول دنیا کا حریص ہوتا اس لیے زیادہ کھا تا ہے۔
③ مؤمن آخرت کے خوف سے سرشار رہتا ہے اس لیے وہ کم کھا کر بھی آسودہ ہو جاتا ہے۔ جبکہ کافر آخرت سے بے نیاز ہو کر زندگی گزارتا ہے، اس لیے وہ بے نیاز ہو کر کھا تا ہے۔ پھر بھی آسودہ نہیں ہوتا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 685
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5374
امام نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ایک مسکین آدمی کو دیکھا اور اس کے سامنے کھانا رکھنے لگے، اس کے آگے رکھتے رہے اور وہ خوب کھانے لگا تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: یہ میرے پاس بالکل نہ آئے، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: ”کافر ہی سات آنتوں میں کھاتا ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5374]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کھانے کے وقت کسی نہ کسی کو بلاتے تھے اور اس کو کھانے میں شریک کرتے تھے،
اس لیے جب اس مسکین میں کافروں والی خوب پیٹ بھر کر کھانے کی خصلت دیکھی تو کہا،
آئندہ اس کو میرے کھانے میں شرکت کے لیے نہ لایا جائے،
بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے،
یہ آدمی ابونہیک آدمی بسیار خور تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5374
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5393
5393. سیدنا نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر ؓ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک ان کے ساتھ کے لیے کسی مسکین کو نہ لایا جاتا۔ میں ایک دن ایک شخص کو لایا جو آپ کے ساتھ کھانا کھائے تو اس نے بہت کھانا کھایا۔ بعد میں انہوں نے مجھے کہا: اسے نافع! آئندہ اس شخص کو میرے ساتھ کھانے کے لیے نہ لانا۔ میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے آپ نے فرمایا: ”مومن ایک آنت میں کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5393]
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اسوہ پر عمل کرنے کی سعادت عطا کرے کہ کھانے کے وقت کسی نہ کسی مسکین کو یاد کر لیا کریں۔
ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشند خدائے بخشندہ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5393
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5394
5394. سیدنا ابن عمر ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر یا منافق، مجھے معلوم نہیں کہ عبید اللہ نے ان دونوں میں سے کسی کا ذکر کیا سات آنتوں میں کھاتا ہے۔“ ابن بکیر نے کہا: ان سے امام مالک نے، ان سے سیدنا نافع نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی ﷺ نے اسی حدیث کی طرح بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5394]
حدیث حاشیہ:
حدیث کا مقصد یہ ہے کہ کافر بہت کھاتا ہے اور مومن کم کھاتا ہے۔
ایک کی بہت زیادہ پر خوری کو بیان کرنے کے لیے یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5394
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5393
5393. سیدنا نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر ؓ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک ان کے ساتھ کے لیے کسی مسکین کو نہ لایا جاتا۔ میں ایک دن ایک شخص کو لایا جو آپ کے ساتھ کھانا کھائے تو اس نے بہت کھانا کھایا۔ بعد میں انہوں نے مجھے کہا: اسے نافع! آئندہ اس شخص کو میرے ساتھ کھانے کے لیے نہ لانا۔ میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے آپ نے فرمایا: ”مومن ایک آنت میں کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5393]
حدیث حاشیہ:
(1)
مسلمان کے کم کھانے اور کافر کے زیادہ کھانے کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مسلمان کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لیتا ہے جس وجہ سے شیطان کو اس کے ساتھ کھانے کا موقع نہیں ملتا، اس لیے جو وہ کھاتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکت شامل ہوتی ہے اور کافر کھانے کے آغاز میں اللہ کا نام نہیں لیتا، اس لیے شیطان اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاتا ہے، اس بنا پر کھانے کی برکت اٹھ جاتی ہے جیسا کہ بہت سی احادیث سے یہ چیز ثابت ہے۔
(2)
اس حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک خوبی بیان ہوئی ہے کہ وہ مساکین کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھلاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس اسوہ پر عمل کرنے کی توفیق دے۔
آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5393
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5394
5394. سیدنا ابن عمر ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر یا منافق، مجھے معلوم نہیں کہ عبید اللہ نے ان دونوں میں سے کسی کا ذکر کیا سات آنتوں میں کھاتا ہے۔“ ابن بکیر نے کہا: ان سے امام مالک نے، ان سے سیدنا نافع نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی ﷺ نے اسی حدیث کی طرح بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5394]
حدیث حاشیہ:
حدیث کا مقصد یہ ہے کہ مومن کم کھانے والا اور کافر زیادہ کھانے والا ہوتا ہے۔
مسلمان اس لیے کم کھاتا ہے کہ پیٹ بھر کر کھانے سے سستی پیدا ہو جاتی ہے اور معدے میں گرانی آ جاتی ہے۔
مسلمان یہ نہیں چاہتا کہ وہ عبادت کرنے میں سستی کرے، نیز زیادہ کھانے سے وضو جلدی ٹوٹ جاتا ہے، حالانکہ کچھ عبادت ایسی ہیں جن میں وضو شرط ہے۔
بہرحال ایک کی کم خوری اور دوسرے کی بسیار خوری بیان کرنے کے لیے یہ انداز اختیار کیا گیا ہے مگر یہ اکثریت کے اعتبار سے ہے کیونکہ بعض لوگ مسلمان ہونے کے باوجود بہت کھاتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5394