صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانوں کے بیان میں
10. بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَأْكُلُ حَتَّى يُسَمَّى لَهُ فَيَعْلَمُ مَا هُوَ:
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کھانا (جو پہچانا نہ جاتا) نہ کھاتے جب تک لوگ بتلا نہ دیتے کہ فلانا کھانا ہے اور آپ کو جب تک معلوم نہ ہو جاتا نہ کھاتے تھے۔
حدیث نمبر: 5391
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ الْأَنْصَارِيُّ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ الَّذِي يُقَالُ لَهُ: سَيْفُ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ" دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَيْمُونَةَ وَهِيَ خَالَتُهُ وَخَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَوَجَدَ عِنْدَهَا ضَبًّا مَحْنُوذًا قَدْ قَدِمَتْ بِهِ أُخْتُهَا حُفَيْدَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ مِنْ نَجْدٍ، فَقَدَّمَتِ الضَّبَّ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ قَلَّمَا يُقَدِّمُ يَدَهُ لِطَعَامٍ حَتَّى يُحَدَّثَ بِهِ وَيُسَمَّى لَهُ فَأَهْوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ إِلَى الضَّبِّ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ النِّسْوَةِ الْحُضُورِ: أَخْبِرْنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدَّمْتُنَّ لَهُ، هُوَ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَنِ الضَّبِّ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: أَحَرَامٌ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ، قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيَّ".
ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن یعلیٰ نے خبر دی، کہا ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے ابوامامہ بن سہل بن حنیف انصاری نے خبر دی، انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جو سیف اللہ (اللہ کی تلوار) کے لقب سے مشہور ہیں، خبر دی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے۔ ام المؤمنین ان کی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ ہیں۔ ان کے یہاں بھنا ہوا ساہنہ موجود تھا جو ان کی بہن حفیدہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا نجد سے لائی تھیں۔ انہوں نے وہ بھنا ہوا ساہنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے کے لیے اس وقت تک ہاتھ بڑھائیں جب تک آپ کو اس کے متعلق بتا نہ دیا جائے کہ یہ فلاں کھانا ہے لیکن اس دن آپ نے بھنے ہوئے ساہنے کے گوشت کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اتنے میں وہاں موجود عورتوں میں سے ایک عورت نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا کیوں نہیں دیتیں کہ اس وقت آپ کے سامنے جو تم نے پیش کیا ہے وہ ساہنہ ہے، یا رسول اللہ! (یہ سن کر) آپ نے اپنا ہاتھ ساہنہ سے ہٹا لیا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ! کیا ساہنہ حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں لیکن یہ میرے ملک میں چونکہ نہیں پایا جاتا، اس لیے طبیعت پسند نہیں کرتی۔ خالد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے کھایا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ رہے تھے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5391 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5391
حدیث حاشیہ:
اس سے صاف ساہنہ کی حلت نکلتی ہے۔
قسطلانی نے کہا ائمہ اربعہ اس کی حلت کے قائل ہیں اور طحاوی نے جو حنفی ہیں، اس کی حلت کو ترجیح دی ہے مگر متاخرین حنفیہ جیسے صاحب ہدایہ نے اس کو مکروہ لکھا ہے اور ابوداؤد کی حدیث سے دلیل لی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب کھانے سے منع فرمایا مگر یہ حدیث ضعیف ہے جو صحیح حدیث ہے مقابلہ پر قابل استدلال نہیں ہے۔
بیان میں حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی والدہ لبابہ صغریٰ تھیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی والدہ لبابہ کبریٰ تھیں۔
یہ دونوں حارث کی بیٹی ہیں اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5391
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5391
حدیث حاشیہ:
عرب کے ہاں غذائی اشیاء کی قلت تھی، اس لیے وہ کسی چیز سے نفرت نہیں کرتے تھے اور نہ انہیں گھن ہی آتی تھی۔
ان کے سامنے جو چیز بھی آتی اسے کھا لیتے، اس کے متعلق سوال نہ کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال و حرام کی پابندی کرنے والے تھے لیکن آپ جنگلی حیوانات کے بارے میں پوری پوری معلومات نہ رکھتے تھے، اس لیے آپ کھانے سے پہلے اس کے متعلق سوال کرتے کہ یہ کیا ہے؟ معلوم ہونے کے بعد اگر کھانے کے قابل ہوتی تو کھا لیتے بصورت دیگر اسے ترک کر دیتے۔
بندۂ مسلم کو بھی اس کی پیروی کرنا ضروری ہے، چنانچہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ یہ سانڈے کا گوشت ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہاتھ کھینچ لیا۔
(صحیح مسلم، حدیث: 5040 (1948)
چونکہ یہ حرام نہیں تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بلکہ آپ کے سامنے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے کھا لیا اور آپ نے انہیں کچھ نہ کہا۔
(فتح الباري: 662/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5391
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5400
´بھنا ہوا گوشت کھانا`
«. . . عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، قَالَ:" أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ، فَأَهْوَى إِلَيْهِ لِيَأْكُلَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ ضَبٌّ، فَأَمْسَكَ يَدَهُ، فَقَالَ خَالِدٌ: أَحَرَامٌ هُوَ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّهُ لَا يَكُونُ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ، فَأَكَلَ خَالِدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ . . .»
”. . . خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھنا ہوا ساہنہ پیش کیا گیا تو آپ اسے کھانے کے لیے متوجہ ہوئے۔ اسی وقت آپ کو بتایا گیا کہ یہ ساہنہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا یہ حرام ہے؟ فرمایا کہ نہیں لیکن چونکہ یہ میرے ملک میں نہیں ہوتا اس لیے طبیعت اسے گوارا نہیں کرتی۔ پھر خالد رضی اللہ عنہ نے اسے کھایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ: 5400]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5400 کا باب: «بَابُ الشِّوَاءِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ترجمۃ الباب سے بھنا ہوا گوشت کے کھانے کے بارے میں ہے کہ اسے کھانا درست ہے، تحت الباب ضب والی روایت نقل فرمائی ہے، ضب تو آپ علیہ السلام نے طبیع ناگواری کی وجہ سے تناول نہیں فرمایا اور غور طلب پہلو یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس کے مشوی اور بھنے ہوئے ہونے پر اعتراض نہیں فرمایا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کی نکیر فرمائی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ بھنا ہوا گوشت کھانے میں مضائقہ نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام ابن بطال رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ:
«واشار ابن بطال إلى أن أخذ الحكم للترجمة ظاهر من جهة أنه صلى الله عليه وسلم أهدى ليأكل ثم لم يمتنع الا لكونه ضباً فلو كان غير ضب لأكل.» [فتح الباري لابن حجر: 463/10]
”ترجمۃ الباب کے لیے اخذ حکم اس جہت سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے لیے آگے ہوئے صرف اس کے ساہنہ کی وجہ سے ممتنع رہے، گویا اگر وہ نہ ہوتا تو یہ بھنا ہوا گوشت تناول فرماتے۔“
قریب قریب یہی توجیہ ابن الملقن نے بھی دی، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«والحديث ظاهر لما ترجم له وهو جواز أكل الشواء، لأنه صلى الله عليه وسلم أهدى ليأكل منه، لو كان مما لا يتقزز أكله غير الضب.» [التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 150/26]
لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب اس لیے تناول نہیں فرمایا تھا کہ وہ آپ کی طبیعت مبارک کو پسند نہ تھا، حالانکہ وہ بھنا ہوا تھا، اس کے علاوہ اگر کوئی اور بھنا ہوا گوشت ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے تناول فرماتے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھنی ہوئی اشیاء پر نکیر نہیں فرمائی، لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
نوٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھیں کہ ساہنہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام نہیں ٹھہرایا پس یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کو ناگوار تھا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تناول نہیں فرماتے تھے۔ باقی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ علیہ السلام کے سامنے ساہنہ کھاتے تھے لیکن آپ علیہ السلام ان کو روکتے نہ تھے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ساہنہ حلال ہے۔
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ آدمی ساہنہ کھائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام نہیں قرار دیا، یقیناًً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر پر اسے کھایا گیا ہے آپ کی موجودگی میں اگر یہ حرام ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو کھانے کی اجازت نہ دینے۔“
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 129
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 404
´ہر حلال چیز کا کھانا ضروری نہیں`
«. . . عن خالد بن الوليد بن المغيرة المخزومي: انه دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت ميمونة، قال: فاتي بضب محنوذ فاهوى إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، فقال بعض النسوة اللاتي فى بيت ميمونة: اخبروا رسول الله صلى الله عليه وسلم بما يريد ان ياكل منه. فقيل: هو ضب يا رسول الله. فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، قال: فقلت: احرام هو يا رسول الله؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”لا، ولكنه لم يكن بارض قومي فاجدني اعافه . . .»
”. . . سیدنا خالد بن ولید بن مغیرہ المخرومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے تو بھنا ہو ایک سو سمار (سمسار، ضب) آپ کے پاس لایا گیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں بعض عورتوں میں سے کسی نے کہا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جسے کھانا چاہتے ہیں اس کے بارے میں آپ کو بتا دو کہا گیا: یا رسول اﷲ! یہ سمسار (ضب) ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔ میں نے کہا: یا رسو ل اﷲ! کیا یہ حرام ہے؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں لیکن یہ ہماری قوم کے علاقے میں نہیں ہوتی، پس اس لیے میری طبیعت اس سے انکار کرتی ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 404]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5537، من حديث مالك به ورواه مسلم 44/1944، من حديث الزهري به]
تفقه
➊ ہر حلال چیز کا کھانا ضروری نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمسار (سانڈا) کے بارے میں فرمایا: ”نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ میں اسے حرام قرار دیتا ہوں۔“ [الموطأ 1/968 ح1872، وسنده صحيح وصححه الترمذي: 1790]
➋ سمسار (ضب/سانڈا) حلال ہے۔ بعض لوگ اس کا ترجمہ گوہ یا گرگوہ کرتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے بلکہ صرف اللہ ہی عالم الغیب ہے اور یہ اللہ کی صفت خاصہ ہے۔
➍ اپنے دوستوں اور شاگردوں وغیرہم کی بہترین دعوت کرنا جائز ہے۔
➎ حلال و حرام قرار دینے کا اختیار کسی امتی کو نہیں ہے بلکہ اس کا دارومدار کتاب و سنت اور دلائل شرعیہ پر ہے۔
➏ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا، سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم دونوں کی خالہ تھیں۔
➐ گوشت کھانا جائز ہے۔
➑ یہ عین ممکن ہے کہ آدمی پر اپنے علاقے کی بعض مباح عادات و اطوار کا کچھ اثر باقی رہے۔
➒ جس مباح چیز کو دل نہ چاہے اسے چھوڑ دینا جائز ہے۔
➓ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا جائے اور آپ اسے دیکھتے ہوئے خاموشی اختیار کریں تو اسے تقریری حدیث کہتے ہیں اور یہ بھی قولی و فعلی حدیث کی طرح حجت ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 70
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4321
´ضب کا بیان۔`
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھنا ہوا ضب لایا گیا اور آپ کے قریب رکھا گیا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تاکہ اس سے کھائیں، تو وہاں موجود کچھ لوگوں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو ضب کا گوشت ہے، آپ نے اس سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا، اس پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا کہ اللہ کے رسول! کیا ضب حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں، لیکن میری قوم کی زمین میں نہیں تھا، لہٰذا مجھے اس سے گھن آ رہی ہے“، پھر خالد رضی اللہ عنہ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4321]
اردو حاشہ:
(1) کسی حلال چیز سے مطلقاً نفرت کرنا یا طبیعت کو اس کا اچھا نہ لگنا اس کی حرمت کو لازم نہیں، تفصیل گزشتہ حدیث کے فوائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔
(2) کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینا صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ اس کے سوا کوئی شخص طبعی کراہت یا کسی اور وجہ سے کسی حلال چیز کو حرام قرار نہیں دے سکتا۔
(3) حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی کھانے پر عیب نہیں لگاتے تھے جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ بظاہر تعارض ہے، دونوں میں کیا تطبیق ہے؟ تعارض والی کوئی بات نہیں کیونکہ کسی چیز کی ناپسندیدگی اور چیز ہے اور اس پر عیب لگانا اور ہے۔ عیب لگانا تو یہ ہے کہ کوئی شخص یا اہل خانہ آپ کے لیے چیز پکائیں اور آپ اس پکی پکائی چیز میں کیڑے نکالنا شروع کر دیں وغیرہ۔
(4) حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اچھے لوگوں کی طبیعتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سانڈے کا گوشت کھانے سے کراہت محسوس فرمائی جبکہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے کھا لیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4321
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3241
´ضب (صحرائے نجد میں پائے جانے والے گوہ) کا بیان۔`
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی ضب (گوہ) لائی گئی، اور آپ کو پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۱؎، تو وہاں موجود ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے (یہ سن کر) آپ نے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، خالد رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ضب (گوہ) حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، لیکن وہ میرے علاقہ میں نہیں ہوتی اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں“، (یہ سن کر) خالد رض۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3241]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جوچیز دل کواچھی نہ لگے اسے نہ کھانا جائز ہے۔
یہ حلال چیز کو حرام قرار دینے میں شامل نہیں۔
(2)
میرے علاقے میں۔
اور ایک روایت میں (بارض قومی)
میری قوم کے علاقے میں۔
اس سے مراد مکہ مکرمہ اور اس کے قریب و جوار کا علاقہ ہے جوقریش کامسکن تھا۔
حجاز کے دوسرے حصوں میں ضب (سانڈے)
بکثرت موجود ہیں۔ (فتح الباری: 9/ 822)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3241
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5537
5537. سیدنا خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ام المومنین سیدہ میمونہ ؓ کے گھر گئے تو آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بھنا ہوا سانڈا پیش کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا کہ اہل خانہ میں سے کسی عورت نے کہا کہ آپ جو کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے متعلق آپ کو بتا دو۔ حاضرین نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سانڈے کا گوشت ہے، چنانچہ آپ نے کھانے سے اپنا ہاتھ کھنیچ لیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ چونکہ یہ میری قوم کی سرزمین میں نہیں ہوتا، اس لیے مجھے اس سے گھن آتی ہے۔“ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے کھانا شروع کر دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5537]
حدیث حاشیہ:
کوئی کھائے یا نہ کھائے یہ امر اختیاری ہے مگر ساہنہ کا کھانا بلا تردد جائز وحلال ہے۔
جیسا کہ یہاں احادیث میں مذکور ہے۔
امام احمد اور امام طحاوی نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساہنہ کے گوشت کی ہانڈیاں الٹ دی تھیں۔
یہ اس پر محمول ہے کہ پہلے آپ کو اس کے مسخ ہونے کا گمان تھا پھر یہ گمان جاتا رہا اور آپ نے صحابہ کو اس کے کھانے کی اجازت دی۔
حضرت خالد رضی اللہ عنہ اللہ کی تلوار سے ملقب ہیں جو سنہ 21ھ میں فوت ہوئے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5537
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5400
5400. سیدنا خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ بھنا ہوا سانڈا پیش کیا گیا۔ جب آپ نے اسے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپ سے کہا گیا: یہ تو سانڈا ہے۔ آپ ﷺ نے سن کر دست مبارک روک لیا۔ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے عرض کی: اللہ کےرسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(حرام تو نہیں) لیکن میری قوم کی سر زمین میں نہیں پایا جاتا اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں۔“ چنانچہ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے اسے کھانا شروع کر دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھےامام مالک نے ابن شہاب سے (ضب مشوي کے بجائے) ضب محنوذ کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5400]
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب حضرت امام بخاری نے اس حدیث سے یوں نکالا کہ صرف ساہنہ ہونے کی وجہ سے وہ گوشت آپ نے چھوڑ دیا ورنہ کھانے کو بھنا گوشت کھانا ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5400
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5400
5400. سیدنا خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ کی خدمت میں ایک مرتبہ بھنا ہوا سانڈا پیش کیا گیا۔ جب آپ نے اسے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپ سے کہا گیا: یہ تو سانڈا ہے۔ آپ ﷺ نے سن کر دست مبارک روک لیا۔ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے عرض کی: اللہ کےرسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(حرام تو نہیں) لیکن میری قوم کی سر زمین میں نہیں پایا جاتا اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں۔“ چنانچہ سیدنا خالد بن ولید ؓ نے اسے کھانا شروع کر دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھےامام مالک نے ابن شہاب سے (ضب مشوي کے بجائے) ضب محنوذ کے الفاظ نقل کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5400]
حدیث حاشیہ:
(1)
بھنا ہوا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھنا ہوا گوشت تناول فرمایا ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اس طرح عنوان ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن سانڈا ہونے کی وجہ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، اگر وہ سانڈا نہ ہوتا تو آپ اسے ضرور کھاتے۔
شارح بخاری ابن بطال رحمہ اللہ نے اسی طرح لکھا ہے۔
(فتح الباري: 671/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5400
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5537
5537. سیدنا خالد بن ولید ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ام المومنین سیدہ میمونہ ؓ کے گھر گئے تو آپ ﷺ کی خدمت میں ایک بھنا ہوا سانڈا پیش کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا کہ اہل خانہ میں سے کسی عورت نے کہا کہ آپ جو کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے متعلق آپ کو بتا دو۔ حاضرین نے کہا: اللہ کے رسول! یہ سانڈے کا گوشت ہے، چنانچہ آپ نے کھانے سے اپنا ہاتھ کھنیچ لیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ چونکہ یہ میری قوم کی سرزمین میں نہیں ہوتا، اس لیے مجھے اس سے گھن آتی ہے۔“ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے کھانا شروع کر دیا جبکہ رسول اللہ ﷺ دیکھ رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5537]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے اسے کھانا پسند نہیں کیا لیکن آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے کھانے سے منع بھی نہیں کیا، اس لیے جسے پسند ہو کھا لے اور جسے پسند نہ ہو وہ نہ کھائے۔
کسی کا کھانا نہ کھانا ایک اختیاری امر ہے مگر سانڈا کھانا جائز اور حلال ہے۔
(2)
عربوں کے ہاں سانڈا کھانے کا عام رواج تھا بلکہ تقریبات میں خصوصی کھانے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، چنانچہ یزید بن اصم کہتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں ہم ایک شادی کی تقریب میں شامل ہوئے تو اہل خانہ نے ہمیں تیرہ سانڈے پیش کیے۔
ہم میں سے کچھ حضرات نے کھایا اور بعض نے اسے ترک کر دیا۔
(صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5040 (1948)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے بہت لوگوں کو نفع پہنچاتا ہے۔
یہ چرواہوں کی خوراک ہے۔
اگر میرے پاس ہوں تو میں انہیں ضرور کھاؤں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبعی کراہت کی وجہ سے انہیں نہیں کھایا تھا۔
(صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5042 (1950) (3)
بالعموم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انہیں نہ کھانے کے متعلق دو سبب بیان کیے جاتے ہیں:
٭ مکہ مکرمہ اور اس کے آس پاس سانڈے نہیں پائے جاتے تھے، اس لیے آپ کو گھن آتی تھی اور آپ نے اسے ناپسند فرمایا اور کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔
٭ اس میں ایک ناگوار سی بو ہوتی ہے، اس لیے آپ نے اسے کھانا پسند نہیں کیا۔
آپ نے فرمایا:
میرے پاس اللہ کی طرف سے آنے والے (فرشتے)
ہیں جیسا کہ آپ لہسن وغیرہ نہیں کھاتے تھے۔
(فتح الباري: 822/9)
بہرحال آپ نے سانڈا نہیں کھایا، خواہ اس کی کوئی بھی وجہ ہو، لیکن ناپسندیدگی کے باوجود آپ نے اسے حرام قرار نہیں دیا بلکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
”تم کھاؤ کیونکہ یہ حلال ہے۔
“ (صحیح مسلم، الأطعمة، حدیث: 5032 (1944)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5537