صحيح البخاري
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ
کتاب: کھانوں کے بیان میں
8. بَابُ الْخُبْزِ الْمُرَقَّقِ وَالأَكْلِ عَلَى الْخِوَانِ وَالسُّفْرَةِ:
باب: (میدہ کی باریک) چپاتیاں کھانا اور خوان (دبیز) اور دستر خوان پر کھانا۔
حدیث نمبر: 5385
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ أَنَسٍ وَعِنْدَهُ خَبَّازٌ لَهُ، فَقَالَ:" مَا أَكَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُبْزًا مُرَقَّقًا وَلَا شَاةً مَسْمُوطَةً حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ".
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، ان سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہا کہ ہم انس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے، اس وقت ان کا روٹی پکانے والا خادم بھی موجود تھا۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی چپاتی (میدہ کی روٹی) نہیں کھائی اور نہ ساری دم پختہ بکری کھائی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5385 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5385
حدیث حاشیہ:
حدیث میں لفظ ''مسموطة'' ہے یعنی وہ بکری جس کے بال گرم پانی سے دور کيے جائیں، پھر چمڑے سمیت بھون لی جائے۔
یہ چھوٹے بچے کے ساتھ کرتے ہیں چونکہ اس کا گوشت نرم ہوتا ہے یہ دنیا دار مغرور لوگوں کا فعل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5385
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5385
حدیث حاشیہ:
(1)
مُرقق، میدے کی پتلی روٹی کو کہتے ہیں۔
عربوں کے ہاں آٹا چھاننے کے لیے چھلنی نہیں ہوا کرتی تھی، اس لیے وہ بغیر چھانے آٹے کی روٹی تیار کرتے تھے، نیز سادگی کی وجہ سے بھی ایسا ہوتا تھا۔
(2)
ابن بطال نے کہا ہے کہ میدے کی پتلی روٹی جائز اور مباح ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زہد اور دنیا سے بے رغبتی کی بنا پر میدے کی باریک چپاتی نہیں کھاتے تھے بلکہ آپ کو جو کچھ میسر ہوتا اسے ترجیح دیتے تھے۔
(عمدة القاري: 396/14) (3)
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو ان کے لیے بہترین کھانا تیار کرتا اور کئی قسم کا سالن بناتا، اس کے علاوہ گھی میں آٹا گوندھ کر روٹی تیار کرتا تھا، اس لیے چپاتی کا استعمال جائز ہے۔
(فتح الباري: 658/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5385