مشكوة المصابيح
كتاب الحدود
كتاب الحدود
ایک چور کے ہاتھ کاٹنے کے بعد توبہ کروانے کا بیان
حدیث نمبر: 3612
وَعَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الْمَخْزُومِيِّ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى بِلِصٍّ قَدِ اعْتَرَفَ اعْتِرَافًا وَلَمْ يُوجَدْ مَعَهُ مَتَاعٌ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا أَخَالُكَ سَرَقْتَ» . قَالَ: بَلَى فَأَعَادَ عَلَيْهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَعْتَرِفُ فَأَمَرَ بِهِ فَقُطِعَ وَجِيءَ بِهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَغْفِرِ اللَّهَ وَتُبْ إِلَيْهِ» فَقَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللَّهُمَّ تُبْ عليهِ» ثَلَاثًا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ هَكَذَا وجدتُ فِي الْأُصُول الْأَرْبَعَة وجامع الْأُصُول وَشُعَبُ الْإِيمَانِ وَمَعَالِمُ السُّنَنِ عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ
ابوامیہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا، اس نے اعتراف جرم کر لیا لیکن اس سے مال برامد نہ ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”میرا خیال ہے کہ تم نے چوری نہیں کی۔ “ اس نے عرض کیا، کیوں نہیں، ضرور کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو یا تین مرتبہ یہ بات دہرائی لیکن وہ ہر مرتبہ اعتراف کرتا رہا، آپ نے اس کے متعلق حکم فرمایا تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ اور پھر اسے آپ کے پاس لایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کے حضور توبہ کرو۔ “ اس نے عرض کیا: میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس کے حضور توبہ کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا: ”اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما۔ “ اور میں نے اصول اربعہ، جامع الاصول، شعب الایمان اور معالم السنن میں ابوامیہ سے اسی طرح پایا ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ و الدارقطنی۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «سنده ضعيف، رواه أبو داود (4380) و النسائي (67/8 ح 4881) و ابن ماجه (2597) والدارقطني (173/2 ح 2308)
٭ أبو المنذر لا يعرف و في الباب حديث النسائي (89/8. 90 ح 4980) وسنده صحيح و صححه الحاکم (380/4) وھو يغني عنه.»
قال الشيخ الألباني: لم تتمّ دراسته
قال الشيخ زبير على زئي: سنده ضعيف