مشكوة المصابيح
كتاب الحدود
كتاب الحدود
تم نے ماعز کو بھاگنے کیوں نہ دیا؟
حدیث نمبر: 3565
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَ مَاعِزٌ الْأَسْلَمِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنَّه قدْ زَنى فأعرضَ عَنهُ ثمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّهِ الْآخَرِ فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ زنى فَأَعْرض عَنهُ ثمَّ جَاءَ من شقَّه الْآخَرِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ زَنى فَأَمَرَ بِهِ فِي الرَّابِعَةِ فَأُخْرِجَ إِلَى الْحَرَّةِ فَرُجِمَ بِالْحِجَارَةِ فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ فَرَّ يَشْتَدُّ حَتَّى مَرَّ بِرَجُلٍ مَعَهُ لَحْيُ جَمَلٍ فَضَرَبَهُ بِهِ وَضَرَبَهُ النَّاسُ حَتَّى مَاتَ. فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنه فرحين وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ وَمَسَّ الْمَوْتِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلَّا تَرَكْتُمُوهُ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَفِي رِوَايَةٍ: «هَلَّا تَرَكْتُمُوهُ لَعَلَّه أَن يَتُوب الله عَلَيْهِ»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے عرض کیا کہ اس نے زنا کیا ہے، آپ نے اس سے اعراض فرمایا، پھر وہ دوسری طرف سے آیا اور عرض کیا، کہ اس نے زنا کیا ہے، آپ نے پھر اس سے اعراض فرمایا تو وہ دوسری جانب سے آ گیا اور عرض کیا، اللہ کے رسول! اس نے زنا کیا ہے، چوتھی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے متعلق حکم فرمایا: اور اسے حرہ (مدینہ کے دو پہاڑوں کے درمیان پتھریلی جگہ) کی طرف لے جایا گیا وہاں اسے پتھروں سے رجم کر دیا گیا، جب اس نے پتھر لگنے کی تکلیف محسوس کی تو وہ تیزی سے بھاگ کھڑا ہوا حتی کہ وہ ایک آدمی کے پاس سے گزرا جس کے پاس اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی تو اس نے وہ اسے دے ماری اور لوگ بھی اسے مارنے لگے حتی کہ وہ فوت ہو گیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا کہ جب اس نے پتھروں کی تکلیف اور موت محسوس کی تو وہ بھاگ اٹھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ ��آلہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا؟“ اور ایک روایت میں ہے: ”تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا شاید کے وہ توبہ کر لیتا تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده حسن، رواه الترمذي (1428) وابن ماجه (2554) [و أبو داود (4419، الرواية الثانية)]»
قال الشيخ الألباني: صَحِيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن