Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب النَّفَقَاتِ
کتاب: خرچہ دینے کے بیان میں
14. بَابُ: {وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ} ، وَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ مِنْهُ شَيْءٌ؟
باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ البقرہ میں) یہ فرمانا کہ بچے کے وارث (مثلاً بھائی چچا وغیرہ) پر بھی یہی لازم ہے۔
{وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ} إِلَى قَوْلِهِ: {صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ}.
‏‏‏‏ اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نحل میں) فرمایا «وضرب الله مثلا رجلين أحدهما أبكم‏» کہ اللہ دوسروں کی مثال بیان کرتا ہے ایک تو گونگا جو کچھ بھی قدرت نہیں رکھتا۔ آخر آیت «صراط مستقيم‏» تک۔
حدیث نمبر: 5369
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قُلْتُ:" يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ لِي مِنْ أَجْرٍ فِي بَنِي أَبِي سَلَمَةَ أَنْ أُنْفِقَ عَلَيْهِمْ وَلَسْتُ بِتَارِكَتِهِمْ هَكَذَا وَهَكَذَا إِنَّمَا هُمْ بَنِيَّ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَكِ أَجْرُ مَا أَنْفَقْتِ عَلَيْهِمْ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہیں ہشام نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے، انہیں زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا مجھے ابوسلمہ (ان کے پہلے شوہر) کے لڑکوں کے بارے میں ثواب ملے گا اگر میں ان پر خرچ کروں۔ میں انہیں اس محتاجی میں دیکھ نہیں سکتی، وہ میرے بیٹے ہی تو ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، تمہیں ہر اس چیز کا ثواب ملے گا جو تم ان پر خرچ کرو گی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5369 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5369  
حدیث حاشیہ:
(1)
بچے کی والدہ تو خود اس کے باپ پر بوجھ ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کی ذمہ داری میں ہوتی ہے، جب اس پر اپنا خرچہ واجب نہیں تو بچے کا خرچہ کیسے واجب ہو گا؟ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بیٹوں پر خرچ کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ آپ نے صرف یہ فرمایا کہ جو کچھ تو ان پر خرچ کرے گی تجھے اس کا اجروثواب ضرور ملے گا۔
(2)
جب ماں پر بچے کا خرچہ واجب نہیں تو باپ پر ہو گا۔
جب تک وہ زندہ ہے خود اسے برداشت کرے گا، جب فوت ہو جائے گا تو اس کے ورثاء کے ذمے ہے کہ وہ بچے کے اخراجات برداشت کریں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5369   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1467  
1467. حضرت اُم سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اگر میں ابو سلمہ ؓ کے بیٹوں پر خرچ کروں تو کیا مجھے اجر ملے گا، حالانکہ وہ میرے بھی بیٹے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا:ان پر جو خرچ کروگی۔ تمھیں اس کا ضروراجر ملےگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1467]
حدیث حاشیہ:
محتاج اولاد پر صدقہ خیرات حتی کہ مال ذکوۃ دینے کا جواز ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1467   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1467  
1467. حضرت اُم سلمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اگر میں ابو سلمہ ؓ کے بیٹوں پر خرچ کروں تو کیا مجھے اجر ملے گا، حالانکہ وہ میرے بھی بیٹے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا:ان پر جو خرچ کروگی۔ تمھیں اس کا ضروراجر ملےگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1467]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ و خیرات، فرض ہو یا نفل، بیوی اپنے محتاج خاوند اور ماں اپنے نادار بچوں کو دے سکتی ہے، کیونکہ بیوی کے ذمے خاوند کی اور ماں کے ذمے بچوں کی کفالت نہیں ہے۔
بعض حضرات نے ان احادیث میں صدقے سے نفل صدقہ مراد لیا ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے اس مقام پر زکاۃ مراد لی ہے۔
جیسا کہ عنوان سے پتہ چلتا ہے۔
حدیث کے ظاہر الفاظ حضرت امام بخاری کے مؤید ہیں۔
(2)
حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث میں تھا کہ حضرت زینب زوجہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے خود سوال کیا اور مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت بلال ؓ کو کہا، ان دونوں روایات میں تضاد نہیں۔
ممکن ہے کہ دو الگ الگ واقعات ہوں یا انہوں نے پہلے بلال سے کہا ہو اور بعد میں خود رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا ہو، البتہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ دو واقعات ہیں:
ایک واقعے میں صدقے کے متعلق سوال کا ذکر ہے اور دوسرے میں محض نفقے کے متعلق دریافت کیا گیا کہ ایسا کرنے سے اللہ کے ہاں اجر ملے گا یا نہیں؟ (3)
واضح رہے کہ حدیث میں دوسری عورت حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصارى ؓ کی بیوی حضرت زینب ؓ تھیں۔
(فتح الباري: 414/3) (4)
حدیث ام سلمہ میں یہ صراحت نہیں کہ وہ ان یتیم بچوں پر مال زکاۃ سے خرچ کرتی تھیں، تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ ان پر خرچ کرتی تھیں۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1467