Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مشكوة المصابيح
كتاب القصاص
كتاب القصاص
دیت کا حقدار کون؟
حدیث نمبر: 3500
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَوِّمُ دِيَةَ الْخَطَأِ عَلَى أَهْلِ الْقُرَى أَرْبَعَمِائَةِ دِينَارٍ أَوْ عِدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ وَيُقَوِّمُهَا عَلَى أَثْمَانِ الْإِبِلِ فَإِذَا غَلَتْ رَفَعَ فِي قيمتِها وإِذا هاجَتْ رُخصٌ نَقَصَ مِنْ قِيمَتِهَا وَبَلَغَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ أَرْبَعِمِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِمِائَةِ دِينَارٍ وَعِدْلُهَا مِنَ الْوَرِقِ ثَمَانِيَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ قَالَ: وَقَضَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ وَعَلَى أَهْلِ الشَّاءِ أَلْفَيْ شَاةٍ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الْعَقْلَ مِيرَاثٌ بَيْنَ وَرَثَةِ الْقَتِيلِ» وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَقْلَ الْمَرْأَةِ بَيْنَ عَصَبَتِهَا وَلَا يَرِثُ القاتلُ شَيْئا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دیہاتیوں پر دیت خطا چار سو دینار یا اس کے مساوی چاندی مقرر فرمایا کرتے تھے۔ اور اس میں اونٹوں کی قیمت کا لحاظ رکھتے تھے۔ جب (اونٹوں کی) قیمت بڑھ جاتی تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس (دیت) کی قیمت بڑھا دیتے تھے، اور جب ان کی قیمت کم ہو جاتی تو آپ اس دیت کی قیمت کم کر دیتے تھے اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے عہد میں دیت کی قیمت چار سو دینار سے آٹھ سو دینار تک پہنچ گئی تھی۔ اور چاندی سے اس کے مساوی آٹھ ہزار درہم تک پہنچ گئی تھی، راوی بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے گائے والوں پر دو سو گائیں اور بکریوں والوں پر دو ہزار بکریاں دیت مقرر فرمائی۔ اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بے شک دیت مقتول کے ورثاء کے درمیان میراث ہے۔ اور رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ عورت کی دیت اس کے عصبہ پر ہے، اور قاتل کسی چیز کا وارث نہیں بنے گا۔ حسن، رواہ ابوداؤد و النسائی۔

تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «حسن، رواه أبو داود (4564) و النسائي (42/8. 43 ح 4805)»

قال الشيخ الألباني: لم تتمّ دراسته

قال الشيخ زبير على زئي: حسن