حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَكَمُ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، حَدَّثَنَا عَلِيٌّ،" أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهِمَا السَّلَام أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشْكُو إِلَيْهِ مَا تَلْقَى فِي يَدِهَا مِنَ الرَّحَى وَبَلَغَهَا أَنَّهُ جَاءَهُ رَقِيقٌ فَلَمْ تُصَادِفْهُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ، فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ عَائِشَةُ، قَالَ: فَجَاءَنَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا، فَذَهَبْنَا نَقُومُ، فَقَالَ: عَلَى مَكَانِكُمَا، فَجَاءَ فَقَعَدَ بَيْنِي وَبَيْنَهَا حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى بَطْنِي، فَقَالَ: أَلَا أَدُلُّكُمَا عَلَى خَيْرٍ مِمَّا سَأَلْتُمَا إِذَا أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا أَوْ أَوَيْتُمَا إِلَى فِرَاشِكُمَا؟ فَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَكَبِّرَا أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5361
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کو گھر کے کام کاج روٹی پکانا، صفائی کرنا اور چکی پیسنا وغیرہ کی طاقت ہو اور متعارف ہو کہ وہ یہ کام بآسانی کر سکتی ہے تو شوہر کو اس کے لیے خادمہ کا بندوبست کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تکلیف سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نہیں کہا کہ وہ ان کے لیے خادمہ کا بندوبست کریں یا کم از کم یومیہ اجرت پر کسی نوکرانی کو رکھ لیں جو یہ سارے کام کیا کرے۔
(2)
تسبیح و تحمید میں بہت ثواب ہے۔
ممکن ہے کہ وظیفہ کرنے سے اللہ تعالیٰ ایسی طاقت پیدا کر دے کہ خادمہ کی ضرورت ہی نہ رہے اور خادمہ کی نسبت گھر کے کام سر انجام دینے زیادہ آسان ہو جائیں۔
(3)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کی یہ حالت ہے تو دوسری عورتوں کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو خاندانی اور معزز خیال کر کے گھریلو کام کو اپنے لیے عار محسوس کریں اور انہیں بجا لانے میں ذلت محسوس کریں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5361
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2988
´خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔`
ابن اعبد کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا: کیا میں تمہیں اپنے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی جو آپ کو اپنے تمام کنبے والوں میں سب سے زیادہ محبوب اور پیاری تھیں کے متعلق نہ بتاؤں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے، آپ نے کہا: فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسی یہاں تک کہ ان کے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے، اور پانی بھربھر کر مشک لاتیں جس سے ان کے سینے میں درد ہونے لگا اور گھر میں جھاڑو دیتیں جس سے ان کے کپڑے خاک آلود ہو جاتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام اور لونڈیاں آئیں تو میں نے ان سے کہا: اچھا ہوتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2988]
فوائد ومسائل:
یہ روایت مذکورہ بالا تفصیل کے ساتھ اس سند سے ضعیف ہے۔
مگر بالاختصار یہ دوسری سند سے صحیح ثابت ہے جیسے کہ آئندہ حدیث نمبر 5062 میں موجود ہے۔
اور مذکورہ بالا تسبیحات انتہائی فضیلت رکھی ہیں۔
2۔
اور اس میں ایک بیٹی اور بیوی کو گھر والوں کا کام کرنے کی تلقین بھی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2988
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5062
´سوتے وقت تسبیح پڑھنے کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چکی پیسنے سے اپنے ہاتھ میں پہنچنے والی تکلیف کی شکایت لے کر گئیں، اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی لائے گئے تو وہ آپ کے پاس لونڈی مانگنے آئیں، لیکن آپ نہ ملے تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتا کر چلی آئیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو بتایا (کہ فاطمہ آئی تھیں ایک خادمہ مانگ رہی تھیں) یہ سن کر آپ ہمارے پاس تشریف لائے، ہم سونے کے لیے اپنی خواب گاہ میں لیٹ چکے تھے، ہم اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا: ”ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/أبواب النوم /حدیث: 5062]
فوائد ومسائل:
1۔
مندرجہ بالا تسبیحات جہاں فرض نمازوں کے بعد مستحب ہیں۔
وہاں رات کو سوتے وقت پڑھنا بھی مستحب ہیں۔
2۔
اگر انسان ایمان ویقین اور پابندی کے ساتھ اس پرعمل کرے تو ان کی برکت سے جسمانی تھکن دور ہونے کے علاوہ ایمان میں اضافہ اور درجات میں بلندی حاصل ہوتی ہے۔
جبکہ خادم کی بابت باز پُرس ہوگی۔
3۔
مسلمان بیوی اس امر کی پابند ہے۔
کہ شوہر کی خدمت اور گھر کے سارے کام سرانجام دے۔
جیسے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ازواج نبی کریمﷺ اور دیگر صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے معمولات سے ثابت ہے۔
اس لئے بعض لوگوں کا یہ دعویٰ کہ بیوی گھریلو امور کی پابند نہیں محض بے اصل بات ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5062
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:43
43- عبد الرحمٰن بن ابولیلیٰ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی خادم مانگ لیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمہارے لئے اس سے زیادہ بہتر ہو؟ تم سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمدللہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ (یہ روایت بیان کرنے کے بعد) سفیان نے کہا: ان میں سے کوئی ایک کلمہ 34 مرتبہ ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:43]
فائدہ:
اس حدیث میں یہ ذکر ہوا ہے کہ سوتے وقت ذکر و اذکار کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، اور وہ اذکار کافی زیادہ ہیں، اس حدیث میں جو ذکر بیان ہوا ہے وہ 33 بارسبحان اللہ، 33 بار الحمد للہ اور 34 بار اللہ اکبر ہے۔
عورت اپنے خاوند کے گھر میں گھریلو کام کرے گی، مثلاً آٹا گوندھنا، روٹی پکانا، کپڑوں اور گھر کی صفائی کرنا وغیرہ، بعض لوگ عورت کے ذمے صرف جماع لگاتے ہیں، ان کی یہ بات درست نہیں ہے، اگرممکن ہو سکے تو عورت خاوند کے بیرونی کاموں میں بھی شرعی پردہ میں رہ کر معاونت کرے گی، جس طرح سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا اپنے خاوند سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے بیرونی کاموں میں بھی معاونت کرتی تھیں۔ (صحیح البخاری: 5224)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی شرح میں مفصل بحث کی ہے۔ (فتح الباری: 672/11) عورت کو گھر یلو کام حتی الوسع خود کرنے چاہئیں اور خادم رکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر عورت گھر یلو کام کرنے کی طاقت نہیں رکھتی، مثلاً: بیمار ہے، تو ایسی صورت میں خاوند کو چاہیے کہ وہ گھر میں خادمہ کا اہتمام کرے۔ یاد رہے کہ عورت کے خادم کا نفقہ شوہر کے ذمے ہوگا۔ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے خادم کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں سوتے وقت ذکر کی تلقین کی، اس کے مختلف جوابات دیے گئے ہیں، مثلاً: ① تسبیح فاطمہ رضی اللہ عنہا سے انسان کو قوت مل جاتی ہے، جس سے سارے دن کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔
② ذکر و اذکار کا فائدہ آخرت کے ساتھ ہے، جبکہ خادم کا فائدہ دنیا کے ساتھ مختص ہے۔ آخرت دنیا کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور دائمی ہے۔ یہ بھی یادر ہے کہ ان اذکار کا اہتمام ہر رات سونے سے پہلے کرنا چاہیے، اس میں مرد وعورت سب شامل ہیں۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ بہت زیادہ متبع سنت تھے، جو بات سنتے تھے، اس پر عمل کرتے تھے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 43
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6915
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چکی پیسنے سے جو ہاتھوں کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی تھی۔ (ہاتھوں میں جو نشان پڑگئے) اس کی شکایت کی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تھے چنانچہ وہ گئیں۔ لیکن آپ مل نہ سکے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مل کر انہیں اپنی آمد کا مقصد بتایا تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کو آپ کے پاس حضرت فاطمہ کی آمد کا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6915]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے حافظ ابن تیمیہ رحمہُ اللہُ نے یہ استنباط کیا ہے،
سوتے وقت اس وظیفہ کی پابندی سے تکان دور ہوتی ہے اور بقول حافظ ابن حجر رحمہُ اللہُ اس وظیفہ کی پابندی کام کاج کی کثرت سے انسان ضرر اور نقصان سے محفوظ ہو جاتا ہے اور محنت و مشقت سے گرانی پیدا نہیں ہوتی اور آخرت میں کام آنے والے عمل زیادہ سود مند ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6915
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5362
5362. سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے ایک خادمہ دینے کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اس سے بہتر کی خبر دوں؟ (وہ یہ ہے کہ) سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اللہ کہو، 33 مرتبہ الحمد اللہ کہو اور 34 مرتبہ اللہ أکبر کہو۔“ راوی حدیث سیدنا سفیان کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک 34 مرتبہ ہے۔ (سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا:) میں نے اس کے بعد ان (تسبیحات) کو کبھی ترک نہیں کیا، کسی نے ان سے پوچھا: صفین کی رات بھی نہیں چھوڑا تھا؟ انہوں نے فرمایا: (میں نے) صفین کی رات بھی ان کی پابندی کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5362]
حدیث حاشیہ:
صفین وہ جگہ جہاں حضرت علی اور امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے درمیان جنگ برپا ہوئی تھی۔
حالت جنگ میں بھی آپ نے اس اہم ترین وظیفہ کو ترک نہیں فرمایا۔
وظیفہ کے کامیاب ہونے کی یہی شرط ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5362
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6318
6318. حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ کو چکی پسینے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف کا عارضہ ہوا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک خادم لینے کے لیے حاضر ہوئیں۔ آپ اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے اس کا ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ ؓ نے آپ اسے اس کا ذکر کیا۔ (حضرت علی ؓ نے) بیان کیا کہ آپ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اس وقت اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”یوں ہی لیٹے رہو۔“ پھر آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے حتٰی کہ میں نے آپ کے قدموں کو ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ تناؤں جو تمہارے لیے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو یا سونے کے لیے بستروں میں آؤ تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، اور تینتیس مرتبہ الحمد اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6318]
حدیث حاشیہ:
مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہزادی صاحبہ سے پوچھا میں نے سنا ہے کہ تم مجھ سے ملنے کو آئی تھی لیکن میں نہیں تھا کہو کیا کام ہے؟ انہوں نے عرض کیا حضرت ابا جان میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس لونڈی وغلام آئے ہیں۔
ایک غلام یا لونڈی ہم کو بھی دے دیجئے کیونکہ آٹا پیسنے یا پانی لانے میں مجھ کو سخت مشقت ہو رہی ہے، اس وقت آپ نے یہ وظیفہ بتلایا۔
دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا صفہ والے لوگ بھوکے ہیں، ان غلاموں کو بیچ کر ان کے کھلا نے کا انتظام کروں گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6318
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3113
3113. حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ کو چکی پیسنے کی بہت تکلیف ہوئی۔ پھر انھیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں تو وہ آپ کے پاس خدمت گار لینے کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں لیکن آپ سے ملاقات کا اتفاق نہ ہوسکا۔ انھوں نے حضرت عائشہ ؓسے اس کا تذکرہ کیا۔ جب نبی کریم ﷺ نے تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓنے آپ کے سامنے ان کی درخواست پیش کردی۔ (حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ) پھر نبی کریم ﷺ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم اپنے بستروں میں جا چکے تھے۔ ہم کھڑے ہونے لگے تو آپ نے فرمایا: ”اپنے بستروں ہی میں رہو۔“ پھر آپ بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں پائی۔ آپ نے فرمایا: ”میں تمھیں اس چیز سے بہتر بات نہ بتاؤں جس کی تم نے درخواست کی تھی؟ جب تم بستر میں جانے کا ارادہ کروتو 34 بار اللہ أکبر، 33بار الحمدللہ اور 33 بار سبحان اللہ پڑھ لیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3113]
حدیث حاشیہ:
اللہ تم کو ان کلمات کی وجہ سے ایسی طاقت دے گا کہ تم کوخادم کی حاجت نہ رہے گی۔
اپنا کا م آپ کرلوگی۔
بہ ظاہر یہ حدیث ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہے لیکن امام بخاری ؒنے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے جسے امام احمد ؒنے نکالا ہے۔
اس میں یوں ہے قسم اللہ کی مجھ سے یوں نہیں ہوسکتا کہ تم کو دوں اور صفہ والوں کو محروم کردوں‘ جن کے پیٹ بھوک کی وجہ سے پیچ کھا رہے ہیں۔
میرے پاس کچھ نہیں ہے جو ان پر خرچ کروں‘ ان قیدیوں کو بیچ کران کی قیمت ان پر خرچ کروں گا۔
اس سے آنحضرت ﷺ کی شان رحمت اس قدر نمایاں ہورہی ہے کہ باربار آپ پر درود شریف پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3113
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3705
3705. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ پاس قیدی آئے تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن اس وقت آپ موجود نہیں تھے، البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی اور ان سے اسکا تذکرہ کیا۔ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آنے کا مقصد بیان کیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس کے بعد نبی کریم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے بستر سے اٹھنا چاہا تو آپ نے فرمایا: ”اپنی جگہ لیٹے رہو۔“ اس کے بعد آپ ہمارے دونوں کے درمیان بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ آپ نے فرمایا: ”تم لوگوں نے مجھ سے جو مطالبہ کیا ہے میں تمھیں اس سے اچھی بات نہ بتاؤں؟جب تم سونے کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3705]
حدیث حاشیہ:
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص سوتے وقت اس حدیث پر عمل کرلیا کرے گا وہ اپنے اندر تھکن محسوس نہیں کرے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3705
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3113
3113. حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ کو چکی پیسنے کی بہت تکلیف ہوئی۔ پھر انھیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں تو وہ آپ کے پاس خدمت گار لینے کی درخواست لے کر حاضر ہوئیں لیکن آپ سے ملاقات کا اتفاق نہ ہوسکا۔ انھوں نے حضرت عائشہ ؓسے اس کا تذکرہ کیا۔ جب نبی کریم ﷺ نے تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓنے آپ کے سامنے ان کی درخواست پیش کردی۔ (حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ) پھر نبی کریم ﷺ ہمارے پاس اس وقت تشریف لائے جب ہم اپنے بستروں میں جا چکے تھے۔ ہم کھڑے ہونے لگے تو آپ نے فرمایا: ”اپنے بستروں ہی میں رہو۔“ پھر آپ بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں پائی۔ آپ نے فرمایا: ”میں تمھیں اس چیز سے بہتر بات نہ بتاؤں جس کی تم نے درخواست کی تھی؟ جب تم بستر میں جانے کا ارادہ کروتو 34 بار اللہ أکبر، 33بار الحمدللہ اور 33 بار سبحان اللہ پڑھ لیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3113]
حدیث حاشیہ:
1۔
قرآن مجید میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے علاوہ خمس کے چار مصرف بیان ہوئے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار، یتیم مساکین اور مسافر حضرات۔
یہ خمس کے حقدار نہیں بلکہ مصارف ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے لیے یہ ضروری نہیں تھا کہ خمس کو ان تمام مصارف میں خرچ کرتے بلکہ اپنی صوابدید کے مطابق جہاں چاہتے خرچ کرنے کے مجازتھے۔
یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت فاطمہ ؓ کو خدمت گزار عطا نہیں فرمایا، حالانکہ وہ ضرورت مند تھیں اورقرابت دار بھی تھیں۔
اگرقرابت داری استحقاق کا باعث ہوتی تو رسول اللہ ﷺ انھیں ضرور خادم دیتے۔
اگرچہ اس حدیث میں اہل صفہ کا ذکر نہیں، تاہم امام بخاری ؒنے اس حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
”اللہ کی قسم! میں ایسا نہیں کرسکتا کہ تمھیں دوں اور اہل صفہ کو نظر انداز کردوں جبکہ ان کے پیٹ بھوک کی وجہ سے کمر سے لگے ہوئے ہیں اور میرے پاس ان پر خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
میں ان قیدیوں کو فروخت کرکے ان سے حاصل ہونے والی رقم اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔
“ (مسندأحمد: 106/1)
2۔
بہرحال مال غنیمت کے چارحصے تو مجاہدین کے لیے ہیں اور ایک حصہ امام کی صوابدید پر موقوف ہے، وہ اسے جہاں چاہے جیسے خرچ کرسکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3113
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3705
3705. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے چکی پیسنے کی تکلیف کی شکایت کی۔ اس کے بعد نبی کریم ﷺ پاس قیدی آئے تو وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن اس وقت آپ موجود نہیں تھے، البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کی ملاقات ہوئی اور ان سے اسکا تذکرہ کیا۔ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے آنے کا مقصد بیان کیا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس کے بعد نبی کریم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے بستر سے اٹھنا چاہا تو آپ نے فرمایا: ”اپنی جگہ لیٹے رہو۔“ اس کے بعد آپ ہمارے دونوں کے درمیان بیٹھ گئے حتیٰ کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ آپ نے فرمایا: ”تم لوگوں نے مجھ سے جو مطالبہ کیا ہے میں تمھیں اس سے اچھی بات نہ بتاؤں؟جب تم سونے کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3705]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کو مناقب علی میں اس لیے لایا گیا ہے کہ آپ کا مقام اور مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بہت زیادہ تھا،نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بستر پر جابیٹھے یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہےاور آپ نے جو امرِ آخرت اپنی بیٹی کے لیے پسند فرمایا وہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے بھی پسند فرمایا،چنانچہ وہ دونوں اس پر راضی ہوگئے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الخمس میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:
”آپ نے اہل صفہ اور بیواؤں کو دنیا کے معاملے میں ترجیح دی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو امرآخرت کے سلسلے میں اللہ کے حوالے کردیا تاکہ وہاں اس کا اجروثواب حاصل کریں۔
“ (صحیح البخاري، فرض الخمس، باب: 6)
2۔
بہرحال اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لخت جگر اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کس قدر محبت کرتے تھے اور اس کے باوجود آپ نے انھیں دنیا وہ لذتوں سے دور رکھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3705
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5362
5362. سیدنا علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے ایک خادمہ دینے کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اس سے بہتر کی خبر دوں؟ (وہ یہ ہے کہ) سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اللہ کہو، 33 مرتبہ الحمد اللہ کہو اور 34 مرتبہ اللہ أکبر کہو۔“ راوی حدیث سیدنا سفیان کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک 34 مرتبہ ہے۔ (سیدنا علی بن ابی طالب ؓ نے فرمایا:) میں نے اس کے بعد ان (تسبیحات) کو کبھی ترک نہیں کیا، کسی نے ان سے پوچھا: صفین کی رات بھی نہیں چھوڑا تھا؟ انہوں نے فرمایا: (میں نے) صفین کی رات بھی ان کی پابندی کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5362]
حدیث حاشیہ:
(1)
صفین، عراق اور شام کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے جہاں حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان سخت معرکہ ہوا تھا۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خاوند کے ذمے گھریلو کام کاج کے لیے کسی نوکرانی کا بندوبست کرنا ضروری نہیں کیونکہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی قسم کا مطالبہ نہیں کیا، حالانکہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا گھریلو کام کاج کی وجہ سے سخت تکلیف میں تھیں۔
اگر یہ امر واجب ہوتا تو آپ ضرور حکم دیتے۔
آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق مہر کے متعلق ضرور کہا تھا کہ وہ پہلے ادا کر دیں، حالانکہ اسے مؤخر بھی کیا جا سکتا تھا بشرطیکہ بیوی رضا مند ہو۔
لیکن اگر خادم کا بندوبست کرنا خاوند کے ذمے ہوتا تو آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کا ضرور مطالبہ کرتے۔
(3)
گھریلو کام کاج کرنا عورت کی ذمہ داری ہے جبکہ گھر سے باہر کی خدمات خاوند کے ذمے ہیں، ہاں اگر عورت کمزور ہے اور وہ گھر کا کام نہیں کر سکتی تو خاوند کو چاہیے کہ وہ اس کا بندوبست کرے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ان عورتوں سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو۔
“ (النساء: 4/19)
اگر کوئی خاوند ضرورت کے باوجود گھر کا نظام چلانے کے لیے کوئی بدوبست نہیں کرتا تو گویا وہ حسن معاشرت سے راہ فرار اختیار کرتا ہے۔
اس واقعے سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ گھر کے داخلی امور بیوی کے ذمے ہیں اور بیرونی معاملات و خدمات کی بجا آوری خاوند کی ڈیوٹی ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5362
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6318
6318. حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ ؓ کو چکی پسینے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف کا عارضہ ہوا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں ایک خادم لینے کے لیے حاضر ہوئیں۔ آپ اس وقت گھر میں موجود نہیں تھے۔ انہوں نے سیدہ عائشہ ؓ سے اس کا ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو سیدہ عائشہ ؓ نے آپ اسے اس کا ذکر کیا۔ (حضرت علی ؓ نے) بیان کیا کہ آپ ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے جبکہ ہم اس وقت اپنے بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ میں نے اٹھنے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”یوں ہی لیٹے رہو۔“ پھر آپ ہمارے درمیان بیٹھ گئے حتٰی کہ میں نے آپ کے قدموں کو ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ تناؤں جو تمہارے لیے خادم سے بہتر ہو؟ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو یا سونے کے لیے بستروں میں آؤ تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ، اور تینتیس مرتبہ الحمد اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6318]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک مسلمان بیوی اس امر کی پابند ہے کہ وہ شوہر کی خدمت کے علاوہ گھر کے تمام کام سر انجام دے جیسا کہ سیدات اہل بیت، عام مسلمانوں کی خواتین حتی کہ امہات المومنین اپنے اپنے گھروں میں گھر داری کے تمام کام کرتی تھیں، اس لیے بعض فقہاء کا یہ کہنا کہ بیوی پر اپنے شوہر کی دلداری کے علاوہ کچھ واجب نہیں محض بے اصل اور بے بنیاد بات ہے۔
ایک دوسرے واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سیدات کو یہ وظیفہ فرض نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین کی تھی۔
(سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2987) (2)
یہ وظیفہ "تسبیح فاطمہ" کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی خوب خوب پابندی کی حتی کہ صفین کی رات جس میں وہ انتہائی مصروف تھے، اس میں بھی انہوں نے اسے پڑھا جیسا کہ ایک روایت میں ہے۔
(صحیح البخاري، النفقات، حدیث: 5362)
البتہ مصروفیت کی وجہ سے رات کے پہلے حصے میں پڑھنے کے بجائے آخری حصے میں اسے پڑھا۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5064)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
”بیٹی! اہل صفہ کی فاقہ کشی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔
وہ اکثر بھوکے رہتے ہیں۔
میں ان غلاموں کو بیچ کر ان کے کھانے کا بندوبست کرنا چاہتا ہوں۔
“ (مسند أحمد: 106/1)
دوسری حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
”شہدائے بدر کے یتیم بچے تم سے پہلے لے چکے ہیں، میں انہیں دوں گا، ان کا زیادہ حق ہے۔
“ (سنن أبي داود، الخراج، حدیث: 2987) (3)
ہمارے ہاں سرکاری افسران میں اقربا پروری کا رجحان ہے، اس حدیث سے ان حضرات کی خوب خوب تردید ہوتی ہے۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6318