Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
46. بَابُ تُحِدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا:
باب: جس عورت کا شوہر مر جائے وہ چار مہینے دس دن تک سوگ منائے۔
حدیث نمبر: 5337
قَالَ حُمَيْدٌ فَقُلْتُ لِزَيْنَبَ وَمَا تَرْمِي بِالْبَعَرَةِ عَلَى رَأْسِ الْحَوْلِ فَقَالَتْ زَيْنَبُ كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا دَخَلَتْ حِفْشًا، وَلَبِسَتْ شَرَّ ثِيَابِهَا، وَلَمْ تَمَسَّ طِيبًا حَتَّى تَمُرَّ بِهَا سَنَةٌ، ثُمَّ تُؤْتَى بِدَابَّةٍ حِمَارٍ أَوْ شَاةٍ أَوْ طَائِرٍ فَتَفْتَضُّ بِهِ، فَقَلَّمَا تَفْتَضُّ بِشَيْءٍ إِلاَّ مَاتَ، ثُمَّ تَخْرُجُ فَتُعْطَى بَعَرَةً فَتَرْمِي، ثُمَّ تُرَاجِعُ بَعْدُ مَا شَاءَتْ مِنْ طِيبٍ أَوْ غَيْرِهِ. سُئِلَ مَالِكٌ مَا تَفْتَضُّ بِهِ قَالَ تَمْسَحُ بِهِ جِلْدَهَا.
حمید نے بیان کیا کہ میں نے زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ سال بھر تک مینگنی پھینکنی پڑتی تھی؟ انہوں نے فرمایا کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو وہ ایک نہایت تنگ و تاریک کوٹھڑی میں داخل ہو جاتی۔ سب سے برے کپڑے پہنتی اور خوشبو کا استعمال ترک کر دیتی۔ یہاں تک کہ اسی حالت میں ایک سال گزر جاتا پھر کسی چوپائے گدھے یا بکری یا پرندہ کو اس کے پاس لایا جاتا اور وہ عدت سے باہر آنے کے لیے اس پر ہاتھ پھیرتی۔ ایسا کم ہوتا تھا کہ وہ کسی جانور پر ہاتھ پھیر دے اور وہ مر نہ جائے۔ اس کے بعد وہ نکالی جاتی اور اسے مینگنی دی جاتی جسے وہ پھینکتی۔ اب وہ خوشبو وغیرہ کوئی بھی چیز استعمال کر سکتی تھی۔ امام مالک سے پوچھا گیا کہ «تفتض به» کا کیا مطلب ہے تو آپ نے فرمایا وہ اس کا جسم چھوتی تھی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5337 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5337  
حدیث حاشیہ:
(1)
دور جاہلیت میں جس عورت کا خاوند فوت ہو جاتا وہ ایک سال تک عدت گزارتی اور انتہائی بدترین طریقے سے زندگی کے یہ دن پورے کرتی جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔
اس کا اشارہ قرآنِ کریم میں بھی ہے:
اور جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ اپنی عورتوں کے حق میں ایک سال تک خرچہ دینے کی وصیت کر جائیں، نیز انھیں اس مدت میں گھر سے نہ نکالا جائے۔
(البقرة: 240)
پھر ان کے متعلق ایک دوسرا حکم نازل ہوا کہ وہ چار ماہ دس دن تک عدت پوری کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار ماہ دس دن تک عدت میں رکھیں۔
(البقرۃ: 234)
یہ اس صورت میں ہے جب بیوی حاملہ نہ ہو، حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی عدت وضع حمل ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے۔
چار ماہ دس دن عدت گزارنے میں یہ حکمت ہے کہ عورت کے پیٹ میں بچے کی تخلیق اور اس میں روح پھونکنے کا معاملہ ایک سو بیس دن کے بعد ہوتا ہے جس کے چار ماہ بنتے ہیں، چونکہ چاند کی کمی بیشی سے فرق ہو سکتا ہے، اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے اس تعداد پر دس دن کا اضافہ کیا گیا ہے۔
(فتح الباري: 603/9) (2)
دوران عدت میں وہ زیب و زینت نہیں کرے گی جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
زمانۂ عدت میں رنگ دار لباس نہ پہنے، لیکن رنگے ہوئے سوت کا کپڑا پہن سکتی ہے، سرمہ نہ لگائے اور خوشبو بھی استعمال نہ کرے۔
(صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5341)
ایک روایت میں ہے کہ وہ مہندی نہ لگائے۔
(سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2302)
سنن نسائی میں ہے کہ وہ کنگھی بھی نہ کرے۔
(سنن النسائي، الطلاق، حدیث: 3564)
اس عورت کے علاوہ دیگر عورتوں، یعنی مطلقہ وغیرہ پر عدت تو ہے لیکن سوگ کی پابندی نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5337