صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
41. بَابُ قِصَّةِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ:
باب: فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کا واقعہ۔
حدیث نمبر: 5325
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ لِعَائِشَةَ:" أَلَمْ تَرَيْ إِلَى فُلَانَةَ بِنْتِ الْحَكَمِ طَلَّقَهَا زَوْجُهَا الْبَتَّةَ، فَخَرَجَتْ، فَقَالَتْ: بِئْسَ مَا صَنَعَتْ، قَالَ: أَلَمْ تَسْمَعِي فِي قَوْلِ فَاطِمَةَ، قَالَتْ: أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ لَهَا خَيْرٌ فِي ذِكْرِ هَذَا الْحَدِيثِ"، وَزَادَ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَابَتْ عَائِشَةُ أَشَدَّ الْعَيْبِ، وَقَالَتْ:" إِنَّ فَاطِمَةَ كَانَتْ فِي مَكَانٍ وَحْشٍ فَخِيفَ عَلَى نَاحِيَتِهَا، فَلِذَلِكَ أَرْخَصَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن مہدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن قاسم نے، ان سے ان کے والد نے کہ عروہ بن زبیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آپ فلانہ (عمرہ بنت حکم) بنت حکم کا معاملہ نہیں دیکھتیں۔ ان کے شوہر نے انہیں طلاق بائنہ دے دی اور وہ وہاں سے نکل آئیں (عدت گزارے بغیر)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جو کچھ اس نے کیا بہت برا کیا۔ عروہ نے کہا آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے متعلق نہیں سنا۔ بتلایا کہ اس کے لیے اس حدیث کو ذکر کرنے میں کوئی خیر نہیں ہے اور ابن ابی زناد نے ہشام سے یہ اضافہ کیا ہے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (عمرہ بنت حکم کے معاملہ پر) اپنی شدید ناگواری کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا تو ایک اجاڑ جگہ میں تھیں اور اس کے چاروں طرف خوف اور وحشت برستی تھی، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (وہاں سے منتقل ہونے کی) انہیں اجازت دے دی تھی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5325 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5325
حدیث حاشیہ:
(1)
جس عورت کو طلاق رجعی ملی ہو وہ دوران عدت میں اپنے خاوند کی بیوی ہی رہتی ہے، اس لیے اس کی رہائش اور دیگر اخراجات کی ذمے داری اس کے خاوند پر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”خرچہ اور رہائش عورت کے لیے تب ہے جب اس خاوند اس پر رجوع کا حق رکھتا ہو۔
“ (مسند أحمد: 373/6)
لیکن تیسری طلاق کے بعد خاوند کے ذمے اپنی بیوی کے لیے رہائش اور خرچہ نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا:
”تیرے لیے کوئی رہائش یا خرچہ نہیں ہے۔
“ (صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3698 (1480)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ مذکورہ روایات کا انکار کرتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو کہتے تھے کہ ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی علیہ السلام کی سنت کو ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑ سکتے۔
ہم نہیں جانتے کہ اسے یاد ہے یا وہ بھول گئی ہے۔
جب مروان نے یہی بات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہی تو انھوں نے کہا:
میرے اور تمھارے درمیان فیصلہ کرنے والی اللہ کی کتاب ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
”عورتوں کو ان کی عدت میں طلاق دو......“ حتی کہ فرمایا:
”تم نہیں جانتے شاید اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نیا حکم لے آئے“ تو تیسری طلاق کے بعد کے کون سا نیا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے؟ (صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3704، 3710 (1480) (2)
اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی فہم کے مطابق انکار کیا لیکن حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما جلیل القدر صحابیہ ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح حکم بیان کرتی ہیں، اس لیے ان کی اس بات کو حجت تسلیم کیا جائے گا کہ تیسری طلاق والی عورت کے لیے نہ تو رہائش ہے اور نہ خاوند خرچہ دینے ہی کا پابند ہے ہاں، تیسری طلاق ملتے وقت اگر حاملہ ہو تو خاوند کے ذمے اس کے اخراجات ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
”تیرے لیے کوئی خرچہ نہیں الا یہ کہ تو حاملہ ہو۔
“ (مسند أحمد: 414/6) (3)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان علیحدگی یا تو طلاق کے ذریعے سے ہوگی یا وفات کے ذریعے سے یا فسخ نکاح کے ذریعے سے اگر طلاق کے ذریعے سے جدائی عمل میں آئی تو پھر طلاق رجعی ہوگی یا طلاق بائن، اگر طلاق رجعی ہے تو شوہر پر خرچہ اور رہائش دونوں لازم ہیں، خواہ وہ حاملہ ہو یا نہ ہو، اور اگر طلاق بائنہ ہے تو شوہر پر نہ خرچہ ہے اور نہ رہائش الا یہ کہ عورت حاملہ ہو تو خرچہ لازم ہے رہائش ضروری نہیں ہے۔
اگر وفات کے ذریعے سے جدائی ہو تو مرد پر رہائش اور خرچہ دونوں ضروری نہیں ہیں، البتہ اگر حاملہ ہے تو مرد کے ذمے خرچہ لازم ہے۔
اگر فسخ کے ذریعے سے جدائی ہو تو وہ لعان کے ذریعے سے ہوگی یا خلع کے ذریعے سے، اگر لعان کے ذریعے سے جدائی ہو تو مرد کے ذمے خرچہ اور رہائش لازمی نہیں، خواہ عوارت حامل ہی کیوں نہ ہو کیونکہ مرد نے تو حمل کا بھی انکار کر دیا ہے اور اگر خلع کے ذریعے سے فسخ نکاح ہو تو خرچہ اور رہائش دونوں لازم نہیں ہیں الا یہ کہ عورت حاملہ ہو تو مطلقہ بائنہ کی طرح عموم آیت کی وجہ سے صرف خرچہ ہی لازم آئے گا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5325