صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
39. بَابُ: {وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ} :
باب: حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ بچہ جنیں۔
حدیث نمبر: 5318
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ الْأَعْرَجِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ، عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَسْلَمَ يُقَالُ لَهَا: سُبَيْعَةُ كَانَتْ تَحْتَ زَوْجِهَا تُوُفِّيَ عَنْهَا وَهِيَ حُبْلَى، فَخَطَبَهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ، فَأَبَتْ أَنْ تَنْكِحَهُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا يَصْلُحُ أَنْ تَنْكِحِيهِ حَتَّى تَعْتَدِّي آخِرَ الْأَجَلَيْنِ، فَمَكُثَتْ قَرِيبًا مِنْ عَشْرِ لَيَالٍ، ثُمَّ جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: انْكِحِي".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے، کہا کہ مجھے خبر دی ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہ زینب ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی والدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے خبر دی کہ ایک خاتون جو اسلام لائی تھیں اور جن کا نام سبیعہ تھا، اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھیں، شوہر کا جب انتقال ہوا تو وہ حاملہ تھیں۔ ابوسنان بن بعکک رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا لیکن انہوں نے نکاح کرنے سے انکار کیا۔ ابوالسنابل نے کہا کہ اللہ کی قسم! جب تک عدت کی دو مدتوں میں سے لمبی نہ گزار لوں گی، تمہارے لیے اس سے (جس سے نکاح وہ کرنا چاہتی تھیں) نکاح کرنا صحیح نہیں ہو گا۔ پھر وہ (وضع حمل کے بعد) تقریباً دس دن تک رکی رہیں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب نکاح کر لو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5318 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5318
حدیث حاشیہ:
ابوالسنابل نے عورت کویہ غلط مسئلہ سنا کر اس کو بہکایا کہ بالفعل وہ اپنا نکاح ملتوی کر دے تو اس کے عزیز و اقرباء جو اس وقت موجود نہ تھے آ جائیں گے اور وہ اس کو سمجھا بجھا کر مجھ سے نکاح پر راضی کر دیں گے۔
دو مدتوں سے ایک وضع حمل کی مدت ہے، دوسری چار ماہ دس دن کی مدت ہے۔
جس کے لیے ابو السنابل نے فتویٰ دیا تھا حالانکہ حاملہ کی عدت وضع حمل ہے اور بس۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5318
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3546
´حاملہ عورت (جس کا شوہر مر گیا ہو) کی عدت کا بیان۔`
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ زینب بنت ابی سلمہ نے اپنی ماں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سن کر مجھے خبر دی کہ قبیلہ اسلم کی سبیعہ نامی ایک عورت اپنے شوہر کے ساتھ رہ رہی تھی اور حاملہ تھی (اسی دوران) شوہر کا انتقال ہو گیا تو ابوسنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ نے اسے شادی کا پیغام دیا جسے اس نے ٹھکرا دیا، اس نے اس سے کہا: تیرے لیے درست نہیں ہے کہ دونوں عدتوں میں سے آخری مدت کی عدت پوری کئے بغیر شادی کرے۔ پھر وہ تقریباً بیس راتیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3546]
اردو حاشہ:
ظاہر الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوسنابل نے وفات کے بعد ہی شادی کا پیغام بھیج دیا تھا لیکن یہ تأثر درست نہیں۔ دراصل انہوں نے بچے کی پیدائش کے بعد پیغام بھیجا تھا۔ بیان میں تقدیم وتاخیر ہوگئی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3546