مشكوة المصابيح
كتاب البيوع
كتاب البيوع
بار بار شہید ہو جانا بھی قرض کا کفارہ نہیں
حدیث نمبر: 2929
وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا بِفِنَاءِ الْمَسْجِدِ حَيْثُ يُوضَعُ الْجَنَائِز وَرَسُول الله جَالِسٌ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَصَره قبل السَّمَاء فَنظر ثُمَّ طَأْطَأَ بَصَرَهُ وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ قَالَ: «سُبْحَانَ الله سُبْحَانَ الله مَا نَزَلَ مِنَ التَّشْدِيدِ؟» قَالَ: فَسَكَتْنَا يَوْمَنَا وَلَيْلَتَنَا فَلَمْ نَرَ إِلَّا خَيْرًا حَتَّى أَصْبَحْنَا قَالَ مُحَمَّدٌ: فَسَأَلْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا التَّشْدِيدُ الَّذِي نَزَلَ؟ قَالَ: «فِي الدَّيْنِ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ عَاشَ ثُمَّ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ عَاشَ ثُمَّ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ عَاشَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّةَ حَتَّى يُقْضَى دَيْنُهُ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَفِي شَرْحِ السُّنَّةِ نَحْوَهُ
محمد بن عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم مسجد کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے، جہاں جنازے رکھے جاتے تھے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا پھر نظر کو جھکایا اور اپنا ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھ کر (تعجب سے) فرمایا: ”سبحان اللہ! سبحان اللہ! کیسی سختی نازل ہوئی۔ “ راوی بیان کرتے ہیں، ہم دن بھر اور پوری رات خاموش رہے، اور ہم نے خیر ہی خیر دیکھی، حتی کہ صبح ہو گئی، محمد(راوی) بیان کرتے ہیں، میں نے رسول الل�� صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا، وہ کون سا عذاب ہے جو نازل ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”قرض کے بارے میں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے! اگر کوئی آدمی اللہ کی راہ میں شہید کر دیا جائے، وہ پھر زندہ ہو، پھر اللہ کی راہ میں شہید کر دیا جائے، پھر زندہ ہو، پھر اللہ کی راہ میں شہید کر دیا جائے، پھر زندہ ہو اور اس کے ذمے قرض ہو تو وہ جنت میں نہیں جائے گا، حتی کہ اس کا قرض ادا کر دیا جائے۔ “ احمد۔ اور شرح السنہ میں اس کی مثل ہے۔ اسنادہ صحیح، رواہ احمد و فی شرح السنہ۔
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «إسناده صحيح، رواه أحمد (289/5. 290 ح 22860) و البغوي في شرح السنة (201/8 ح 2145) [والنسائي 314/7، 315ح 4688]»
قال الشيخ الألباني: لم تتمّ دراسته
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح