Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الطَّلَاقِ
کتاب: طلاق کے مسائل کا بیان
24. بَابُ الإِشَارَةِ فِي الطَّلاَقِ وَالأُمُورِ:
باب: اگر طلاق وغیرہ اشارے سے دے مثلاً کوئی گونگا ہو تو کیا حکم ہے؟
حدیث نمبر: 5293
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَعِيرِهِ، وَكَانَ كُلَّمَا أَتَى عَلَى الرُّكْنِ أَشَارَ إِلَيْهِ وَكَبَّرَ، وَقَالَتْ زَيْنَبُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فُتِحَ مِنْ رَدْمِ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مِثْلُ هَذِهِ وَعَقَدَ تِسْعِينَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک بن عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف اپنے اونٹ پر سوار ہو کر کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی رکن کے پاس آتے تو اس کی طرف اشارہ کر کے تکبیر کہتے اور زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یاجوج ماجوج کے دیوار میں اتنا سوراخ ہو گیا ہے اور آپ نے اپنی انگلیوں سے نوے کا عدد بنایا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5293 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5293  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی چند اشارات کو معتبر سمجھا گیا حدیث اور باب میں یہی وجہ مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5293   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5293  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5293 کا باب: «بَابُ الإِشَارَةِ فِي الطَّلاَقِ وَالأُمُورِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں اشارہ کے ذریعے طلاق کے نافذ ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جب کہ اشارہ مفہمہ ہو اور اپنے بیان کردہ مفہوم کو واضح کر رہا ہو، چنانچہ اس موقف کو ثابت کرنے کے لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب چھ تعلیقیات اور سات موصول احادیث ذکر فرمائی ہیں، جن میں کس نہ کسی مسئلے کے لئے اشارہ کرنا وارد ہوا ہے، جو کہ ترجمۃ الباب کا مقصد ہے۔

تعلیقات میں جو روایات منقول ہیں، ان میں:
➊ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت جس میں «واشار الي لسانه» ہے، جس کا تعلق باب سے واضح ہے،
➋ کعب بن مالک سے جو روایت مروی ہے اس میں بھی «اشار النبى صلى الله عليه وسلم» کے الفاظ باب سے مطابقت رکھتے ہیں،
➌ اسماء رضی اللہ عنہا کا واقعہ اس میں «فأومت برأسها الي الشمس» اس کی بھی مناسبت باب سے واضح ہے،
➍ انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں «اوما النبى صلى الله عليه وسلم بيده» اس کی مناسبت باب سے ظاہر ہے،
➎ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں «او ما بيده لا حرج» کے الفاظ مناسبت رکھتے ہیں،
➏ اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ «أو اشار اليها» باب سے مناسبت رکھتے ہیں۔

اسی طرح سے موصولاً روایات کا تعلق بھی ترجمۃ الباب سے قائم ہے، مثلاً:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا باب سے تعلق ان الفاظوں کے ساتھ ہے «فتح ياجوج و ماجوج مثل هذه»، «و عقد تسعين»
اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کا تعلق «و قال بيده»، «ووضع أنملته على بطن الوسطي و الخنضر» سے ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا تعلق ترجمۃ الباب سے «فأشارت برأسها» سے ہے، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کا «واشار الي المشرق» کے الفاظ کے ساتھ ہے، سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی حدیث کا تعلق «ثم اومأ بيده الي المشرق» کے ساتھ ہے۔
اور سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کا تعلق «وأظهر يزيد يديه ثم مد احداهما من الاخري» یزید کے ان الفاظ کے ساتھ ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی آخری حدیث کا تعلق «و يشير باصبعه الي حلقه» کے ساتھ ہے۔
ان تمام احادیث میں اشارہ مذکورہ ہے جو کہ دلیل ہے اس امر کی طرف اگر اشارہ مفہم ہو تو وہ اشارہ حجت بن جاتا ہے، چنانچہ ابن المنیر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
«يشير إلى طلاق الأخرص و غيره و الاشاره الي الاصل والعدد نافذ كاللفظ، بدليل أن الاشاره مفهمة، فساوت اللفظ فى مقصوده، و اعتبار الشرع لها دليلاً كالنطق يحقق ذلك» [المتوري: ص 302]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب سے یہ مقصد ہے کہ اگر اشارہ ایسا ہو جس سے اصل اور عدد دونوں مفہوم واضح ہو رہے ہوں تو طلاق اور دوسرے معاملات میں معتبر ہو گا، چاہے وہ گونگے کا اشارہ ہو، یا پھر قادر علی الکلام کا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابن بطال رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ:
«ذهب الجهور إلى أن الاشارة اذا كان مفهمة تتنزل منزلة النطق وخالفه الحنفية فى بعض ذلك ولعل البخاري رد عليهم بهذه الاحاديث التى جعل فيها النبى صلى الله عليه وسلم الاشارة قائمة مقام النطق .» [فتح الباري لابن حجر: 374/10]
جمہور کا رجحان اس طرف ہے کہ اگر اشارہ اتنا واضح ہو کہ وہ نطق کے ہم پلہ ہو تو جائز ہے، اس (قاعدے) کی مخالفت بعض میں احناف نے کی ہے، شاید امام بخاری رحمہ اللہ ان احادث کے ذریعے (احناف) کا رد فرما رہے ہیں، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے کو نطق کے قائم مقام ٹھرایا ہے اور اشارہ کرنا اس وقت جائز ہوتا ہے جب کہ دیانت کے ساتھ مختلف احکام میں اشارہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور نطق نہیں ہے، (ان حالات میں اشارہ کرنا) جائز ہے اور یہ نطق کے قائم مقام ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود ترجمۃ الباب کے تحت آثار اور احادیث سے یہ اشارہ کرنا ہے کہ گونگے کا اشارہ کرنا اگر واضح ہو تو وہ بمنزلت نطق کے ہے۔
احکام کے ترتیب میں اور یقیناًً شرع نے (گونگے کا اشارہ کرنا اگر واضح ہو تو) اعتبار کیا ہے اور اس کا حکم الفاظوں کی طرح ہے۔
ان تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ احادیث کے ذریعے جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشاروں کا ذکر ہے ان کے ذریعے اس مسئلے کی طرف اشارہ فرمایا کہ اگر اشارہ مفہمہ ہو اور صحیح موقف کو واضح کر ہا ہو تو ان اشارات کو دلیل بنایا جا سکتا ہے، بعین اسی طرح سے اگر گونگا اپنی بیوی کو طلاق دینے کے لئے اشارہ کرے اور وہ اشارہ واضح ہو تو طلاق کا حکم نافذ ہو گا اور اس کا نفاذ ایسے ہی ہو گا جیسا کہ بولنے والے الفاظوں کے ذریعے طلاق کی ادائیگی کرے گا۔ پس یہیں سے باب احادیث اور آثار میں مناسبت ہو گی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 110